1
0
Tuesday 20 Oct 2020 15:14
غداری کا سرٹیفکیٹ بابائے قوم کی بہن کو بھی دیا گیا تھا

پی ڈی ایم کا کراچی میں جلسہ، کیا فیصلہ کن جنگ کا آغاز ہوچکا ہے؟

فوج ہماری آنکھوں کی پلکوں جیسی ہے، پاکستان میں انقلاب آکر رہیگا
پی ڈی ایم کا کراچی میں جلسہ، کیا فیصلہ کن جنگ کا آغاز ہوچکا ہے؟
رپورٹ: ایم رضا

اپوزیشن کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا دوسرا جلسہ کراچی کے جناح باغ میں منعقد ہوا۔ اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا تھا کہ فیصلہ کن جنگ لڑ رہے ہیں اور یہ جنگ ہم جیتیں گے۔ پی ڈی ایم کے جناح باغ میں جلسے میں پیپلز پارٹی سمیت پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کے کارکنوں نے شرکت کی۔ پارٹی نغموں اور نعرے بازی سے ماحول کو گرمایا گیا۔ کراچی کی شاہراہوں کو مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں سمیت اپوزیشن کے دیگر قائدین کی قد آدم تصویروں سے سجایا گیا۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے جلسے سے خطاب میں کہا ہم اس کٹھ پتلی حکومت کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، فوج ہماری آنکھوں کی پلکوں جیسی ہے، جو ہماری سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے، حدود میں رہے گی تو ہم اسے سلیوٹ کریں گے، یہ جنگ ہم جیت کر رہیں گے، ہم جمہوریت کے لئے میدان میں ہیں، ہم اپنا حق لے کر رہیں گے، عوام کا حق لے کر رہیں گے، 25 اکتوبر کو کوئٹہ میں عظیم الشان اجتماع ہوگا اور ہمارا سفر پورے ملک میں اسی طرح جاری رہے گا، 18 اکتوبر ہمیں شہداء کی یاد دلا رہا ہے، جب محترمہ بے نظیر بھٹو کے استقبال کے لئے کارکنان جمع تھے، اُس وقت خودکش اور قاتلانہ حملہ کیا گیا، سینکڑوں کی تعداد میں لوگ شہید ہوئے اور ہزاروں معذور ہوگئے، میں تمام شہید ہونے والے جمہوری کارکنوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں، پی ڈی ایم نے جمہوری فضاؤں کو بحال کرنا ہے۔

مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ہم دو سال سے میدان کارزار میں ہیں، ہمیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ بدترین دھاندلی میں قائم کی گئی حکومت کو تسلیم کرلیں، ہمیں ڈرایا دھمکایا بھی گیا، ہمیں لالچ اور ترغیب بھی دی، ہم نہ دھمکیوں سے مرعوب ہوئے اور آج بھی اپنے مؤقف پر قائم ہیں اور آج بھی علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہم اس کٹھ پتلی حکومت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، دنیا میں ریاستوں کی بقاء معاشی بنیادوں پر ہوتی ہے، نواز شریف نے 2018ء میں معاشی ترقی کی شرح ساڑھے پانچ فیصد اور اگلے سال کے لئے ساڑھے چھ فیصد لگائی تھی، لیکن موجودہ حکومت کی نااہلی سے ان دو برس میں اب 0.3 پر معیشت آگئی ہے، جب معیشت کی کشتی ڈوبتی ہے تو ریاست ڈوبتی ہے، سووویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے، جو لوگ اس جلسے میں بیٹھے ہیں، وہ پاکستان کے بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں، آئین نے جس جمہوریت کا تعین کیا ہے، اس کی جنگ لڑ رہے ہیں اور جن قوتوں نے کہا کہ اس حکومت کو تسلیم کرلیں، ان کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ ایک دن ہم آپ سے منوائیں گے کہ آپ سے غلطی ہوئی تھی۔

مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ عزت نفس کو قربان کرکے ہم نے زندگی گزارنا نہیں سیکھا، میری نسبت برصغیر کے ان اسلاف اور اکابر کے ساتھ ہے، جنہوں نے ڈیڑھ سو سال تک جدوجہد کی ہے، ان کو جیلوں کی صعوبتوں میں ڈالا گیا لیکن وہ پیچھے نہیں ہٹے اور ان شاء اللہ ہم پاکستان کے عوام کو حقیقی جمہوری آزادی سے ہمکنار کرکے رہیں گے،
ایک کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں دینے کا خواب 26 لاکھ نوجوانوں کی بے روزگاری پر ختم ہوا، 50 لاکھ مکانات دینے کا دعویٰ کرنے والوں نے لاکھوں افراد کو بے روزگار کر دیا، ان میں گھر دینے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں ہے، غریب عوام کی قوت خرید ختم ہوگئی ہے، بچوں کو سڑک پر لاکر کھڑا کر دیا جاتا ہے، لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، دنیا میں انقلاب کبھی امیر نہیں لایا ہے، غریب عوام ہی لائے ہیں، پاکستان میں بھی انقلاب آکر ہی رہے گا، عمران خان نے مودی کے آنے پر مسئلہ کشمیر حل ہونے کی بات کی تھی، تاہم مودی کے آنے پر کشمیر کا خصوصی اسٹیٹس ختم کر دیا اور یہ کشمیر کا سودا کرکے مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں، کشمیر بیچ کر اب گلگت بلتستان کا مسئلہ اٹھا رہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر اور بلتستان پاکستان کا حصہ ہیں لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ سلامتی کونسل میں کشمیر کا جو نقشہ پیش کیا ہے، اس کے مطابق فیصلہ ہو، جب حکومت آزاد کشمیر کے وزیراعظم پر غداری کا مقدمہ درج کرے گی تو عالمی سطح پر کشمیر کے حوالے سے کیا پیغام جائے گا۔؟

مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ہم نے اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو صوبائی خود مختاری دی، یہ اچھی پیش رفت ہے، آزاد کشمیر کے آئین میں 13 ویں ترمیم لائی گئی، جس سے وہاں کی حکومت کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا، مگر آج پاکستانی حکمران سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ کشمیری حکومت کے اختیارات کم کرنے ہیں، آپ اپنے صوبوں کو دیئے گئے اختیارات کم کرنا چاہتے ہیں، کیا اس سے بغاوت پیدا نہیں ہوگی، اگر سندھ اور بلوچستان کے جزائر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ آئین کے خلاف ہوگا، سندھی اور بلوچ اس کو کبھی قبول نہیں کریں گے، 18ویں ترمیم کا ہر صورت تحفظ کیا جائے گا، کوئی ایسی ترمیم قبول نہیں کی جائے گی، جس سے چھوٹے صوبوں کے حقوق سلب ہوں، اگر سندھ کے عوام نہیں چاہتے تو کوئی طاقت سندھ کو تقسیم نہیں کرسکتی، اس نااہل اور جاہل حکمران کے رحم و کرم پر پاکستان کو نہیں چھوڑ سکتے ہیں، ہمیں ملک میں ایک جائز اور شرعی تبدیلی چاہیئے، ہم پاکستان کو خون میں نہیں نہلانا چاہتے، پاکستان اُس وقت مضبوط ہوگا جب تمام ادارے اپنے آئینی دائرے میں رہ کر کام کریں، ووٹ کے ذریعے جائز تبدیل چاہتے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج غریب مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، ان کو شکایت کرنے کی اجازت بھی نہیں، آج ہماری بچیوں اور بہنوں کی عزتیں لوٹی جا رہی ہیں، سلیکٹڈ وزیراعظم کو مہنگائی کی خبر ٹی وی سے ملتی ہے، اسے نہیں پتہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم کے خلاف غداری کے پرچے ہوئے ہیں، اس کو عوام کی بھوک نظر نہیں آتی، عوام کا غصہ نظر نہیں آتا، موجودہ دور میں ہر چیز میں کرپشن ہو رہی ہے، سلیکٹڈ وزیراعظم کے دوست عوام کو لوٹ رہے ہیں، پنجاب میں ڈمی وزیراعلیٰ لگا کر پنجاب کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے، سندھ کو این ایف سی ایوارڈ کا 300 ارب نہیں دیا گیا، اسی شہر کراچی
میں تین سو ارب روپے کے ساتھ عوام کو روزگار فراہم کرسکتے تھے، سندھ سے گیس نکلتی ہے اور سندھ کو ہی گیس نہیں ملتی، کے الیکٹرک کراچی کے عوام کا خون چوس رہی ہے، عمران خان اپنے دوست کو بچانے کے لئے کراچی کو اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں، ہمارے سیلاب متاثرین ابھی تک در بدر ہیں، سلیکٹڈ وزیراعظم سیلاب متاثرین کو ابھی تک پوچھ نہیں رہا، آصف زرداری نے سیلاب متاثرین کو سیلاب کارڈ دیا، انہیں سندھ کے عوام کو اپنانا پڑے گا، عمران نے کراچی کو دھوکہ دیا ہے، ایک ہزار ارب روپے کا پیکیج دھوکہ نہیں تھا؟، یوٹرن نہیں تھا تو کیا تھا؟، ایک ہزار ارب روپے میں سے 800 ارب روپے آپ نے دینے ہیں، انہوں نے کراچی کے صوبے کے متاثرین کے لئے ایک روپیہ نہیں دیا، انہوں نے پاکستان کے معاشی حب کے لئے ایک روپیہ نہیں دیا۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ لوگ سندھ کے ساحلوں پر ایک آرڈیننس کے ذریعے قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم انہیں خبردار کرتے ہیں، انہیں اپنا آرڈیننس واپس لینا ہوگا، بدھ کو سندھ اسمبلی کا اجلاس ہے، سندھ اسمبلی سمیت اسے دوسری اسمبلیوں سے بھی فارغ کر دیں گے، عمران خان کشمیر کا وکیل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن یہ کلبھوشن کے وکیل بن گئے، اس نااہل وزیراعظم کو جانا پڑے گا، پاکستان کا نوجوان مایوس ہے، شہریوں کو بے گناہ قتل کیا جا رہا ہے، یہ سلیکٹڈ وزیراعظم کہتا ہے کہ میں جمہوریت ہوں، اس سے بڑی آمرانہ سوچ کیا ہوگی کہ یہ پارلیمنٹ کو نہیں مانتا، یہ پاکستانی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، کسی ایک شخص کی حکومت جمہوریت کی نفی ہے، اس شخص کا غرور پاکستان کے عوام مٹی میں ملا دیں گے، اس کٹھ پتلی وزیراعظم اور ماضی کے آمروں کو یاد کرنا چاہیئے، اس کٹھ پتلی وزیراعظم کی اوقات کیا ہے، اب لڑائی فیصلہ کن ہوگی، جب بھی آمرانہ حکومتیں عوام کے حقوق پر قابض ہوئی ہیں تو پیپلز پارٹی سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئی ہے، ہم نے اس ملک میں جمہوریت کے لئے اپنا خون دیا ہے، شہید بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے اپنی جانیں قربان کی ہیں، جب بھی جمہوریت پر برا وقت آیا تو تمام اختلافات بھلا کر منظم جدوجہد کی ہے، ایم آر ڈی اور اے آر ڈی میں جمہوریت کے دفاع کے لئے ہم کٹتے رہے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مشرف کے مارشل لاء میں شہید بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے میثاق جمہوریت کیا اور مل کر جدوجہد کی، ہم نے نہ صرف مشرف اور اس کے قافلے کو باہر نکالا بلکہ 18 ویں ترمیم بھی لے آئے اور جمہوری نظام کو مضبوط کیا، ہم عوام کی اصل طاقت کو عوام تک لانے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں، حق کی آواز بلند کرنے والوں کو جیل میں ڈالا جا رہا ہے، کچھ لوگ غیر جمہوری طریقے سے سلیکٹ ہوکر آئے ہیں، آج آئین اور قانون کی مخالفت کی جا رہی ہے، ہم نے ان عناصر کا مقابلہ کرنا ہے، اگر ہمیں پارلیمنٹ میں نہیں بولنے دیا گیا تو ہم سڑکوں پر بولیں گے، کس کس کو جیل میں ڈالیں گے، کبھی سمندر کو بھی جیلوں میں قید کیا گیا ہے، ان کو تو پابندیاں لگانے کا
شوق ہے، سلیکٹڈ وزیراعظم نے بولنے پر پابندی، ٹک ٹاک پر بھی پابندی لگا دی، عوام کی طاقت کے سامنے ظلم اور جبر کرنے والے نہیں ٹھہر سکتے، کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی نیب اور ایف آئی اے کی دھمکیوں سے ڈر جائیں گے، ہم تو پھانسیوں پر چڑھ چکے ہیں، اس کٹھ پتلی کی دھمکیوں کی کیا اوقات ہے، ہم نے ضیاء الحق کے دور میں پھانسی گھاٹ کا سامنا کیا، جب بھٹو کو پھانسی دی جا رہی تھی تو بھٹو نے کہا تھا کہ اتنی خاموشی کیوں ہے تو جیل جئے بھٹو کے نعروں سے گونج اٹھا، جب بھٹو پھانسی چڑھ سکتا ہے تو ایاز بھی پھانسی چڑھ سکتا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ماؤں نے کہا ہے کہ ہم اپنے دس بیٹے بھی بے نظیر بھٹو پر قربان کرنے کے لئے تیار ہیں، گرفتار کرنا چاہتے تو شوق سے اپنا شوق پورا کرو لیکن یہ عوام خاموش نہیں بیٹھیں گے، عوام ان کے خلاف کھڑے ہوں گے، یہ جنگ وکیلوں کی، طالب علموں کی، مزدوروں کی، ڈاکٹروں کی اور ہر طبقہ فکر کے لوگوں کی جنگ ہے، یہ تحریک نا انصافی اور ظلم کے خلاف ہے، یہ تحریک وعدے کو نبھانے کی تحریک ہے، یہ عوام کو حق حکمرانی واپس دلانے کی تحریک ہے، نوجوانوں کے مستقبل کی تحریک ہے، غریب کو روٹی، کپڑا اور مکان دینے کی تحریک ہے، یہ وہ جمہوریت نہیں ہے، جس کے لئے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے شہادت قبول کی، یہ وہ جمہوریت نہیں ہے، جس کے لئے کارکنوں نے جیلیں کاٹیں اور کوڑے کھائے ہیں، عوام کو حقیقی جمہوریت دو، پورے پاکستان کی جمہوری قوتیں ایک پیج پر اور ایک اسٹیج پر بھی ہیں، اب اس حکومت کو، اس سلیکٹڈ کو اور ان کے سلیکٹرز کو ہمارے پیج پہ آنا پڑے گا، ورنہ ان سب کو جانا پڑے گا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز شریف نے جلسے سے خطاب میں کہا کہ ایک شخص چیخ چیخ کر اپنی ناکامی کا ماتم کر رہا تھا، ابھی تو ایک ہی جلسہ ہوا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں، ایک ہی جلسے میں وہ شخص دماغی توازن کھو بیٹھا، جعلی اور سلیکٹڈ ہی سہی اگر آپ وزیراعظم کے عہدے پر بیٹھے ہیں اور مانا آپ پر بہت دباؤ ہے پھر بھی وزیراعظم کی کرسی کی لاج ہی رکھ لیتے، تقریر کے ایک ایک لفظ اور حرکات و سکنات سے آپ کا خوف جھلک رہا تھا اور یہی خوف پاکستان کے عوام آپ کے چہرے پر دیکھنا چاہتے ہیں، یہ خوف عوام کی طاقت کا ہے۔ مریم نواز نے کہا کہ عمران خان دباؤ میں رہنے کے باوجود کام کرنا نواز شریف سے سیکھیں، جب آپ 126 دن دھرنے میں بیٹھے رہے، تب بھی نواز شریف بوکھلائے نہیں اور الٹے سیدھے بیانات نہیں دیئے، عمران خان کو نواز شریف کے منہ سے اپنا نام سننے کی خواہش ہی رہ جائے گی، اس لئے کہ بڑوں کی لڑائی میں بچوں کا کوئی کام نہیں، آپ کس خوشی میں اچھل رہے ہیں، آپ پہلے تابعدار ملازم تھے، اب وزیراعظم کی کرسی پر آنے کے بعد وزیراعظم کی تنخواہ لے رہے ہیں۔ مریم نواز نے اپنے خطاب میں انتظامات پر پیپلز پارٹی کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ اس جلسے کو دیکھ کر مجھے بے نظیر بھٹو کی یاد آگئی، میری ان سے زندگی میں
صرف ایک ملاقات رہی اور وہ مجھ سے ایک شفیق ماں کی طرح پیش آئیں، جس طرح اہل کراچی نے میرا استقبال کیا ہے، میں ان کا احسان زندگی بھر نہیں اتار سکتی اور میں یہ عہد کرتی ہوں کہ میں یہ عہد نبھاؤں گی، مجھے کراچی اور لاہور کی سڑکوں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا۔

مریم نواز شریف نے  کہا کہ کراچی کی بہتر تعمیر و ترقی اور کورونا میں بہتر کارکردگی پر سید مراد علی شاہ قابل تعریف ہیں، کل ایک شخص چیخ چیخ کر اپنی ناکامی اور شکست کا ماتم کر رہا تھا، میں اس جعلی کو وزیراعظم نہیں مانتی ہوں اور نہ اس کی حکومت کو تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے قائدین سے کہا کہ آج عہد کریں کہ ہم انتخابی میدان میں ایک دوسرے کے حریف ہوتے ہوئے بھی اتنا آگے نہیں جائیں گے، جس کی مثال عمران خان اور ان کے لوگوں نے رکھی ہے، اتنے اگر جرأت مند ہو تو نواز شریف کی تقریر چلا دو، اگر نہیں چلا سکتے ہو اور اتنے بزدل ہو تو اس پر تبصرہ کرنا بھی تمہارا حق نہیں، کیا نواز شریف کی تقریر چھپ کر سن رہے تھے، پھر کہتے ہیں کہ نیب ہمارے ساتھ ہے، کون نہیں جانتا ہے کہ نیب عمران خان کے حکم پر چلتی ہے، سب اداروں پر تم نے غاصب کی طرح قبضہ کیا ہوا ہے، اسلام آباد کے ڈی چوک پر قوم کی مائیں بہنیں بیٹھی ہوئی ہیں، تمہیں اتنی توفیق نہیں کہ کسی کو بھیجو اور پوچھ سکو کہ ان کے مسائل کیا ہیں، تم نے عوام سے روزگار چھینا، بیماروں سے دوائی چھینی، دوائی کی قیمتوں میں دو سال میں 500 فیصد اضافہ ہوا۔ مریم نے کہا کہ مجھ پر اور بلاول پر حرام کی کمائی کا الزام لگایا گیا، سب جانتے ہیں بلاول اور مریم کے آباؤ اجداد کیا تھے، دنیا جانتی ہے، تم ذرا اپنا تو بتاؤ کہ تمہارے آباؤ اجداد کیا تھے۔

مریم نواز شریف نے  کہا کہ جس شخص کے تمام اخراجات اس کے امیر دوست برداشت کرتے ہوں تو اس کو دوسروں کے بارے میں سوال کا کوئی حق نہیں، پچاس لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کیا تھا، اس کا کیا ہوا، تم نے لوگوں سے روزگار اور دو وقت کی روٹی چھین لی، لوگ پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور ہیں، ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا تھا، اس میں سے کتنی نوکریاں ملیں، جن کے پاس تھیں، ان کی بھی چھین لیں، پاکستان کو افغانستان سے بھی نیچے لے جانا تمہارا کارنامہ ہے، معیشت پر خودکش حملہ کرنا تمہارا کارنامہ ہے، کاروبار تباہ کرنا تمہارا کارنامہ ہے، سقوط کشمیر تمہارا کارنامہ، کشمیر اور لاکھوں کشمیریوں کا مقدمہ ہار جانا ہے تمہارا کارنامہ، پاکستان کے دیرینہ دوستوں سے محروم کرنا ہے تمہارا کارنامہ اور جب ان سے ان باتوں کا جواب مانگا جاتا ہے تو بولتے ہیں تم غدار ہو، غداری کا سرٹیفکیٹ بابائے قوم کی بہن کو بھی دیا گیا تھا، اگر فارن فنڈنگ غبن کیس کا فیصلہ ہوگیا تو تمہاری غداریوں کا پول کھل جائے گا، چار سال سے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کیوں نہیں ہو رہا، ایک دن تمہاری کرپشن اور ناکامی کی داستانیں سامنے آئیں گی، مودی کی کامیابی کی دعائیں مانگو تم، کلبھوشن کے لئے رعایت تم دے دو، کشمیر دو تم
اور الزام ہم پر۔

مریم نواز شریف نے کہا کہ ملک کو ترقی کی طرف گامزن کرنے والا نواز، فوج کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے والا نواز شریف، سیاچن کے فوجیوں کے ساتھ کھڑا ہونے والا نواز شریف لیکن جب تمہاری نالائقیوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو تم فوج کے پیچھے چھپ جاتے ہو، تم فوج کو آلودہ کر رہے ہو، تم فوج پر انگلیاں اٹھانے والوں کو تقویت دیتے ہو، فوج کو اپنی سیاسی ناکامی چھپانے کے لئے استعمال کرتے ہو، پاکستانی فوج ہماری ہے، پاکستانی فوج یہاں بیٹھے سب لوگوں کی ہے، فوج کو قوم سلام کرتی ہے مگر جو افراد اداروں کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں، اس سے اداروں کا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ مریم نواز نے کہا یہ کہتے ہیں مسلم لیگ (ن) پر پابندی لگا دیں گے، پاکستان مسلم لیگ (ن) کروڑوں لوگوں کا چہرہ ہے، یہ عوام کی جماعت ہے، تم جاؤ الیکشن کمیشن، ہم بھی تمہاری ویڈیو لے کر تمہارے پیچھے آرہے ہیں، جس میں تم نے فوج کا مذاق اڑایا تھا، تم کہتے ہو کہ جلسوں اور تحریکوں سے یہ حکومت نہیں جائے گی، لیکن یہ حکومت اسی سے جائے گی، یہ تحریک اُس وقت تک چلے گی جب تک عوام کے بجھے ہوئے چولہے نہیں جل جاتے، یہ تحریک اُس وقت تک چلے گی جب تک پاکستان میں آئین اور قانون کی بالادستی نہیں ہو جاتی، جب تک میڈیا اور عدلیہ آزاد نہیں ہو جاتی، تب تک یہ تحریک چلے گی، جو بزدل ہے وہ ہٹ جائے اور جو شیر ہے وہ ڈٹ جائے۔

جمعیت اہلحدیث کے امیر پروفیسر ساجد میر نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہم اپنی چوری چھپانے کے لئے نہیں وزیراعظم کی آٹا، چینی چوری کو بے نقاب کرنے کے لئے میدان میں آئے ہیں، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ عوام کو حق دلانے کے لئے معرض وجود میں آئی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما امیر حیدر ہوتی نے خطاب میں کہا عمران خان کا دھرنا ایک سرکس تھا، ہمارا جلسہ ایک سیاسی تحریک ہے، آپ نے ایمپائر کو بلا کر دھرنا دیا، ہم عوام کو ساتھ ملا کر دھرنا دیں گے، نئے پاکستان کو تو دیکھ لیا، نئے عمران خان کو بھی دیکھ لیں گے۔ پشتون خواہ عوامی ملی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہم غدار نہیں ہیں، ہم نے وطن کی آزادی کے لئے قربانی دی ہے، نفرت تقریروں سے نہیں، ناانصافی سے پھیلتی ہے۔ نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا میں ارض وطن کے لئے شہید ہونے والوں کو سلام پیش کرتا ہوں، سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی پر قبضے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو ہم نہیں ہونے دیں گے، کسی صورت میں سندھ کے جزائر وفاق کو نہیں دیں گے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے بانی اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے حکمران عمران خان اگر وزیراعظم ہیں تو جواب دیں کہ جو آج کے دن شہید ہوئے تھے، ان کے لواحقین کو انصاف ملا، تین بار وزیراعظم منتخب ہونے والے پر ملک دشمنی کے الزامات لگائے گئے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے کہا کہ ہم جمہوریت چاہتے ہیں مگر وہ جمہوریت جس میں مجھے برابر کا شہری سمجھا جائے۔
خبر کا کوڈ : 893008
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عمران کا جیالا
Pakistan
یہ سب مل کر بھی کچھ نہیں کر پائیں گے، اگر انہوں نے کچھ کرنا ہوتا تو اپنی حکومتوں کے ادوار میں ہی ملک کے حالات ٹھیک کر لیتے۔
ہماری پیشکش