0
Wednesday 28 Oct 2020 23:43

عمران حکومت کراچی کے جزائر کو آباد کیوں کرنا چاہتی ہے؟

عمران حکومت کراچی کے جزائر کو آباد کیوں کرنا چاہتی ہے؟
رپورٹ: ایم رضا

میڈیا پر وفاق اور صوبہ سندھ کے درمیان جزائر پر قبضے کی جنگ کو مون سون کی بارشوں نے وقتی طور پر ٹھنڈا کر دیا تھا مگر وفاق کی جانب سے جاری کردہ حالیہ آرڈیننس سے یہ تنازع ایک بار پھر سے گرم ہوچکا ہے اور فریقین کے تیور بتا رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ اور بڑھے گا۔ وزارت برائے سمندری امور کی ویب سائٹ پر موجود "پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020ء" گذشتہ ماہ کی دو تاریخ کو جاری کیا گیا اور 25 صفحات پر مشتمل اس آرڈیننس کے مطابق بلوچستان اور سندھ کے ساحلوں پر موجود جزائر کی ترقی کے لئے ایک "پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی" قائم کر دی گئی ہے۔ وفاقی حکومت ملک کی ساحلی پٹی (سندھ اور بلوچستان) پر موجود ان تمام غیر آباد جزائر پر جدید شہر بسانے کا ارادہ رکھتی ہے، تاکہ نہ صرف سرمایہ کاری ملک میں آسکے بلکہ مقامی لوگ بھی خوش حال ہوں۔ اس کام کی ابتداء وہ سندھ کے ساحل پر موجود دو جزیروں بھنڈر اور ڈنگی سے کرنا چاہتی ہے۔

صدر پاکستان جناب عارف علوی کی جانب سے جاری کردہ یہ آرڈیننس دو ستمبر 2020ء کو جاری کیا گیا اور سرکاری گزیٹ میں شامل کیا گیا، لیکن حیرت انگیز طور پر اس کے اجراء کی خبر میڈیا سے مخفی رہی، تاوقتیکہ کہ اس کے چیئرمین کے عہدے کے لئے ویب سائٹ پر اشتہار جاری کیا گیا۔ صوبہ سندھ میں اس آرڈیننس کے خلاف شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اور سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم میدان جنگ بنے ہوئے ہیں۔ سندھ کی جانب اسے صوبے کے وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش قرار دی جا رہی ہیں، تاہم حکومت سندھ کی جانب سے ابھی تک خاموشی کی کیفیت طاری ہے۔ اس سلسلے میں صرف ایک نمایاں ٹویٹ سامنے آئی ہے، جو کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی انفارمیشن سیکرٹری نفیسہ شاہ کی جانب سے کی گئی ہے، جس میں انہوں نے اس آرڈیننس کو غیر قانونی قرار دیا لیکن اس کے ساتھ ہی پی پی پی کے سینیئر رہنماء نثار کھوڑو کا بھی ایک سندھی چینل پر چلنے والا ٹی وی کلپ بھی سامنے آیا، جس میں وہ اسے مقامی افراد کی ترقی قرار دے رہے ہیں۔

آرڈیننس کے مطابق بھنڈر اور ڈنگی سمیت بلوچستان اور سندھ کے ساحلوں پر موجود تمام جزائر اب وفاق کی ملکیت ہیں اور انہیں شیڈول ون میں رکھا گیا ہے۔ آرڈیننس میں پانی کی حدود کے حوالے سے "ٹیریٹوریل واٹرز اینڈ میری ٹائم زونز ایکٹ 1976ء" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ساحل سے سمندر کے اندر 12 ناٹیکل میل تک کا حصہ اب اتھارٹی کی ملکیت تصور کیا جائے گا۔ آرڈیننس کے مطابق اس اتھارٹی کا دفتر کراچی میں اور اس کے سربراہ وزیراعظم پاکستان خود ہوں گے۔ اتھارٹی کے معاملات چلانے کے لئے پانچ سے لے کر 11 ممبران پر مشتمل ایک بورڈ بھی تشکیل دیا جائے گا۔ اس بورڈ کا سربراہ چیئرمین ہوگا، جسے پانچ سالوں کے لئے منتخب کیا جائے گا۔ اتھارٹی کو دیئے گئے اختیارات کے مطابق یہ اتھارٹی ان جزائر کی زمین کو منتقل، استعمال، ٹیکس کی وصولی اور ان زمینوں کی فروخت کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ آرڈیننس کی شق نمبر 49 کے مطابق اسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔ جزائر پر جدید شہر بسانے کا یہ خیال وفاق کو یکایک نہیں آیا، اس کی کڑیاں صدر مشرف دور سے ملتی ہیں۔

ان جزیروں کا تذکرہ سب سے پہلے 2006ء میں میڈیا کے ذریعے سامنے آیا، جب اُس وقت کی حکومت ان جزیروں پر دنیا کے جدید شہر بسانا چاہتی تھی اور اس کے لئے اس نے متحدہ عرب امارات کے ایک تعمیراتی گروپ سے رابطہ اور کثیر سرمایہ کاری کے لئے آمادہ کر لیا گیا تھا۔ اُس وقت کے وفاقی وزیر برائے جہاز رانی اور بندرگاہ، بابر غوری کے اخباری بیان کے مطابق سمندر میں موجود جزائر پر شہر آباد کرنے کے لئے وفاقی حکومت بنیادی سروے کا کام مکمل کرچکی ہے، نئے شہر کا ماسٹر پلان بن چکا ہے اور اس نئے شہر کی آباد کاری کے لئے ایک درجن سے زائد اعلیٰ سطحی اجلاس کئے جاچکے ہیں۔ اس منصوبے کا مین اسٹیک ہولڈر کراچی پورٹ ٹرسٹ ہے۔ بعدازاں ملک میں سیاسی مسائل نے مشرف حکومت کو سنبھلنے کا موقع نہیں دیا اور حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ منصوبہ کاغذوں میں دب کر رہ گیا۔ اس کے بعد دوبارہ اس تنازع نے 2013ء میں سر اٹھایا۔ اس وقت بھی وفاقی حکومت یہاں کثیر سرمایہ کاری کرنا چاہ رہی تھی اور اس حوالے سے 45 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کا معاہدہ ہونے جا رہا تھا۔

اس بار یہ معاہدہ پاکستان کے تعمیراتی شعبے سے وابستہ ایک مشہور شخصیت سے کیا جا رہا تھا، جو عرب امارات کے ایک گروپ کے ساتھ مل کر یہاں جدید عمارات کی تعمیر کرنا چاہ رہے تھے، لیکن سول سوسائٹی اور صوبائی حکومت کی جانب سے آنے والے دباﺅ نے ایک بار پھر ان جزیروں کو بچا لیا۔ اس وقت جن دو جزیروں پر جدید شہر بسانے کی بات ہو رہی ہے، وہ بڈو اور بنڈال کے جڑواں جزائر ہیں، جنہیں مقامی لوگ بھنڈر اور ڈنگی بھی کہتے ہیں۔ بھنڈر جزیرہ 12,000 ایکڑ کے رقبے پر محیط ہے۔ ماحولیات کے عالمی ادارے ورلڈ وائلڈ فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے ریجنل ڈائریکٹر طاہر رشید کے مطابق یہ جزائر ماحولیاتی وسائل سے مالا مال ہیں۔ ان جزیروں پر 3,349 ہیکٹر کے وسیع رقبے پر تیمر کے جنگلات موجود ہیں اور یہاں حیات کی تمام رنگا رنگی پائی جاتی ہے۔ یہ جزائر 50 سے زائد پودوں کی انواع، دنیا کے نایاب سمندری کچھوے، سمندری سانپ، 50 سے زیادہ پرندوں کی مقامی انواع اور ہزاروں سرمائی پرندوں کا مسکن ہیں۔

اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ جزیرے انڈس ڈیلٹا کا حصہ ہیں اور انڈس ڈیلٹا بین الاقوامی تحفظ یافتہ رامسر سائٹ میں شامل ہے اور پاکستان رامسر کنونشن کا توثیق کنندہ ہے، جس کی رو سے ان آب گاہوں کے ماحولیاتی وسائل کا ہر ممکن تحفظ ضروری ہے۔ طاہر رشید کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ ڈبلیو ڈبلیو ایف ترقی کے خلاف نہیں ہے مگر اس کا تخمینہ لگانا بہت ضروری ہے کہ اس عمل سے نقصان زیادہ ہوگا یا فائدہ۔ دوسری جانب پاکستان فشر فوک فورم (پی ایف ایف) کے سربراہ محمد علی شاہ کے مطابق وفاقی حکومت کی سندھ اور بلوچستان کے ساحلوں پر موجود تمام جزائر پر نظر ہے اور اپنی سرگرمیوں کی ابتدا وہ بھنڈر اور ڈنگی سے کر رہی ہے اور پی ایف ایف اس منصوبے پر احتجاج کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان جزائر پر تعمیرات اور دیگر سرگرمیوں سے آٹھ لاکھ کے قریب ماہی گیر براہ راست متاثر ہوں گے۔ محمد علی شاہ نے کہا کہ پاکستان کی ساحلی پٹی تقریباً ہزار کلومیٹر پر مشتمل ہے اور صرف سندھ کی ساحلی پٹی پر 300 کے قریب چھوٹے بڑے جزائر موجود ہیں، جن پر موجود ہزاروں ایکڑ پر مشتمل تیمر کے جنگلات مچھلی اور جھینگوں کی پیداوار کا مرکز ہیں، جو ان غریب ماہی گیروں کی گزر اوقات کا ذریعہ ہیں۔

کورنگی کریک، پھٹی کریک اور ابراہیم حیدری سے گزر کر یہ ماہی گیر سمندر تک پہنچتے ہیں۔ راستہ بند ہونے سے ان کا روزگار متاثر ہوگا اور وہ لوگ جو پہلے ہی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، فاقوں پر مجبور ہو جائیں گے۔ محمد علی شاہ کے مطابق ان جزیروں میں سے ایک پر مقامی پیر کا سالانہ عرس ہوتا ہے اور اس وقت یہ جریزہ ہزاروں زائرین سے بھر جاتا ہے اور وہ مقامی مچھیروں کی اضافی آمدنی کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ان جزیروں پر جب بلڈرز دنیا کی سب سے "اونچی عمارت" اور سب سے بڑے "شاپنگ مال" تعمیر کریں گے تو ان پرندوں کا کیا ہوگا جو ہر سال ہزاروں میل کا سفر کرکے آتے ہیں اور ان جزیروں پر عارضی قیام کرتے ہیں۔ ماحولیاتی امور پر کام کرنے والے سماجی کارکن نصیر میمن کے مطابق دو ستمبر کو جاری ہونے والے آرڈیننس کا ایک مہینے تک مخفی رہنا سمجھ سے بالا ہے۔ کیا یہ آرڈیننس صوبائی حکومت کی مرضی یا لاعلمی میں جاری ہوا ہے؟ دونوں صورتوں میں یہ سوالیہ نشان ہے۔

ملک کا آئین صوبوں کو اپنی ساحلی پٹی کی حفاظت کی ذمہ داری دیتا ہے۔ سندھ میں پہلے ہی کوسٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی قائم ہے، جس کے ہوتے ہوئے اس نئی اتھارٹی کی کیا ضرورت تھی؟ ان ہی جزیروں کے حوالے سے نصیر میمن کی 2006ء کی ایک رپورٹ کے مطابق جزیروں پر جدید تعمیرات کے بعد خدشہ ہے کہ ساحلوں پر موجود چھوٹے بڑے گاﺅں کے لاکھوں مقامی لوگ اس علاقے میں آنے جانے سے محروم کر دیئے جائیں گے۔ ایک اور اندازے کے مطابق کراچی اور ٹھٹھہ کے ساحلوں پر آباد ماہی گیروں کی 4,000 کشتیوں کی سمندر کی جانب آمدورفت ختم ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ یہ بھی ڈر ہے کہ ماہی گیروں کی سب سے بڑی آبادی ابراہیم حیدری، جہاں ڈیڑھ لاکھ کے قریب ماہی گیر آباد ہیں، بھی بری طرح متاثر ہوگی۔ ان ماہی گیروں کا سمندر تک جانے کا راستہ، ذرائع روزگار اور مارکیٹ تک رسائی سب ختم ہوسکتا ہے۔

ماہر ماحولیات رفیع الحق کے مطابق جزائر اور ان کا ماحولیاتی نظام ساحلوں کی بقا کے لئے بہت ضروری ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سمندر کی تیز لہریں ہمیشہ اپنی توانائی سب سے پہلے سامنے آنے والے (فرسٹ اسٹرائیک) پر منتقل کرتی ہیں اور ایسے سمندر جہاں سے "بفرزون" اور جزائر ختم کر دیئے گئے ہوں، وہاں سمندری طوفان یا سونامی کا فرسٹ اسٹرائیک شہروں پر ہوتا ہے۔ جہاں ایک جانب کراچی میں آرڈیننس کے خلاف مظاہرے ہوئے، وہیں دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھی اس بارے میں تذکرہ جاری تھا۔ معروف سیاستدان افراسیاب خٹک نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ حکومت پارلیمان کا سامنا نہیں کرسکتی اور عوامی بحث سے بچنا چاہتی ہے اور اسی لئے یہ آرڈیننس کے ذریعے حکومت چلا رہے ہیں اور عوام کو دبا رہے ہیں۔ قومی عوامی تحریک کے صدر ایاز لطیف پلیجو نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ یہ آرڈیننس غیر آئینی ہے اور آئین کی شق 172 اور 239(4) کی خلاف ورزی ہے۔
خبر کا کوڈ : 892479
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش