0
Saturday 24 Oct 2020 18:30

سورہ حجرات کی چند آیات اور موجودہ دور میں معاشرہ سازی(3)

سورہ حجرات کی چند آیات اور موجودہ دور میں معاشرہ سازی(3)
تحریر: فدا حسین بالہامی
fidahussain007@gamail.com

فرمانبرداری کا فقدان:
موجودہ دور کا انسان علی الخصوص ایک مسلمان ایسا لگتا ہے کہ وہ پوری دنیا کو تابع فرمان دیکھنا چاہتا ہے اور کسی کے تابع رہنا اسے گوارا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی فرمانروائی چاہتا ہے اور فرمانبرداری کسی کو راس نہیں آتی۔ افسری کے دلدادہ سب ہیں ماتحتی کو ہر ایر غیرا بھی کسرِ شان تصور کرتا ہے۔ جسے کھٹیا پر بیٹھنے کی سدھ نہیں وہ کھڈ پینچ (مکھیا) بنا پھرتا ہے۔ اسی لئے لیڈروں کی بھرمار ہے اور پیرو کاروں کے سلسلے میں قحط الرجال۔ ہر ایک دوسرے شخص کا باغی ہے، کوئی کسی کو ماننے اور سننے کے لئے آمادہ ہی نہیں۔ ہر ایک اپنی ہی رائے کو پورے عالم پر مسلط کرنے کے فراق میں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے تابعداری اور فرمانبرداری کا مادہ ہی کسی آسیب نے آدم زاد سے اچک لیا ہو۔ خودسری اور خود خواہی کا راج ہے ایثار گری اور ہمدردی کا کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔

اجتماعی مصالح کی کسے فکر ہو یہاں تو ہر فرد خود غرضی اور خود پرستی کے خول میں ریشم کے کیڑے کی طرح بند ہے۔ نتیجہ بھی سامنے ہے کہ جہاں کل تک اطاعت کا چلن تھا وہاں آج بغاوت نے قبضہ جمایا ہے۔ یہ بغاوت ذہنوں، دلوں، گھروں، دفتروں، محلوں، بستیوں، اداروں حتیٰ کہ عبادت گاہوں میں سرایت کر گئی ہے۔ جس کا راست نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی، مذہبی، سماجی، فلاحی، پارٹیاں بے شمار ہیں اور ان میں ہر چڑھتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ بسا اوقات مسجدوں، امام بارگاہوں، دینی درسگاہوں، یتیم خانوں کی نت نئی تعمیر کے پیچھے بھی اقتدار، تصرف اور اختیار کی رسہ کشی ہی کارفرما ہوتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہر کوئی سربراہی اور عہدے کا خواہاں ہے۔ عام کارکن بن کر کام کرنے کے لئے کوئی تیار ہی نہیں۔

چنانچہ جب ایک پارٹی میں کسی کی یہ ذاتی خواہش پوری نہ ہوئی تو اس نے اپنی نئی پارٹی کھڑی کر دی تاکہ وہ بلا شرکت غیرے اس کا سربراہ بن جائے۔ اور اسی کا حکم اور سکہ چلے۔ ایک مسجد، امام باڑہ، یا یتیم خانہ کے اوقاف کی چئیرمین شپ جب اسے نہیں ملی تو اس نے اسی مسجد، امام باڑے اور یتیم خانے کی بغل میں ہی اسی نام سے ایک اور عمارت کھڑی کر دی۔ وادی کشمیر کے تناظر میں بلا خوف و تردید کہا جا سکتا ہے کہ یہاں اسوقت اتنے نمازی ہی نہیں جتنی مسجدیں ہیں اور اتنے یتیم ہی نہیں ہیں کہ جتنے یتیم خانے ہیں اور اتنے ذکرِ حسین ؑ کرنے والے موجود نہیں ہیں کہ جتنے امام باڑے ہیں اور نتیجہ انتشار و افتراق کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اور پورے عالم ِ اسلام میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے۔

رسولِ اکرم کے ادب و احترام اور فرمانبرداری کا دائرہ اثر:
قرآن کریم نے بحیثیت ہادی و رہبر آنحضرت کے حوالے سے صاحبانِ ایمان کو جو فرمانبرداری اور ادب و احترام کا درس سکھایا ہے اس کا ایک مقصد یہ ہے کہ ایک فردِ مسلم کی نفسیات اسی قالب میں ڈھلے کہ وہ ہر زمانے میں ہر صاحبِ تعظیم شخصیت کا ادب و احترام کرے اور اپنے امیر و رہبر (وہ چاہے جس عنوان سے بھی ہو) کے ہر جائز حکم کو بغیر چون و چرا تسلیم کرے، اور اپنے آپ کو احکام کی پابندی کا مجسم نمونہ بنائے۔ امامت و رہبری کا معاملہ امت کے بارے میں اس قدر حساس اور اہم ہے کہ آنحضرت کی ایک حدیث کے مطابق اگر تین مسلمان کہیں عازم سفر ہوں تو انہیں ایک کو بحیثیت امیر منتخب کرنا چاہیئے۔ اسے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ فرمان پذیری کا سلسلہ بنیادی سطح تک جا پہنچے، جس سے سماج کی تمام اکائیاں مضبوط اور مستحکم ہوں اور یوں افتراق و انتشار کا قلع قمع ہو۔ چنانچہ پیغمبر اکرم کا فرمان ہے کہ "جماعت رحمت ہے اور تفرقہ بازی عذاب"۔ (التمہید جلد ۲۔ ص۔۔ ۱۸۲ بحوالہ امامت و اجتہاد)۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جماعت یقیناً رحمت ہے لیکن کچھ شرائط کے ساتھ۔ اور ان میں چند شرطیں یہ ہیں۔

٭ اس جماعت کے افراد بنیادی عقائد و نظریات میں ہم عقیدہ و ہم فکر ہوں۔
٭ ان کے سامنے کوئی مخصوص و مشترکہ اور بلند ہدف ہو جس کو پانے کے لئے جماعت میں شامل افراد کا یک رخ اور یک سو ہونا نہایت ہی لازمی ہے۔
٭ جماعت و امت کے تکامل اور معنوی و دنیاوی پیشرفت کا ان سب کو خاص خیال ہو۔
٭ انہیں ذاتی مفادات سے بڑھ کر ملی مفادات کی فکر ہو۔
٭ ایک ایسی عبقری اور نہایت ہی پرکشش شخصیت اس قوم کے دامنِ تاریخ میں ہو جو نہ صرف اسوہ کاملہ کا درجہ رکھتی ہو بلکہ اس کے ساتھ تمام افرادِ ملت کے جذبات و احساسات وابستہ ہوں۔
٭ ہر دور میں کوئی ایسا قائد و رہبر اس ملت کے پاس ہو جس کی شخصیت و کردار کی ہمہ جہتی اسوہء کاملہ سے قریب تر ہو۔ یعنی یہ اپنے دور میں اس سرمدی شخصیت کی نمائندگی کا حق ادا کر سکے۔

ان نکات کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سورہ حجرات کی پہلی آیت میں جس حسِ پیروی اور جذبہء اطاعت کو ابھارا جا رہا ہے وہ دورِ نبوی تک ہی محدو د نہیں ہے بلکہ ہر دور پر محیط ہے۔ نہ صرف پیغمبرِ رحمت کے ادب و احترام کا یہاں تقاضا ہو رہا ہے بلکہ ہر دور میں آپ کی سیرت و کردار کے قالب میں ڈھلنے والا نمائندہ اور نمایاں فرد کی فرمانبرداری بھی اسی کا تسلسل اور ضمیہ قرار پائے گی۔ رسولِ اکرم کے اس نمائندے کو اسلامی اصطلاح میں امام، خلیفہ، امیر، ولی الامر یا ولی فقیہ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ نے فرمایا "جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی"۔ (بخاری، مسلم) ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا "کہ مسلمان پر (امیر کے حق میں) سمع و طاعت لازم ہے، چاہے اس سے مطلوب حکم بذاتِ خود پسند ہو یا نہ ہو۔ الا یہ کہ اسے معصیت کا حکم دیا جائے، ایسی صورت میں سمع و طاعت لازم نہیں ہو گی"۔ (مسلم ۔۔۔ کتاب الامارہ)

الغرض اس آیت ِکریمہ اور اس کے ذیل میں دی گئی احادیث اور دلائل سے یہ بات بطورِ کلی اخذ ہوتی ہے کہ بندہ و مومن میں اتباع اور فرمانبرداری کا مادہ کماحقہ ہونا چاہیئے۔ چاہے وہ کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھتا ہو۔ وہ کبھی بھی اپنے آپ کو مطلق خودمختار نہ سمجھے بلکہ حاکم و فرمانروا ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے کو آئین و اصول سے بالا تر نہ جانے۔ اگر اطاعت ِرسول کی اصل غرض و غایت اور وسیع تر معنٰی امت مسلمہ کے ذہن نشین ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں یہ فساد و انتشار کی تلخی سے چھٹکارا پا کر پھر سے نظم و ضبط کی شیرینی سے آشنا ہو جائے۔ رسولِ کریم کے تئیں والہانہ ادب و احترام اور ان کی بغیر چوں و چرا اطاعت کا راست اثر یہ ہوگا کہ ایک مومن مودب و محترم اور مطیع ہوگا اس کے ہاتھوں اصول شکنی کا شائبہ تک نہ ہو گا۔ یہ نہ صرف اپنے عظیم پیغمبر کے تابع فرمان ہوگا بلکہ اسلامی اصولوں پر کھرا اترنے والا ہر امیر و رہبر اسے تابعدار اور فرمانبردار پائے گا۔ بارگاہِ رسالت سے ادب و احترام کی بیش قیمتی جوہر حاصل کرنے والے شخص کے لئے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ وہ کسی بھی فرد بشر کے تئیں بے ادبی کا مرتکب ہو کیونکہ ادب و احترام کی یہ تعلیم ہمہ جہت اور وسیع ہے اور اس کا اطلاق بھی کسی خاص دائرے تک محدود نہیں ہے۔

قرآن کریم، رسولِ اکرم اور آئمہ ھدیٰ کے فرامین اور سیرت کے مطابق ہر مومن و مسلمان پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ، استاد، صاحبان علم و دانش، عمر رسیدہ افراد وغیرہ کا ادب و احترام کرے۔ اپنے تو اپنے غیر اقوام سے تعلق رکھنے والے معزز افراد کو بھی بے عزت نہیں کر سکتا ہے کیونکہ رسولِ اکرام نے فرمایا ہے کہ "اذ اتاکم کریم قوم فاکرموا" کے موجب جب تمہارے پاس کسی قوم کا معزز فرد آجائے تو اس کے ساتھ عزت سے پیش آو۔ یوں کہنا بھی مناسب ہوگا کہ بلاشبہ رسولِ رحمت تمام عالمین کے لئے باعثِ رحمت ہیں اور پوری انسانیت کے لئے خصوصی طور مینارِ ہدایت ہیں۔ آپ کے حقیقی پیروکاروں کا اخلاقی اور دینی فریضہ ہے کہ وہ اس رحمت کو دربار رسالت سے حاصل کر کے پوری دنیا میں اسے عام کر دیں۔ اگر رسولِ کائنات ادب و احترام کا مرکز و محور ہیں تو اس مرکز و محور سے وابستہ درخشاں ستارے ادب و احترام، تہذیب و شائستگی، حسن اخلاق اور بہتریں کردار و گفتار کے حامل ہوں تاکہ ان کی چمک دمک سے موجودہ دور کی تمام تر ظلمتوں کا وجود نابود ہو جائے۔
خبر کا کوڈ : 893822
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش