QR CodeQR Code

ڈی آئی خان پولیس کی ناقص کارکردگی پہ اٹھتے سوال

18 Oct 2020 13:03

اسلام ٹائمز: ایک طرف تو ڈیرہ پولیس نہتے بے گناہ افراد کے پیدل چلنے کے عمل پر اگلے چند گھنٹوں میں سخت نوعیت کی ایف آئی آر اپنی مدعیت میں درج کرتی ہے اور دوسری جانب ایک ہفتہ سے زائد گزر جانے کے باوجود دفعہ 302 کے کیس کی ایف آئی آر تک درج نہیں کرتی۔ شہر کے بیچوں بیچ ہونیوالے اتنے بڑے دھماکے کو ہوائی دھماکہ قرار دیکر چپ سادھ لیتی ہے۔ دہشتگرد کی ریکی بہت پہلے سے کرتی ہے مگر گرفتاری کیلئے شہری آبادی کے بیچوں بیچ مقام کا انتخاب کرتی ہے اور دو شہریوں کے زخمی و شہید ہونے کے بعد دہشتگرد کو اسوقت گرفتار کرتی ہے کہ جب اسکے پاس گولیاں ختم ہو جائیں۔ کیا ان حالات و واقعات سے پولیس کے کردار پہ سوالات نہیں اٹھتے۔؟ اگر ان واقعات کو لیکر ڈیرہ پولیس کی کارکردگی پہ انگلیاں اٹھ رہی ہیں تو کیا اخلاقی طور پر موجودہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کو اپنے عہدے پہ مزید کام کرنا چاہیئے۔؟؟؟؟؟


رپورٹ: تمکین زہراء

ڈیرہ اسماعیل خان میں رواں ہفتے کے دوران یکے بعد دیگر چند ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں، جن کے باعث شہری ایک طرف شدید خوف و ہراس کا شکار ہیں تو دوسری جانب پولیس کی کارکردگی پہ سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔
پہلا واقعہ 70 سالہ بزرگ قتل، ایف آئی آر 7 دن بعد بھی درج نہ ہو پائی 
22 صفر والے دن گلی قاضیانوالی میں پیش آیا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ 21 صفر والے دن محلہ قاضیانوالہ میں دو گھرانوں کے مابین تلخ کلامی ہوئی، جو بڑھتے بڑھتے ہاتھا پائی تک جا پہنچی۔ ایک فریق تھانے میں رپورٹ کی غرض سے گیا۔ پولیس نے واقعہ کی سنگینی کا ادراک کئے بنا معاملہ رفع دفع کروا کر دونوں فریقوں کو واپس بھیج دیا۔ 22 صفر والے دن ایک فریق کے چند اوباش حفیظ نامی اہل تشیع کے دروازے پہ پہنچے اور 75 سالہ بوڑھے پر تشدد شروع کر دیا۔ اس تشدد کے دوران ایک نوجوان نے یہ بھی کہا کہ تم نے ہمیں کمزور سمجھا ہے، یہاں پورے محلے میں واحد تم ہو جس نے اپنے گھر کی چھت پہ علم لگایا ہوا ہے۔ 75 سالہ محمد حفیظ کمزوری کے باعث ان کے تشدد کا زیادہ دیر سامنے نہیں کر پایا۔ بعد ازاں بچوں نے جلوس سے واپس آکر والد کو ہسپتال پہنچایا۔ ابتدائی طبی امداد میں معلوم ہوا ہے کہ دو جگہ سے ٹانگ اور کولہے کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے جبکہ چہرے پہ بھی اچھی خاصی چوٹ ہے۔ ہسپتال میں موجود پولیس نے اپنے روزنامچے میں معاملہ درج کر لیا۔

مجروع محمد حفیظ کے بچوں نے کوشش کی مگر ان کی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ البتہ ڈی ایچ کیو ہسپتال نے محمد حفیظ کو مفتی محمود ہسپتال شفٹ کر دیا اور انہوں نے دو جگہ سے فریکچر کے باوجود ڈسچارج سلپ تھما کر محمد حفیظ کو گھر بھجوا دیا۔ جلدی ڈسچارج کرنے کی وجہ شائد یہ تھی کہ حملہ آور ملزمان پر کیس زیادہ شدید نہ ہو اور ہوا بھی وہی۔ دو دن بعد محمد حفیظ نامی بزرگ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملا۔ دو دن یہ بزرگ زندگی اور موت سے جنگ لڑتا رہا مگر پولیس نے ایف آئی آر باقاعدہ درج نہیں کی۔ محمد حفیظ کے پوسٹمارٹم کی رپورٹ جو معمول کی نسبت زیادہ تاخیر سے سامنے آئی، اس میں بھی واضح لکھا ہے کہ بزرگ کی موت حملے کے دوران لگنے والی شدید ضربوں کے باعث واقع ہوئی ہے۔ آج محمد حفیظ کی تدفین کو بھی تین روز گزر چکے ہیں مگر تاحال ایف آئی آر درج نہیں ہوسکی۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسا واقعہ جس میں ایک جان چلی گئی، جس کی وجہ سے شہر بھر میں فرقہ وارانہ انتشار کا شدید اندیشہ لاحق ہوا، آج ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود اس کی باقاعدہ ایف آئی آر کا درج نہ ہونا کیا پولیس کے غیر جانبدرانہ کردار پہ سوالیہ نشان نہیں۔؟؟؟؟؟

دوسرا واقعہ۔ پی ایس او پمپ پہ دھماکے کی تحقیقات تسلی بخش؟؟؟
دو روز قبل بنوں روڈ پر ڈائیوو ٹرمینل کے سامنے واقع پی ایس او پمپ پہ ایک دھماکہ ہوا ہے، جس میں ایک شخص جھلس کر شدید زخمی ہوگیا، جسے بعدازاں علاج کی غرض سے ملتان منتقل کیا گیا جبکہ دوسرے زخمی کو ڈی ایچ کیو میں طبی امداد فراہم کی گئی۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ کئی کلومیٹر دور تک آواز سنی گئی، پٹرول پمپ آفس اور اس کا ملحقہ کمرہ زمین بوس ہوگیا، حالانکہ دونوں کمرے آر سی سی چھت والے مضبوط اور نئی بلڈنگ پہ مشتمل تھے۔ پٹرول پمپ کی باونڈری وال بھی گر گئی اور آس پاس کی دکانوں اور بالاخانوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ دھماکے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور بم ڈسپوزل سکواڈ سمیت دیگر ادارے موقع پہ پہنچ گئے، ڈی پی او اور دیگر افسران نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا۔ پولیس نے ابتدائی تحقیقات کے بعد قرار دیا کہ یہ خوفناک دھماکہ ائیر ٹینک کے پھٹنے کے نتیجے میں ہوا، یعنی ہوا والی ٹینکی پھٹنے سے دھماکہ ہوا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ جائے وقوعہ سے کسی ائیر ٹینک کے پھٹنے کے کوئی شواہد نہیں ملے اور نہ ہی کوئی آگ وغیرہ لگی۔ ائیر ٹینک پھٹنے کے واقعات پہلے بھی ہوتے ہیں، یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جس میں پوری بلڈنگ ہی زمین بوس ہوگئی ہو اور اتنا نقصان ہوا ہو، خدانخواستہ اگر یہی دھماکہ دن کے وقت ہوتا جب پٹرول پمپ پر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا زیادہ رش ہوتا ہے اور آس پاس کی دکانیں بھی کھلی ہوتی ہیں تو اس وقت ایسے حادثے کی صورت میں کتنا نقصان ہوسکتا تھا۔ یہ سوچ کر ہی بندہ لرز جاتا ہے۔ اگر سرکار پرائمری سکول کے بچوں کو منہ پہ ماسک چڑھانے پہ مجبور کر سکتی ہے، چاہے ان کے پاؤں میں چپل ہو یا نہ ہو، تو کیا پٹرول پمپس مالکان و دیگر کو حفاظتی تدابیر پر مجبور نہیں کرسکتی۔؟

تیسرا واقعہ۔ پولیس کی نااہلی کے باعث 1 بے گناہ نوجوان شہید، 1 زخمی
گذشتہ رات 8 بجے تھلہ بموں شاہ پر شہید صفدر شاہ کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ سید صفدر عباس شاہ پولیس اور دہشتگرد کے درمیان کراس فائرنگ کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کر گئے۔ وہ پولیس کی گولی کا شکار ہوئے یا دہشتگرد کی گولی کا، اس کا تعین ان کی پوسٹمارٹم رپورٹ آنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ سہیل نامی ایک دہشتگرد جس کے شناختی کارڈ پر کلفٹن کراچی کا پتہ درج تھا، اسے گرفتار کرنے کی غرض سے پولیس اہلکار اس کے پیچھے تھے۔ پولیس اہلکاروں کی اہلیت ملاحظہ فرمائیں کہ شہریوں کے بیچوں بیچ آباد گلی محلہ بموں شاہ میں پولیس نے دہشتگرد سہیل کے گرد گھیرا ڈالا اور اچانک سے اسے دبوچ لیا۔ کمزور وجود والا دہشتگرد سہیل اتنا ماہر تھا کہ اس نے دو پولیس والوں کے چنگل سے خود کو چھڑاتے ہوئے اپنی پنڈلی سے بندھا خنجر نکالا اور پولیس اہلکاروں پہ وار کیا۔ خنجر لگنے سے دو پولیس اہلکار زخمی ہوگئے، اس کے خنجر کے وار سے بہادر سپاہیوں نے اسے چھوڑ دیا۔

جس کے بعد دہشتگرد نے اپنا پسٹل نائن ایم ایم نکالا اور پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کر دی۔ تاہم وہ گولیاں پولیس اہلکاروں کے بجائے شہید سید صفدر ہاشمی اور سید مسجود حیدر کے سینے میں لگیں۔ سید صفدر ہاشمی موقع پہ شہید ہوگئے جبکہ سید مسجود کی حالت خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے۔ دہشتگرد سہیل کے ہاتھ میں موجود پسٹل کی گولیاں جب ختم ہوئیں تو اس کے بعد پولیس نے اسے گن پوائنٹ پر لیکر گرفتار کیا۔ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت پولیس کی بنیادی ذمہ داری ہے، باقی تمام معاملات قواعد و ضوابط ذیلی ہیں۔ ایک ایسا واقعہ جس میں پولیس کی ناقص کارکردگی اور نااہلی کے باعث ایک بے گناہ معصوم شہری اندھی گولی کا شکار ہو کر جام شہادت نوش کرلے اور دوسرا پرامن بے گناہ معصوم شہری سینے میں گولی کھا کر بستر علالت پہ موجود ہو اور ان زخمیوں و لاشوں پہ کھڑے ہوکر پولیس دہشتگرد کی گرفتاری کو اپنی اعلیٰ کارکردگی شمار کرے تو لامحالہ شہریوں میں تو خوف و ہراس کا جنم لینا فطری امر ہے۔ نیز یہ تینوں واقعات پولیس کے دہرے اور جانبدارانہ کردار کی بھی غماضی کرتے ہیں۔

زیادہ وقت نہیں گزرا چہلم سید الشہداء کے موقع پہ اہل تشیع افراد چاہ سید منور اور جامع مسجد لاٹو فقیر سے پیدل چلتے ہوئے کوٹلی امام حسین (ع) گئے، اس پیدل چلنے کو مشی کا نام دیا گیا تھا۔ ان افراد نے راستے میں نہ کہیں کوئی نعرے بازی کی، نہ کوئی توڑ پھوڑ کی اور نہ کسی کی دل آزاری کی مگر ان کے پیدل چل کر کوٹلی امام جانے کے عمل کا انتظامیہ اور پولیس نے اتنا شدید نوٹس لیا کہ 200 سے زائد افراد پر مقدمات قائم کئے گئے اور جس جس تھانے کی حدود سے یہ نہتے افراد گزرے، ان تمام تھانوں نے اپنی اپنی طرف سے الگ الگ ایف آئی آرز درج کیں ہیں۔ عبادت کی نیت سے کوٹلی امام حسین (ع) جانے کے ’’جرم‘‘ متعدد افراد گذشتہ دس دنوں سے جیل میں ہیں اور دو سو سے زائد افراد پہ باقاعدہ ایف آئی آر درج کی گئی ہے، جس میں ان کے جرم کی تفصیل میں درج کیا گیا ہے کہ یہ افراد نیاز کھانے کی نیت سے کوٹلی گئے ہیں، جبکہ دفعات میں 419 اور 420 کی دفعات عائد کی گئی ہیں۔

کیا واقعی ڈی آئی خان پولیس کے نزدیک نیاز کھانے کی غرض سے کوٹلی امام حسین (ع) یا کہیں جانا ایسا جرم ہے، جو کہ فراڈ کے زمرے میں آتا ہے اور جانے والا 419، 420 دفعات کا حقدار قرار پاتا ہے۔؟ ایک طرف تو ڈیرہ پولیس نہتے بے گناہ افراد کے پیدل چلنے کے عمل پر اگلے چند گھنٹوں میں سخت نوعیت کی ایف آئی آر اپنی مدعیت میں درج کرتی ہے اور دوسری جانب ایک ہفتہ سے زائد گزر جانے کے باوجود دفعہ 302 کے کیس کی ایف آئی آر تک درج نہیں کرتی۔ شہر کے بیچوں بیچ ہونے والے اتنے بڑے دھماکے کو ہوائی دھماکہ قرار دیکر چپ سادھ لیتی ہے۔ دہشت گرد کی ریکی بہت پہلے سے کرتی ہے، مگر گرفتاری کیلئے شہری آبادی کے بیچوں بیچ مقام کا انتخاب کرتی ہے اور دو شہریوں کے زخمی و شہید ہونے کے بعد دہشتگرد کو اس وقت گرفتار کرتی ہے جب اس کے پاس گولیاں ختم ہو جائیں۔ کیا ان حالات و واقعات سے پولیس کے کردار پہ سوالات نہیں اٹھتے۔؟ اگر ان واقعات کو لیکر ڈیرہ پولیس کی کارکردگی پہ انگلیاں اٹھ رہی ہیں تو کیا اخلاقی طور پر موجودہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کو اپنے عہدے پہ مزید کام کرنا چاہیئے۔؟؟؟؟؟


خبر کا کوڈ: 892649

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/892649/ڈی-ا-ئی-خان-پولیس-کی-ناقص-کارکردگی-پہ-اٹھتے-سوال

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org