QR CodeQR Code

امام خمینی اور سماجی انصاف(1)

20 Oct 2020 08:56

اسلام ٹائمز: قرآن پاک میں عدل و انصاف کو وہ بنیادی ستون قرار دیا گیا ہے، جس پر کائنات اور ہستی استوار ہے۔ دوسرے لفظوں میں عدل کائنات و ہستی کی اساس اور انسانیت کا بلند ترین ہدف ہے۔ تمام آسمانی ادیان اور شریعتوں کا بنیادی ہدف و مقصد انسانی معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام ہے۔ قرآن کی نگاہ میں عدل کی اپنی حیثیت ہے اور تمام امور کی سلامتی اور بقاء اس سے وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خداوند عالم تمام انسانوں بالخصوص مومنین کو حکم دیتا ہے کہ عدل و انصاف کا قیام عمل میں لائو۔ قرآنی تعلیمات کے بعد عدل انسانی فطرت کی بنیاد اور جڑوں میں موجود ہے اور انسان کو چاہیئے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں انفرادی اور اجتماعی عدل کے قیام کے لیے کوشاں رہے۔


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی نے معاشرے کے ہر موضوع پر اپنے افکار و نظریات اور اس کا عملی نمونہ پیش کیا ہے۔ سماجی انصاف اور معاشرتی طبقہ بندی پر معاشرے اور حکومت کی بنیادی مشکل اور عوامی مطالبہ رہا ہے۔ امام خمینی نے اس موضوع پر عملی اور نظریاتی کردار پیش کیا ہے، اس پر چند مضامین میں روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سماجی انصاف کا قیام طول تاریخ میں انسانیت کے لیے نہایت اہم اور بنیادی مسئلہ رہا ہے۔ ایران کے اسلامی انقلاب میں بھی سماجی انصاف ایک اہم سلوگن تھا۔ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی یعنی 1979ء میں دنیا میں کیمونزم یعنی اشتراکیت کے نظریات کا دور دورہ تھا اور اس میں سماجی انصاف اور مختلف طرح کے تعصبات کے خاتمے کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا تھا۔ کیمونزم نے اسلام کے خلاف یہ پراپیگنڈہ کر رکھا تھا کہ ایک تو یہ کہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور دوسرا دین ظلم اور تعصبات کا حامی اور مظلوم اور محروم طبقے کا مخالف ہے۔

کیمونزم کے اس شور شرابے میں امام خمینی نے نظریہ اسلام کو پیش کیا اور اسلامی تعلیمات میں موجود سیاسی افکار و نظریات اور سماجی انصاف کے نظریئے کو کھل کر بیان کیا۔ امام خمینی کی قیادت میں جس اسلامی انقلاب کا آغاز کیا، اس میں سماجی انصاف ترجیحات میں شامل تھا۔ 1979ء میں ایران کا اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو جو حکومت قائم ہوئی اس میں سماجی انصاف کا قیام اس شدت سے نہ ہوسکا، جس کی امام خمینی کو خواہش تھی، تاہم اس انقلاب نے محروم اور مستضعف طبقے کو اہمیت دی اور طبقاتی تعصبات کو ختم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ امام خمینی جس طرح انقلابی سرگرمیوں کے دوران سماجی انصاف پر تاکید فرماتے تھے، آپ نے اسلامی حکومت کے قیام کے بعد بھی اس سلسلے کو شدت سے جاری رکھا۔ امام خمینی سماجی انصاف کے قیام اور طبقاتی نظام کے خاتمے اور امتیازی رویوں کے خلاف عمر کے آخری حصے تک سرگرم رہے اور انھوں نے ایران کے اسلامی انقلاب کی پالیسی سازی اور آئین کی تدوین میں سماجی انصاف کے نقاط پر ہمیشہ زور دیا۔

امام خمینی کے افکار و نظریات میں اسلام و تشیع کو مرکزیت حاصل تھی، لہذا سماجی انصاف کے موضوع کو اسلام اور تشیع میں دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔ عدل و انصاف کا موضوع ایک وسیع مفہوم کا حامل ہے اور اس موضوع پر مختلف فلاسفہ اور دانشوروں نے اپنے اپنے نظریات بیان کیے ہیں۔ معروف فلسیفیوں مثلاً ارسطو اور افلاطون نے جہاں اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے، وہاں ابو نصر فارابی جیسے اسلامی دانشوروں نے بھی اپنا نظقہ نظر بیان کیا۔ مکتب تشیع میں عدل و انصاف کے موضوع کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور اس لیے مکتب تشیع میں عدل کو بنیادی اور اصول دین میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔ تشیع کے عقائد میں خداوند عالم کا عادل ہونا جہاں کلامی حوالے سے اہمیت کا حامل ہے، وہاں اس کے اثرات تشیع کے سیاسی افکار و نظریات اور حکومتی نظام پر بھی براہ راست پڑتے ہیں۔

قرآن پاک میں عدل و انصاف کو وہ بنیادی ستون قرار دیا گیا ہے، جس پر کائنات اور ہستی استوار ہے۔ دوسرے لفظوں میں عدل کائنات و ہستی کی اساس اور انسانیت کا بلند ترین ہدف ہے۔ تمام آسمانی ادیان اور شریعتوں کا بنیادی ہدف و مقصد انسانی معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام ہے۔ قرآن کی نگاہ میں عدل کی اپنی حیثیت ہے اور تمام امور کی سلامتی اور بقاء اس سے وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خداوند عالم تمام انسانوں بالخصوص مومنین کو حکم دیتا ہے کہ عدل و انصاف کا قیام عمل میں لائو۔ قرآنی تعلیمات کے بعد عدل انسانی فطرت کی بنیاد اور جڑوں میں موجود ہے اور انسان کو چاہیئے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں انفرادی اور اجتماعی عدل کے قیام کے لیے کوشاں رہے۔ قرآن پاک کے الفاظ میں جو فرد معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کے لیے کوشش کرے گا، وہ خداوند عالم کے ہاں محبوب ٹھہرے گا۔ "ان اللہ یحب المقسطین" اسلام و قرآن کے یہی فرامین اس بات کا باعث بنتے ہیں کہ ہر مسلمان کو عدل و انصاف کے قیام کے لیے کوشاں رہنا چاہیئے۔

امام خمینی نے بھی اسی قرآنی و اسلامی نظریئے کو اپنا نصب العین قرار دیتے ہوئے عدل و انصاف کے قیام کے پرچم کو بلند کیا۔ معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام اور نفاذ کے حوالے سے امام خمینی کے سامنے رسول خدا اور امیرالمومنین ایک آئیڈیل اور مثالی نمونہ تھے اور امام خمینی نے ان دو ہستیوں کو اپنا آئیڈیل قرار دے کر اسلامی انقلاب کی تحریک میں سماجی اور اجتماعی انصاف کو اپنی تحریک کا بنیادی سلوگن اور ہدف قرار دیا۔ رسول خدا نے اپنی تمام زندگی میں ہمیشہ عدل و انصاف کے قیام، طبقاتی نظام کے خاتمے اور ہر طرح کے تعصبات سے پاک معاشرے پر تاکید فرمائی۔ آپ نے اپنی الہیٰ اور عدل و انصاف پر مبنی تعلیمات کے ذریعے ایک عادلانہ معاشرے کی تشکیل پر تاکید فرمائی اور اس طرح کے معاشرہ کے قیام کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کیں۔ رسول خدا کے افکار و نظریات کی روشنی میں سماجی و اجتماعی انصاف کے کئی پہلو میں اس کی ایک اہم اساس خلقت میں تمام انسانوں کا یکساں اور مساوی ہونا ہے۔

رسول خدا کی سیرت و تعلیمات کے مطابق تمام انسان چاہے ان کا کسی بھی نسل، زبان، رنگ اور قوم و قبیلے سے تعلق ہو، برابر اور مساوی ہیں اور کسی کو کسی پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے، مگر یہ ہے کہ وہ تقویٰ میں دوسروں سے زیادہ ہو۔ رسول خدا کی نظر میں تمام انسان اپنی خلقت میں مساوی ہیں اور سب اپنی تقدیر اور سرنوشت کے حوالے سے آزاد و خود مختار ہیں۔ جب سب انسان مساوی اور برابر ہیں تو انہیں اسلامی معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کے لیے مل جل کر کام کرنا چاہیئے۔ رسول خدا کی نگاہ میں ایک مکمل اور سالم معاشرے کے لیے عدل و انصاف بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہے اور جس معاشرے میں دوسروں کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے، وہ ایک مطلوبہ اور صحیح معاشرہ بن جاتا ہے۔ امام خمینی رسول خدا اور امیرالمومنین کے عدل و انصاف کے نظریئے کو اپنے لیے نصب العین قرار دیتے ہوئے اس بات کے قائل تھے کہ عدل و انصاف ایک انفرادی فضلیت نہیں ہے بلکہ عدل و انصاف ایک مطلوبہ معاشرے کی فضیلت اور خصوصیت ہے۔ امام خمینی کی نگاہ میں سماجی عدل و انصاف نہ صرف حکومتی قوانین پر حاکم ہو بلکہ تمام سیاسی و سماجی تنظیموں اور اداروں کی اساس و بنیاد بھی عدل و انصاف کا قیام ہو اور یہ نظریہ سب سے فوقیت رکھتا ہو۔

امام خمینی اسلامی معیارات پر سماجی انصاف کے نفاذ کو اسلامی حکومت کے قیام کا بنیادی اور آخری ہدف قرار دیتے تھے۔ آپ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ تمام شرعی قوانین عدل و انصاف پر استوار ہیں اور ان قوانین کے نفاذ کا فلسفہ بھی معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا ہے۔ امام خمینی اس موضوع کو واضح کرنے کے لیے فرماتے ہیں کہ شرعی احکام اور اسلامی قوانین حکومت اسلامی کی پہچان ہیں اور یہ قانون کے نفاذ اور عدل و انصاف کے پھیلائو کے لیے وسیلہ اور ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ ایک اور موقع پر امام خمینی فرماتے ہیں، بے شک اسلام نے ایک عادلانہ حکومت کے قیام کے لیے قیام کیا، جس میں مالیات، بیت المال اور اس موضوع سے متعلقہ تمام احکامات معاشرے کے تمام طبقات کے لیے عدل و انصاف کی بنیاد پر ہیں۔ اس طرح قضا و حقوق کے تمام قوانین بھی عدل و انصاف کی اساس پر ہیں۔ امام خمینی کے افکار و نظریات میں انبیاء الہیٰ کی رسالت کا بنیادی ہدف ایک ہی وقت میں انفرادی اور اجتماعی عدل و انصاف کا نفاذ ہے۔

تمام انبیاء نے معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کے لیے زحمتیں اور تکالیف برداشت کیں۔ انسانوں کے لیے اجتماعی میدان میں سماجی انصاف اور باہمی حوالے سے فرد کے اندر داخلی عدل کا قیام انبیاء کا آخری ہدف تھا۔ امام خمینی نے اسی اساس پر ایران کے اسلامی انقلاب کی بنیاد رکھی اور سماجی انصاف کے قیام کا بنیادی مقدمہ قرار دیا۔ آپ فرماتے تھے کہ اسلامی جمہوریت میں نہ ظلم ہے، نہ زور گوئی۔ اس میں غرباء و فقراء کی فلاح و بہبود کا سوچا جائے گا اور حقداروں کو ان کا حق ملے گا۔ عدل الہیٰ معاشرے پر سایہ فگن ہوگا۔ امام خمینی انفرادی اور اجتماعی عدالت کے نظریئے کو بیان کرتے ہوئے اس بات پر تاکید فرماتے تھے کہ فردی اور اجتماعی عدل و انصاف ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔ امام خمینی کی نگاہ میں انفرادی عدل و انصاف کی طرح سماجی انصاف کا نفاذ بھی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ انفرادی عدل و انصاف اجتماعی اور سماجی عدل و انصاف کے لیے زمینہ ہموار کرتا ہے اور سماجی انصاف معاشرے کے افراد میں عدلو انصاف کے پھیلائو کا باعث بنے گا۔

امام خمینی کے نظریات میں ایک عادل او عدالت پسند فرد ہی معاشرے کی سربراہی اور قیادت کا حقدار ہے۔ آپ اس لیے امام معصوم کی غیر موجودگی میں ایک فقیہ عادل کو حکومت کی سربراہی کا اہل سمجھتے ہیں۔ امام خمینی کی نگاہ میں ایک عادل فقیہ کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام عمل میں لائے۔ امام خمینی نے اپنی کتاب ولایت فقیہ میں امام زمانہ کی غیبت میں ایک عادل فقیہ کی سربراہی کے لیے جو دلائل دیئے ہیں اور اس کے لیے جو اختیارات متعین کیے ہیں، اس میں سربراہ حکومت کا فقیہ عادل ہونا نیز احکام دینیہ کے نفاذ اور عدل و انصاف کے قیام کو اس کا فریضہ قرار دیا ہے۔ امام خمینی ہر طرح کی استبدادی اور آمرانہ حکومت کی مذمت کرتے ہوئے ہر مسلمان کا یہ شرعی فریضہ سمجھتے ہیں کہ وہ ظالم و جابر حکومت کے خلاف قیام اور اس کو سرنگوں کرے، تاکہ ایسی حکومت قائم ہو، جس میں عدل و انصاف کا نفاذ کیا جا سکے۔ آپ نے اسی نظریئے پر عمل کرتے ہوئے شاہ ایران کی ظالم و جابر حکومت کے خلاف قیام کیا اور ایران میں اسلامی انقلاب برپا کرکے سماجی عدل و انصاف پر مبنی اسلامی نظام نافذ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 893062

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/893062/امام-خمینی-اور-سماجی-انصاف-1

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org