0
Tuesday 20 Oct 2020 22:30

جہاں صرف نفرتیں پھوٹتی ہوں

جہاں صرف نفرتیں پھوٹتی ہوں
تحریر: ذاکر حسین میر

اسلام کا اخلاقی نظام محبت، بھائی چارہ گی، احترام، برداشت، میانہ روی، خود گذشتگی، رواداری، عفو و بخشش اور شفقت و مہربانی کے گرد گھومتا ہے۔ یہی وہ مثالی نظام ہے جس کی بدولت دین کا آفاقی پیغام مختصر عرصہ میں ہر سو پھیلا۔ خداوند متعال خلق عظیم کے مرتبہ پر فائز اپنے آخری نبی ﷺ کو مخاطب کر کے کہتا ہے، "فَبِمَا رَحْـمَةٍ مِّنَ اللّـٰهِ لِنْتَ لَـهُـمْ ۖ وَلَوْ كُنْت فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْـهُـمْ وَاسْتَغْفِرْ لَـهُـمْ؛" پھر اللہ کی رحمت کے سبب سے تو ان کے لیے نرم ہو گیا اور اگر تو تند خو اور سخت دل ہوتا، تو البتہ تیرے گرد سے بھاگ جاتے، پس انہیں معاف کر دے اور ان کے واسطے بخشش مانگ۔ (آل عمران/۱۵۹)؛ یعنی اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ ﷺ کے اردگرد جمع رہیں تو اپنا دل ان کے لئے نرم رکھیں، ان کے ساتھ سختی سے پیش نہ آئیں اور اگر ان سے کوئی خطا سرزد ہو تو انہیں بخش دیں۔ یہی وجہ تھی کہ رحمت للعالمین (ص) نے سخت ترین دشمن کو بھی مہربانی، عطوفت اور بخشش سے نوازا۔ فتح مکہ کے موقع پر ان لوگوں کیلئے بھی عام معافی کا اعلان کیا جو آپ ﷺ کو ختم کرنے کے تمام حربوں آزما چکے تھے۔

مسلمان تو مسلمان، آپﷺ کا سلوک کفار و مشرکین کے ساتھ بھی مثالی تھا؛ ان کی ضرورتوں کو پورا کیا کرتے تھے، ان کے بیماروں کی عیادت کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے اور اگر ان میں سے کوئی تنہا رہ جاتا، تو ان کی تیماداری بھی کیا کرتے تھے۔ حسن معاشرت کے اس مثالی برتاؤ کے باجود، راستہ چلتے ہوئے آپﷺ پر کُوڑا گرانا، پتھر مار کر لہولہاں کردینا، نماز میں مشغول ہوتے تو پیچھے سے شرارتیں کرنا اور آپ ﷺ پر آوازیں کسنا معمول کا کام تھا لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ نے انہیں بد دعا تک نہیں دی بلکہ ہمیشہ یہی فرماتے رہے، اے اللہ! انہیں بخش دے یہ لوگ مجھے پہچانتے نہیں۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس کی بنیاد خدا اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت رکھی گئی ہے۔ یہی وہ خوبی ہے جو مسلمانوں کو دیگر مکاتب کے پیروکاروں سے ممتاز کرتی ہے۔ یہود ونصاری بھی اللہ اور اس کی برگزیدہ ہستیوں سے محبت کا دعوی کرتے ہیں لیکن ان میں جس چیز کا فقدان ہے، وہ اطاعت ہے۔

اسی لئے اسلام یہود و نصاری کے راستے پر چلنے سے سختی سے منع کرتا ہے۔ حقیقت بین آنکھوں سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری حالت بھی یہود و نصاری سے چنداں مختلف نہیں ہے۔ ہم بھی عشق و محبت کے قصیدے تو بہت پڑھتے ہیں، لیکن ان کی پاک سیرت پر نہیں چلتے! اللہ اور اس کے برگزیدہ بندوں اور اللہ کی تمام نشانیوں سے عشق و محبت جامعہ اسلامی کی بہترین خصوصیات میں سے ہیں۔ لیکن عشق احساس کی حد تک نہ ہو، بلکہ ہمارے اور اللہ کے درمیان مضبوط رشتہ قائم کرنے کا ذریعہ ہو اور اس کے آثار زندگی کے تمام شعبوں نمایاں ہوں۔ بغیر کسی چون و چرا کے اللہ کے رسولﷺ کی پیروی ہی ان کے ساتھ عشق اور مودت کی علامت ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے، "قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِىْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ يَغْفِرْ لَـكُمْ ذُنُوْبَكُمْۗ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ؛" (اے نبیﷺ!) کہہ دیں کہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو! خدا بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ (آل عمران ۳۱)۔ اطاعت سے ہٹ کر محبت کا جھوٹا دعوی کرنا یہود و نصاری کا شیوہ تھا، جسے قرآن نے یکسر مسترد کر دیا ہے۔

مذکورہ آیت میں مسلمانوں کو بڑے واضح اور دوٹوک الفاظ میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر تم رسول ﷺ سے محبت کرتے ہو، تو ان کی پیروی کرو! اور یہی بات احادیث مبارکہ سے بھی سمجھ میں آتی ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کا حکم، ان کی اطاعت اور پیروی  کے لئے مقدمہ ہے۔ وہی شخص حقیقی مسلمان، مومن اور محب کہلانے کا مستحق ہے۔ جو اطاعت اور عمل کے میدان میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرے اور اگر تمام مسلمان اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو ایک مثالی اسلامی معاشرہ وجود میں آئے گا، جہاں محبت، اخوت، رواداری، عدل و انصاف، دوسروں کے حقوق کا احترام، ناپ تول میں ایمانداری، فقیروں، یتیموں اور مظلوموں کا خیال رکھنا اور صدق و صفا جیسی دینی اور اعلٰی انسانی اقدارکا بول بالا ہوگا۔  وگرنہ محبت کے خشک دعووں سے انسان کہیں نہیں پہنچتا۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم جس قدر زیادہ مذہبی ہیں، اسی قدر معاشرے میں مشکل ساز ہیں۔ آج سب سے زیادہ نفرت، دشمنی، تعصب، عدم برداشت، تشدد، اختلاف وغیرہ انہی کے کھاتے میں آتے ہیں، جو اپنے آپ کو عاشق رسولﷺ کہلاتے ہیں اور پیغمبر آخرالزمانﷺ اور ان کے اصحاب کا نام لے لے کر لوگوں کو اپنے اردگرد جمع کرتے ہیں۔ آج مسلمانوں کی مسجدوں، مدرسوں اور درباروں کو کسی غیر مسلم یا مسلمان سیکولر سے خطرہ نہیں اور اگر کسی سے خطرہ ہے تو انہی لوگوں سے ہیں جن کی نمازیں قضا نہیں ہوتیں، چہروں پر داڑھی ہے اور اپنے آپ کو رسول ﷺ کے حقیقی پیروکار سمجھتے ہیں۔ اسی طبقہ کا ایک گروپ دوسرے گروپ کے خلاف گندی زبان استعمال کرتا ہے، یہی لوگ کوچہ و بازار میں آپس میں دست و گریبان ہیں جبکہ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے جھاڑنے کا کمال بھی انہی لوگوں میں ہے۔ یہی لوگ بے گناہوں کا خون بہاتے ہیں اور کتنے معصوم لوگ ان کے ہاتھوں زندگی کی نعمت سے محروم ہو چکے ہیں۔

نام کے ہم حافظ، مفسر، مفتی، واعظ اور قاری ہیں لیکن ہمارے کام قرآن و سنت کی تعلیمات کے برعکس ہیں۔ ہم جس قرآن کے حافظ، قاری اور مفسر ہیں، اسی میں آیا ہے، "لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ؛" ایک قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اڑاو ! عجب نہیں کہ وہ تم سے بہتر ہو،(حجرات۱۱) "وَلَا تَلْمِزُوٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ؛" آپس میں طعنہ نہ دو، اور برے القاب سے مت پکارو۔ (حجرات ۱۱)، "اجنتنبوا کثیرا من الظن؛" بدگمانی سے بچو۔ (حجرات۱۲)‌، "ولا تجسسوا" (ایک دوسرے) کے عیب مت ڈھونڈو۔ (حجرات ۱۳)‌،"لا یغتب بعضکم بعضا؛" ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔ (حجرات ۱۲)، لیکن ہمارے منبروں سے دوسروں کا مذاق بھی اڑایا جاتا ہے، تہمتوں کے تیر بھی چلتے ہیں، یہیں سے غیبت بھی ہوتی ہے، برے القابات سے پکارا بھی جاتا ہے اور دوسروں کے عیوب کا کھوج بھی لگایا جاتا ہے۔

انہی افراد کے بارے میں خاتم النبین ﷺ نے فرمایا تھا،"رُبَّ تالِ القرآنِ و القرآنُ يَلعَنُهُ؛" کتنے ایسے قرآن پڑھنے والے ہیں جن پر قرآن لعنت کرتا ہے۔ مسئلہ اس وقت اور پیچیدہ ہو جاتا ہے جب دین، قرآن اور مذہب کے دشمن اس اخلاقی پستی سے فائدہ اٹھائیں اور اسے اسلام کے آفاقی پیغام کی تفسیر کے طور پر پیش کریں۔ چنانچہ اہل مطالعہ حضرات سے یہ امر پوشیدہ نہیں ہے۔ آج کے کلمہ گو مسلمان مسجد، مدرسہ اور مولوی سے کیوں دور بھاگتے ہیں؟ ہمارے پاس تو اس کا بس ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ کہ لوگ بے دین اور دنیادار ہو چکے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مذہبی طبقوں میں لوگوں کو جذب کرنے کی کشش سے زیادہ انہیں دور کرنے کے عوامل کارفرما ہیں۔ لوگ اس تضاد سے بیزار ہیں۔ نمازی، قاری، خطیب، امام، مدرس اور معلم کے قول و فعل میں نظر آتا ہے۔ زبانوں پر تو رسول خدا ﷺ کی احادیث، ان کی پاک سیرت اور قرآن کی خوبصورت آیتیں ہوتیں ہیں، لیکن عمل تعصب، نفرت، گالی گلوچ، تشدد، مار دھاڑ اور اختلافات سے پر ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے لوگ وہاں جمع ہوں جہاں سے تعصب، دشمنی، جہالت، شرارت اور نفرتیں پھوٹتیں ہوں؟
خبر کا کوڈ : 893174
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش