QR CodeQR Code

امام خمینی اور سماجی انصاف(2)

24 Oct 2020 10:36

اسلام ٹائمز: امام خمینی سرمائے کی عادلانہ تقسیم کو مکمل طور پر رضاکارانہ بنیادوں پر قرار دیتے اور کہتے تھے کہ ہم لوگوں میں سے جنکے پاس بہت زیادہ مال اسباب ہے، انکا حساب کتاب کرینگے اور اسکا جائزہ لینگے کہ اسلامی حکومت عدل و انصاف پر مبنی نظام ہے۔ امام خمینی کے اقتصادی انصاف کے نظریہ کو اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایران کے آئین میں اقتصادی برابری اور اقتصادی و سماجی عدل و انصاف پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے بڑی صراحت سے اسکو بیان کیا گیا ہے۔ آئین کے مقدمے میں آیا ہے کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے کے افراد میں تخلیقی صلاحتیں پیدا کرنے کیلئے بہترین مواقع فراہم کرے، جسکے نتیجے میں سب کے لیے برابر مواقع پیدا ہوں، سب کیلئے روزگار کے مواقع میسر ہوں اور معاشرے کے تمام افراد کی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کیلئے اقدامات انجام دیئے جائیں۔


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

گذشتہ سے پیوستہ
امام خمینی کا یہ نظریہ ہے کہ سماجی انصاف ایک عادل حکمران کی حکمرانی کے بغیر نافذ نہیں ہوسکتا۔ امام خمینی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سماجی انصاف کے مختلف پہلوئوں پر توجہ دیتے تھے، آپ نے اپنے نظریات میں سماجی انصاف کے عام پہلوئوں کو واقع بھی کیا ہے۔ امام خمینی کے سماجی انصاف کے نظریئے کو گہرائی سے جاننے کے لیے اقتصادی عدل و انصاف کے بارے میں بھی جاننا ضروری ہے۔ اقتصادی انصاف دو موضوعات میں تقسیم کیا جاتا ہے، ان میں ایک پروڈکشن اور دوسرا سپلائی و ڈسٹری بیویشن ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں پروڈکشن یا پیدواری شعبے میں سرگرمی سے مراد یہ ہے کہ تمام شہریوں کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں، تاکہ پیداواری شعبے میں ترقی و پیشرفت ہو۔ معاشرے میں غربت و افلاس کا خاتمہ ہو اور ترقی و پیشرفت میں تیزی آئے، لیکن سوشلزم کے اقتصادی نظام میں سرمائے کی پورے معاشرے میں برابر تقسیم پر تاکید کی جاتی ہے۔ اس نظریئے کے مطابق سرمایہ داروں سے ٹیکس وصول کیے جائیں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیئے جائیں۔

کمیونزم اور سوشلزم کے علاوہ ایک تیسرا نظریہ بھی موجود ہے، جو ان دونوں کو ملا کر تیسرا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ امام خمینی کا اقتصادی نطریہ تیسرے نظریئے سے قریب ہے۔ اس نظریئے میں عدل و انصاف سب کے لیے ہے۔ اس میں معاشرے کے تمام افراد کے لیے مواقع فراہم کرنا ہے، تاکہ وہ موجودہ مواقع میں کم سے کم اپنی ضروریات ضرور پوری کرسکیں، تاکہ وہ ایک شرافت مندانہ زندگی گزار سکیں۔ اس نظام میں حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ غریب اور محتاج افراد کی حمایت کرے، کیونکہ حکومت کی تشکیل کا ایک ہدف معاشرے کو سلامتی اور معاشرے کے افراد کے لیے فلاح و بہبود کا سامان فراہم کرنا ہے۔ اس نطام میں معاشرے کے ہر فرد کے لیے سلامتی، روزمرہ کے کم سے کم اخراجات کے لیے مواقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر کسی معاشرے میں افراد کی روزمرہ کی اقتصادی مشکل حل ہو جاتی ہے تو اسے اپنی رزق و روٹی کی فکر نہیں ہوتی اور وہ معاشرے کی پیدواری صلاحیتوں میں اضافے میں مصروف ہو جاتا ہے۔

امام خمینی عوام الناس کی فلاح و بہبود کو اسلامی جمہوریہ کا بنیادی ہدف قرار دیتے تھے۔ آپ فرماتے تھے کہ ہماری ملت، حکومت اور حکام کی امنگ اور آرزو یہ ہے کہ معاشرے میں غربت و افلاس کا خاتمہ ہو اور ایران کے عزیز، صابر اور غیرت مند عوام زندگی کی سہولیات سے بہرہ مند ہوسکیں۔ امام ِخمینی محروموں اور مستضعفین کی حمایت اور سماجی انصاف کو اسلامی جمہوریہ کے لیے لازم و ملزوم سمجھتے تھے۔ وہ حکام سے عوام کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے پر ہمیشہ تاکید کرتے۔ آپ اکثر فرمایا کرتے کہ غرباء و فقراء کے لیے کام کرو، جھونپڑیوں میں رہنے والے غریبوں کے لیے جن کے پاس کچھ بھی نہیں غور و فکر کی جائے، حکومت سب کے لیے ہے اور سب کو کام کرنا چاہیئے، لیکن کمزوروں اور محروموں کے لئے زیادہ کام کیا جائے، تاکہ معاشرے میں ان کا سماجی درجہ بہتر ہو۔

امام خمینی ملک کے مختلف حصوں میں تبلیغ کے لیے جانے والے علماء سے مخاطب ہو کر فرماتے تھے کہ جس چیز کو آپ اپنی تقاریر میں فراموش نہ کریں، وہ غریبوں اور محتاجوں کی حمایت ہے۔ آپ فرماتے تھے کہ وہ چیز جس سے علماء کو گریز نہیں کرنا چاہیئے اور اپنی تبلیغ میں اس کو فراموش نہیں کرنا چاہیئے، وہ محروموں، غریبوں اور مستضعفوں کی حمایت ہے۔ امام خمینی اس طرح کے محروموں کے لیے پابرہنہ یعنی جن کے پائوں میں جوتا بھی نہیں ہو، کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔ آپ تاکید فرماتے تھے کہ جس کسی نے فقراء و غرباء کی حمایت سے انکار کیا، گویا اس نے اسلام کے سماجی عدل و انصاف سے دوری اختیار کی ہے۔ امام خمینی معاشرے میں طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے اور سرمائے کی مساوی تقسیم کو سماجی و اقتصادی انصاف کا لازم قرار دیتے تھے۔ وہ اس ہدف تک پہنچنے کے لیے رضاکارانہ بنیادوں پر سماجی خدمات فراہم کرنے اور حکومت کی طرف سے سماجی و اقتصادی خدمات کو ہر صورت میں عوام تک پہنچانے پر تاکید فرماتے تھے۔

آپ معاشرے کے سرمایہ دار طبقے کو رضاکارانہ بنیادوں پر اس مسئلے کی طرف دعوت دیتے تھے کہ وہ اپنے سرمائے میں فقراء کا حق نکالیں اور ان کی مالی حیثیت کو بہتر بنا کر ان کے سماجی طبقے میں بہتری کا باعث بنیں۔ تاکہ طبقاتی فرق کم سے کم ہو جائے۔ طبقاتی مساوات کا ایک فائدہ سرمایہ دار طبقے کے لیے بھی ہے، کیونکہ اس طرح وہ غرباء اور فقراء کی ناراضگی سے بھی محفوظ ہو جائیں گے۔ امام خمینی کہتے تھے کہ اب یہ بات قابل قبول نہیں کہ ایک طبقہ ہمیشہ اوپر رہے اور ہر چیز کو اپنے لیے چاہے اور دوسری طرف جھونپڑی میں رہنے والا طبقہ ہو، نہ یہ اسلام کی منطق کے مطابق ہے اور نہ عدل و انصاف کے قریب ہے۔ اس بات کی فکر کرنی چاہیئے کہ معاشرے کے مختلف افراد امیر یا غریب کی طبقہ بندی میں تقسیم نہ ہوں۔ اسلام عدل و انصاف کا خواہاں ہے، توازن کا خواہشمند ہے۔

امام خمینی سرمائے کی عادلانہ تقسیم کو مکمل طور پر رضاکارانہ بنیادوں پر قرار دیتے اور کہتے تھے کہ ہم لوگوں میں سے جن کے پاس بہت زیادہ مال اسباب ہے، ان کا حساب کتاب کریں گے اور اس کا جائزہ لیں گے کہ اسلامی حکومت عدل و انصاف پر مبنی نظام ہے۔ امام خمینی کے اقتصادی انصاف کے نظریہ کو اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایران کے آئین میں اقتصادی برابری اور اقتصادی و سماجی عدل و انصاف پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے بڑی صراحت سے اس کو بیان کیا گیا ہے۔ آئین کے مقدمے میں آیا ہے کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے کے افراد میں تخلیقی صلاحتیں پیدا کرنے کے لیے بہترین مواقع فراہم کرے، جس کے نتیجے میں سب کے لیے برابر مواقع پیدا ہوں، سب کے لیے روزگار کے مواقع میسر ہوں اور معاشرے کے تمام افراد کی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اقدامات انجام دیئے جائیں۔

حکومت ہر طرح کے تعصبات اور امتیازات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے معاشرے کے تمام افراد کے لیے مادی و معنوی مواقع فراہم کرے۔ آئین کی تیسری شق میں آیا ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے نیز غربت و افلاس کے خاتمے اور عوام الناس کے لیے ملازمت، روٹی، کپڑا، مکان اور صحت عامہ کی سہولیات اور انشورنش کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کا آئین جہاں شہریوں کی بنیادی ضروریات پورا کرنے پر تاکید کرتا ہے، وہاں بعض چیزوں کو عوام کے مختلف طبقوں کے لیے ممنوع بھی قرار دیتا ہے۔ مثال کے طور پر آئین کسی کو نقصان پہنچانے، ذخیرہ اندوزی کرنے، بیگار اور سود لینے نیز باطل اور حرام خرید و فروخت سے سختی سے منع کرتا ہے۔ اسی طرح فضول خرچی اور اسراف سے بھی منع کرتا ہے۔ آئین سرمایہ کو ایک جگہ اکٹھا ہونے اور روزمرہ کی ضروریات سے متعلقہ اجناس پر کسی ایک شخص یا گروہ کے قابض ہونے کی بھی مخالفت کرتا ہے۔

آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی معاشرے کے کسی فرد کو کسی خاص ملازمت سے محروم کرے اور اس کی ترقی و پیشرفت کے راستے میں حائل ہو۔ آئین کی 29 ویں شق میں آیا ہے کہ ریٹائرمنٹ کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح بے روزگاری یا بڑھاپے کی وجہ سے حکومتی امداد اور حادثات کی صورت میں طبی سہولیات فراہم کرنا اور محروموں کی حمایت حکومتی ذمہ داری ہے اور حکومت عمومی درآمد میں سے حاصل ہونے والی آمدنی کو مذکورہ امور میں صرف کرے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں امام خمینی کے اقتصادی و سماجی انصاف کے نظریئے کو خصوصی طور پر اہمیت دی گئی ہے اور اس کام کے لیے حکومتی اور نجی دونوں شعبوں کو اقتصادی، سماجی انصاف کے تقاضے پورے کرنے پر تاکید کی گئی ہے۔ امام خمینی نے انقلابی تحریک کے دوران اور اسلامی حکومت کے قیام کے بعد ہمیشہ سماجی انصاف کے قیام پر زور دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 893722

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/893722/امام-خمینی-اور-سماجی-انصاف-2

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org