QR CodeQR Code

ملکی سیاسی حالات اور تبدیلی؟

19 Oct 2020 21:30

اسلام ٹائمز: پاکستان کے سیاسی منظر نامے یعنی حکومتی حوالے سے کچھ نیا ہونے جا رہا ہے یا کچھ عرصے بعد ہوسکے گا، اس بارے میں کسی بھی قسم کی پیشین گوئی کرنا ناممکن ہے۔ پاکستان کے ظاہری حالات اگر کسی چیز کی چغلی کھا رہے ہوں تو عموماً اندر کھاتے کچھ اور ہی پک رہا ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عوام کو کچھ حاصل ہونیوالا نہیں، حکومتوں کی تبدیلی کے کھیل میں نا تو کسی کی جیت ہوتی ہے اور نہ ہار۔۔۔ اگر کوئی چیز ہارتی ہے، یا جسکا نقصان ہوتا ہے، وہ ہمارے ملک کی ساکھ، ہماری عوام کے ارمان و امیدیں اور ترقی کے خواب چکنا چور ہوتے ہیں۔ سیاستدان تو مجرم ہوکر بھی جیلوں سے باہر نکل جاتے ہیں اور جرنیل تو اگر زیر سوال لائے جائیں تو حب الوطنی مشکوک اور ملکی سالمیت کے خلاف سازش گردانی جاتی ہے۔


تحریر: ارشاد حسین ناصر

پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ کے نام سے اپوزیشن کی جماعتوں کے اتحاد کے تحت پنجاب کے شہر گوجرانوالہ اور پھر صوبہ سندھ کے دارالخلافہ کراچی میں عوامی طاقت کے اظہار، اپوزیشن قائدین کی بھرپور شرکت اور خطابات نے ملک میں ایک بار پھر سیاسی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ گوجرانوالہ کے جلسے میں میاں نواز شریف کی تقریر نے اپوزیشن کے ارادوں کو واشگاف انداز میں ظاہر کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ میاں نواز شریف گذشتہ گیارہ ماہ سے لندن اپنا علاج کروانے گئے تھے، جن کی ضمانت میاں شہباز شریف نے دی تھی کہ وہ واپس آئیں گے۔ جیل میں سزا یافتہ ہو کر علاج کیلئے دوسرے ملک جانے کی یہ ایک انوکھی مثال کہی جاتی ہے، جس کے ذمہ داران میں پاکستانی عدلیہ اور موجودہ حکمران بھی شامل تھے، وگرنہ تو یہاں لوگ جیلوں میں گڑ سڑ جاتے ہیں، ان کو کوئی پوچھتا نہیں۔ اچھا خاصا صحت مند بندہ جیل جائے تو جیل کے کھانوں اور ماحول سے ہیپاٹائٹس اور تپ دق تو لازمی کروا بیٹھتا ہے، جیلوں میں دیا جانے والا کھانا اور بیمار ہونے پر دوائی یا ڈاکٹر کی سہولت کا فقدان میڈیا اکثر سامنے لاتا ہے، مگر نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے کے مصداق معاملات جوں کے توں ہی رہتے ہیں جبکہ اسی ملک میں ایک سزا یافتہ بندہ ملک سے باہر بھیج دیا جاتا ہے، ایسے نرالے کام صرف ہمارے ملک میں ہی ہوتے ہیں۔

گوجرانوالہ جلسے کے ردعمل میں ملک کے وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد ٹائیگر فورس کے کنونشن سے اسلام آباد میں خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کی بیماری کی تصویر اور موجودہ تقریر کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور یہ کہا ہے کہ اب کسی ملزم ممبر کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہونگے۔ میں ان کو اب دوسرے والا عمران بن کر دکھائوں گا۔ انہوں نے نواز شریف کی طرف سے جنرل قمر جاوید باجوہ جو ہمارے سپہ سالار ہیں اور جنرل عاصم باجوہ جو سی پیک کے چیئرمین ہیں اور حال ہی میں وزیراعظم کے مشیر اطلاعات کے عہدے سے مستعفی ہوئے ہیں، کو نام لیکر تنقید کا نشانہ بنانے کی سخت مذمت کی۔ بہرحال جلسوں کا جو شیڈول جاری کیا گیا ہے اور جس طرح عوامی صورتحال دکھائی دے رہی ہے، اس سے یہ بحث عوامی سطح پر شروع ہوگئی ہے کہ کیا عمران حکومت، اپوزیشن کی اس تحریک سے چلی جائے گی۔؟

اس سوال کا جواب اگر کسی کے پاس ہے تو یہی ہے کہ اگر ملٹری اسٹیبلشمنٹ حکومت کا ساتھ نہیں چھوڑتی تو ممکن نہیں، شائد یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن نے خصوصی طور پہ آرمی چیف کو نشانے پر لیا ہے۔ اپوزیشن کی کوشش ہے کہ عوام کو یہ باور کروائیں کہ آرمی چیف الگ شخصیت ہیں اور بطور ادارہ افواج پاکستان الگ ہیں۔ اسی لئے اپوزیشن کی طرف سے نام لیکر دو جرنیلوں کے خلاف بات کی گئی، مگر ماضی کے تجربات اور حقائق یہی بتاتے ہیں کہ آرمی پاکستان میں ایک منظم ادارہ کی صورت میں موجود ہے، جس کا چین آف کمانڈ ہے، جسے فالو کیا جاتا ہے اور اس میں کوئی دراڑ نہیں آتی۔ ہاں کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ آرمی کے اندر سے کچھ اعلیٰ عہدے داروں نے اپنے مشترکہ خیالات کے تحت ایسا انقلاب لانے کی کوشش کی، جس کے ذریعے ملکی نظام بشمول افواج کو مفلوج کر دیا جائے اور مرضی کی حکومت اور نظام نافذ کرنے کی کوشش یا خواہش بلکہ سازش کی ہو، اس حوالے سے جنرل ظہیر الاسلام کا منصوبہ کافی معروف ہے، جنہوں نے بے نظیر کے دور میں افواج پر کنٹرول کرنے کی سازش کی تھی۔

بعد ازاں جنرل مشرف دور میں بھی ان پر ہونے والے حملوں اور کئی ایک فوجی تنصیبات پر دہشت گردی کے سانحات میں اندر کے لوگ شامل رہے ہیں، مگر مجموعی طور پر ایسی سازشوں کو کائونٹر بھی آرمی نے ہی کیا ہے۔ وگرنہ تو مصر کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں جنرل سیسی نے ایک جمہوری حکومت کو مفلوج کر دیا اور اپنا اقتدار سامنے لے آئے۔ جنرل سیسی کو عالمی استعماری حکومتوں اور مسلمانوں کے مرکز سعودیہ کی بھرپور حمایت و مدد حاصل تھی، جو اخوان المسلمین کی حکومت کو اپنے شاہی نظام کیلئے سخت خطرہ سمجھتا تھا۔ ہمارے کچھ لوگ اپوزیشن کی اس تحریک اور مطالبات یا کمپین کو لیبیا کے حالات سے جوڑنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں کہ اس ساری گیم کے پیچھے پاکستان کو فوجی لحاظ سے کمزور کرنے کی خواہش رکھنے والی طاقتیں ہیں، جو ملکی حالات کو اس نہج پہ لے جانا چاہتی ہیں کہ افواج کی گرفت کمزور ہو اور وہ اپنا الو سیدھا کرسکیں۔

کیا ایسا ہی ہے؟ اس معاملے میں ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان دشمن قوتیں ہمیشہ سے ان سازشوں میں ملوث رہی ہیں کہ ملکی دفاعی طاقتیں کمزور ہوں اور ان کے زیر اثر اور زیر کنٹرول رہیں، ایسا کسی حد تک درست بھی ہے کہ پاکستانی افواج کی اعلیٰ کمانڈ کی تربیت امریکہ میں ہوتی ہے اور پاکستان سے ریٹائرڈ ہونے والے ہمارے اکثر جرنیل اور اعلیٰ قیادت ریٹائرمنٹ کے بعد امریکہ میں ہی جا کر رہائش اختیار کرتے ہیں، ان کے بچے تو پہلے سے ہی ان ممالک میں تعلیم اور کاروبار کر رہے ہوتے ہیں۔ جنرل عاصم سلیم باجوہ کا کیس بھی ایسا ہی ہے شائد۔ اب جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ سی پیک جو پاک چائنہ تعلقات کا مستقبل کہا جاتا ہے، اس کا چیئرمین ایک سویلین کو ہٹا کر ایک جرنیل کو بنایا گیا ہے تو منصوبہ زیادہ محفوظ ہے، شائد ان کی سوچ متوازن نہ کہی جا سکے۔

پی ڈی ایم اگرچہ اپنے ہدف کیلئے جلسے اور پاور شو کر رہی ہے اور ان کا موجودہ ہدف جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا کہ موجودہ حکمران جنہیں پاکستان پیپلز پارٹی کی زبان میں سیلیکٹڈ کہا جاتا ہے، کو بہ ظاہر اپنے سرپرستوں یعنی ملٹری اسٹیبلشمنٹ سمیت گھر بھیجنا لگتا ہے، اپنے مقصد میں کامیاب ہو پاتی ہے یا نہیں، اس لئے کہ ابھی آغاز ہوا ہے، صرف دو جلسوں سے نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ یہ اتحاد دراصل آگ و پانی کا ملاپ ہے، تحریک میں جو جماعتیں شامل ہیں، ان کے باہمی جھگڑے گذشتہ پینتیس چالیس برس پر مشتمل ہماری سیاسی و پارلیمانی تاریخ ہیں۔ میرا خیال ہے کہ سب ہی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں اور کوئی بھی لووز بال نہیں کروانا چاہتا مبادا سامنے سے چھکا مار دیا جائے اور میچ کی ہار کا الزام اس پر آجائے۔ یہ اتحاد اس لئے بھی اتنا پختہ نہیں ہے کہ ابھی تک اس کی اہم جماعتیں کئی اہم ایشوز پر بالکل ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔

جیسا کہ کراچی کے جلسے میں ہم نے دیکھا کہ گلگت بلتستان کے ایشو پر مولانا فضل الرحمن نے اسے کشمیر ایشو کے ساتھ مربوط اپنے پرانے موقف کے ساتھ مرتبط کیا اور نون لیگ کی گلگت بلتستان کی قیادت تو پہلے ہی گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے اور کشمیر سے الگ کرنے کے مخالف بن کے سامنے آئی ہے، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے گلگت بلتستان کے حقوق کیلئے جراتمندانہ اور قابل تحسین اقدامات اٹھائے ہیں اور اس علاقے کو صوبہ بنانے کی بنیادی پالیسی اور قانون سازی بھی انہی کے دور میں سامنے آئی تھی۔ اب ایک بار پھر یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ جس کا اس حساس علاقے میں گہرا اثر و رسوخ اور کافی حد تک کنٹرول ہے، نے پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کی ڈیمانڈز کو پورا کرنے کیلئے صوبائی اسٹرکچر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب یہ صوبہ کس طرح کا ہوگا، اس بارے میں ابھی تک کوئی بات حتمی نہیں بلکہ کسی بھی قسم کی کوئی کاغذی کارروائی سامنے نہیں آئی۔ اس لئے الیکشن جو اگلے ماہ ہونے جا رہے ہیں، سے منتخب ہونے والوں کے مستقبل بارے کوئی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔

بہرحال پاکستان کے سیاسی منظر نامے یعنی حکومتی حوالے سے کچھ نیا ہونے جا رہا ہے یا کچھ عرصے بعد ہوسکے گا، اس بارے میں کسی بھی قسم کی پیشین گوئی کرنا ناممکن ہے۔ پاکستان کے ظاہری حالات اگر کسی چیز کی چغلی کھا رہے ہوں تو عموماً اندر کھاتے کچھ اور ہی پک رہا ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عوام کو کچھ حاصل ہونے والا نہیں، حکومتوں کی تبدیلی کے کھیل میں نا تو کسی کی جیت ہوتی ہے اور نہ ہار۔۔۔ اگر کوئی چیز ہارتی ہے، یا جس کا نقصان ہوتا ہے، وہ ہمارے ملک کی ساکھ، ہماری عوام کے ارمان و امیدیں اور ترقی کے خواب چکنا چور ہوتے ہیں۔ سیاستدان تو مجرم ہوکر بھی جیلوں سے باہر نکل جاتے ہیں اور جرنیل تو اگر زیر سوال لائے جائیں تو حب الوطنی مشکوک اور ملکی سالمیت کے خلاف سازش گردانی جاتی ہے۔


خبر کا کوڈ: 892957

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/892957/ملکی-سیاسی-حالات-اور-تبدیلی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org