0
Sunday 25 Oct 2020 12:55

باب ہدایت امام حسن عسکری (ع)

باب ہدایت امام حسن عسکری (ع)
تحریر: سیدہ ایمن نقوی

حضرت امام حسن عسکری (ع) آٹھ ربیع الثانی 232 ہجری بروز جمعہ مدینہ میں پیدا ہوئے۔ آپ آسمان امامت و ولایت اور خاندان وحی و نبوت کے گیارہويں چشم و چراغ ہیں۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا مقابلہ بھی اپنے اجداد طاہرین کی طرح اس وقت کے ظالم و جابر و غاصب وعیار و مکار عباسی خلفاء سے تھا۔ آپ کی مثال اس دور میں ایسی ہی تھی جس طرح ظلم و استبداد کی سیاہ آندھیوں میں ایک روشن چراغ کی ہوتی ہے۔ آپ مہتدیوں اور معتمدوں کی دروغگوئی، فریب، سرکشی کے دور میں گم گشتہ افراد کی ہدایت کرتے رہے۔ آپ کی امامت کے دور میں عباسی خلفاء کے ظلم و استبداد کے محلوں کو گرانے کے بہت سے اہم اور تاریخی واقعات رونما ہوئے جو براہ راست امام (ع) کی ہدایات پر مبنی تھے۔ ان میں سے مصر میں احمد بن طولون کی حکومت کا قیام، بنی عباس کے ظلم و ستم کے خلاف حسن بن زید علوی کی درخشاں خونچکان تحریک اور آخر کار حسن بن زید کے ہاتھوں طبرستان کی فتح اور صاحب الزنج کا عظیم جشن اس دور کے اہم واقعات میں شامل ہے۔

اس کے علاوہ مخفیانہ طور سے جو ارتباط امام علیہ السلام سے برقرار کئے جاتے تھے اس کی وجہ سے حکومت نے اس باب ہدایت کو بند کرنے کے لئے چند پروگرام بنائے۔ پہلے تو امام کو عسکری چھاؤنی میں فوجیوں کی حراست میں دیدیا۔ دوسرے مہتدی عباسی نے اپنے استبدادی اور ظالمانہ نظام حکومت پر نظر ثانی کی اور گھٹن کے ماحول کو بہ نسبت آزاد فضا میں تبدیل کیا اور نام نہاد، مقدس مآب ، زرخرید ملّا عبدالعزیز اموی کی دیوان مظالم کے نام سے ریا کاری پر مبنی ایک ایسی عدالت تشکیل دی، جہاں ہفتے میں ایک دن عوام آ کر حکومت کے کارندوں کے ظلم و ستم کی شکایت کرتے تھے لیکن اس ظاہری اور نام نہاد عدالت کا درحقیقت مسلمانوں پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ روز بروز امام حسن عسکری علیہ السلام کی طرف مسلمانوں کا حلقہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا اور چاروں طرف سے حریت پسند مسلمانوں کی تحریک سے بنی عباس کی حکومت کی بنیادیں ہلنے لگیں اور عوام کی سیل آسا تحریک سے بنی عباس کی حکومت کے زوال کے خوف سے بنی عباس نے عوام میں اپنی مقبولیت پیدا کرنے کے لئے پروگرام بنایا کہ پہلے تو مال و دولت کو عوام کے درمیان تقسیم کیا جائے تا کہ لوگوں کی سرکشی کم ہو اور عوام کو خرید کر ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ جس امام حسن عسکری علیہ السلام کو شہید کرنے میں آسانی ہو۔
 
تاریخ گواہ ہے کہ تمام دنیا کے ظالم و جابر حکمرانوں کا یہ دستور رہا ہے کہ جب بھی ان کے استبداد کے خلاف کسی نے آواز اٹھائی تو انہوں نے اس بات کی کوشش کی کہ جلد سے جلد اس آواز کو خاموش کردیں، اگرچہ شاید ان کو یہ معلوم نہیں کہ آنے والی نسل میں ان کے لئے سوائے رسوائی و مذمت کے کچھ نہیں ہوگا اور ان کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی دنیا نہ صرف یہ کہ حمایت کرے گی بلکہ ان بزرگوں کو عظمت کی نگاہ سے دیکھے گی اور ان کی مظلومانہ زندگی کے نقش قدم پر چل کر فخر کرے گی۔ امام حسن عسکری (ع) نے بھی ہمیشہ اپنے اجداد کی طرح دین اسلام کی حفاظت اور پاسداری میں اپنی زندگی کے گرانقدر لمحات کو صرف کیا اور دین کی حمایت کرتے رہے، اگرچہ دین کی حمایت اور عوام کی خدمت عباسی حکمرانوں کے لئے کبھی بھی خوش آئند نہیں رہی لیکن خداوند متعال نے اپنی آخری حجت اور دین اسلام کے ناصر حضرت امام مہدی (ع)  کو امام حسن عسکری کے گھر میں بھیج کر واضح کردیا ہے کہ دین اسلام کے اصلی مالک و وارث اہل بیت رسول (‏ع) ہی ہیں۔

امام حسن عسکری (ع) واحد امام معصوم جو حج بیت اللہ بجا نہ لا سکے، امام حسن عسکری علیہ السلام نے سابقہ آئمہ علیہم السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات لوگوں تک پہنچائے، شیعیان اہل بیت (ع) کے فرائض بیان کئے، منتظرین کے فرائض واضح کئے اور اپنے آباء طاہرین کی مانند اسلامی دنیا کے مختلف شہروں میں اپنے وکلاء اور نمائندے متعین کئے، جیسا کہ ابن بابویہ قم میں امام حسن عسکری علیہ السلام کے وکیل تھے اور حتٰی کہ وہ وکالت نامہ آج بھی کتب حدیث میں موجود ہے جس میں امام (ع) نے ابن بابویہ کو اپنا وکیل مقرر فرمایا ہے اور یہ سب بھی امام زمانہ علیہ السلام کے لئے حالات مناسب بنانے کے الٰہی مشن کا تسلسل تھا۔ اس طرح امامت کا راستہ رکا نہیں بلکہ امام معصوم کے نائبین خاص اور پھر نائبین عام کے ذریعے امامت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے بہت دشوار حالات میں خفیہ زندگی بسر کی اور اس طرح جئے کہ گھٹن اور محاصرے میں بھی اپنے فرائض پر عمل کیا۔ چنانچہ امام حسن عسکری علیہ السلام واحد امام ہیں جو حج نہ بجا لا سکے کیونکہ گھٹن بہت شدید تھی اورآپ مسلسل قلعہ بند تھے۔

آپ نے زندگی کے ابتدائی 13 سال مدینہ منورہ میں گذارے۔ آپ نے امامت سے قبل 10 سال سامرا میں گزارے اور تقریبا چھ سال کے نزدیک آپ کی امامت کا عرصہ تھا، ان میں سے 3 سال آپ نے زندان میں گزارے۔ امام حسن عسکری (ع) نے اپنی امامت کے چھ سالوں میں تفسیر قرآن کریم، احکام اور فقہی مسائل سے اپنے چاہنے والوں کو آگاہ کیا۔ امام حسن عسکری (ع) کا زمانہ انتہائی مشکلات کا زمانہ تھا آپ کو اپنے والد گرامی امام ہادی (ع) کے دور کی مشکلات کا سامنا بھی رہا، اس کے علاوہ بھی آپ کو مشکلات کا سامنا رہا۔ امام حسن عسکری (ع) کے ایک بھائی کا نام جعفر تھا جس کو دشمن نے امام عسکری (ع) کے خلاف استعمال کیا۔ جعفر امام ہادی (ع) کے بڑے بھائی ہونے کے ناطے امامت کا دعویدار تھا اور امام عسکری (ع) کی شہادت تک اسی دعوے پر قائم تھا۔ بنی عباس بھی جو اصولا آل محمد (ص) اور ان کی امامت کے خونی دشمن تھے، اس کو اپنے دعوے پر قائم رہنے کی ترغیب دلاتے رہتے تھے۔ چنانچہ اس شخص کا عباسی بادشاہ کے دربار میں آنا جانا تھا اور بادشاہ اور اس کے درباریوں کے کان بھرنے اور امام (ع) کو اذیت پہنچانے میں مصروف رہتا تھا۔ 

امام علیہ السلام کی شہادت کے بعد عباسی بادشاہ "معتمد" نے آپ (ع) کا ترکہ آپ (ع) کی والدہ اور بھائی جعفر کے درمیان تقسیم کیا اور یوں لوگوں کو یہ جتانے کی کوشش کی کہ گویا آپ (ع) کی کوئی اولاد نہیں تھی اور آپ بے اولاد ہی دنیا سے رخصت ہوئے ہیں اور یوں وہ مسلمانوں کو بارہویں امام (ع) کے وجود سے مایوس کرنا چاہتا تھا لیکن اس کو شاید یہ معلوم نہ تھا کہ شیعیان آل محمد (ص) کا عقیدہ تھا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کا ایک بیٹے آپ (ع) کے بعد امام مسلمین ہے اور کئی نمایاں شیعہ علماء اور شخصیات نے ان سے ملاقات بھی کی ہے اور سب کو معلوم ہے کہ وہ اپنے والد کی شہادت کے بعد پردہ غیبت میں جانے والے ہیں۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے بھی اس سلسلے میں اپنے پیروکاروں کو پہلے ہی سے تیار کر رکھا تھا۔ امام حسن عسکری کی ایک اہم ترین سیاسی فعالیت یہ تھی کہ آپ تشیع کے عظیم اہداف کے حصول کی راہ میں آنے والی تکلیفوں اور سیاسی اقدامات کی سختیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے شیعہ بزرگوں کی سیاسی تربیت کرتے اور ان کے نظریات کو پختہ کرتے تھے۔

چونکہ بزرگ شیعہ شخصیات پر حکومت کا سخت دباؤ ہوتا تھا، اس لئے امام ہر ایک کو اس کی فکر کے لحاظ سے ہمت دلاتے، ان کی رہنمائی کرتے اور ان کا حوصلہ بلند کیا کرتے تھے تاکہ مشکلات کے مقابلے میں ان کی برداشت، صبر اور شعور میں اضافہ ہو اور وہ اپنی اجتماعی و سیاسی ذمہ داریوں اور دینی فرائض کو اچھی طرح انجام دے سکیں۔ اس حوالے سے جو خط امام نے علی بن حسین بن بابویہ قمی کو لکھا ہے، اس میں فرماتے ہیں، "ہمارے شیعہ ہمیشہ رنج و غم میں رہیں گے، یہاں تک کہ میرا بیٹا ظہور کرے گا، وہی کہ جس کے بارے میں اللہ کے رسول (ص) نے بشارت دی ہے کہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی"۔ آسمان امامت و ولایت کے گیارہویں تاجدارحضرت امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں، "إن الله تبارك و تعالى لم يخل الأرض منذ خلق آدم ع و لا يُخلّيها إلى أن تقوم الساعة من خجّة لله على خلقه، به يدفع البلاء عن أهل الأرض، و به ينزل الغيث، و به يخرج بركات الأرض"۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر اس وقت تک زمین کو حجت سے خالی نے چھوڑا ہے اور قیامت تک بھی یہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہے گی؛ اسی حجت کی وجہ سے ہی اہل زمین سے بلائیں اورمصیبتیں برطرف ہوتی ہیں اور اسی کی وجہ سے ہی بارش برستی ہے اور زمین اپنی برکات اوراپنے خزانوں کو اگلتی ہے۔ بنابریں اگریہ زمین اور کائنات حجت الٰہی سے خالی ہو جائے تو زمین اپنے اہل کے ساتھ تباہ و برباد ہو جائےگی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہی ہستیوں کی برکت سے زمین و آسمان اور کائنات کو خلق فرمایا ہے۔

ایک حدیث قدسی ہےکہ جو حدیث لوح کے نام سے معروف ہے۔ یہ حدیث بہت زیادہ قوی ہے اور کافی، کمال الدین، عیون اخبارالرضا میں بھی نقل ہوئی ہے۔ حدیث یہ ہے کہ حضرت ابا عبداللہ علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے دن اللہ تعالیٰ کی جانب سے رسول اللہ کو ایک لوح کا ہدیہ دیا جاتا ہے۔ اس لوح کا رنگ سبز تھا کہ جس پر سفید خط کے ساتھ کچھ عبارتیں لکھی ہوئی تھیں۔ آنحضرت نے اپنی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کو یہ لوح ہدیہ میں دی۔ اس حدیث کے راوی جابر بن عبداللہ انصاری ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں امام حسین علیہ السلام کی ولادت کی مناسبت سے حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی خدمت ہدیہ تبریک پیش کرنے کے لیے گیا تو دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں زمرد کی طرح ایک لوح تھی کہ جو سورج کی طرح چمک رہی تھی اور اس میں کچھ مطالب لکھے گئے تھے۔ میں نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے والد کے لیے تحفہ ہے اوراس میں میرے والد کے جانشینوں اور اوصیاء کے نام لکھے ہوئے ہیں۔  آپ جب حدیث قدسی میں لوح امام حسن عسکری علیہ السلام کے نام پرپہنچتی ہیں تو امام کے لیے دو خصوصیات ذکرکی گئی ہیں۔ پہلی یہ کہ امام عسکری علیہ السلام کو لفظ عبد کے ساتھ یاد کیا گیا ہے۔ آپ جب قرآنی آیات میں لفظ عبد پرنگاہ ڈٓالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک نمایاں صفت ہے۔ آیہ شریفہ فرماتی ہے، "سُبْحانَ الَّذي أَسْري بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ إِلَي الْمَسْجِدِ الْأَقْصَي الَّذي بارَکْنا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آياتِنا إِنَّهُ هُوَ السَّميعُ الْبَصير"۔
 
ممکن ہے کہ ہم لوگ لفظ عبد کی عظمت پرمتوجہ نہ ہوں لیکن اہل معرفت جانتے ہیں کہ عبد اور عبودیت کا مقام کتنا بلند مقام ہے۔ یہ جو قرآن کریم نے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ "انک لعلی خلق عظیم" اور جو انہیں رحمۃ اللعالمین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے تو اس کا سرچشمہ عبودیت اورب ندگی کا مقام ہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کی دوسری خصوصیت کہ جس طرف حدیث قدسی میں اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام علم الٰہی کے خزانچی ہیں۔ اس موضوع کی عظمت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ علم الٰہی کے خزانچی سے کیا مراد ہے؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آئمہ معصومین علیہم السلام کی نسبت ہماری معرفت بہت محدود ہے، بنابریں ہم ان عظیم ہستیوں کی صحیح معرفت نہیں رکھتے ہیں۔ امام حسن عسکری علیہ السلام خاتم الاوصیا حضرت امام مہدی علیہ السلام کے والد گرامی ہیں۔ درحقیقت امام حسن عسکری علیہ السلام آخری امام اور حجت کے امام ہیں اور ان پر ولایت رکھتے ہیں۔ اب اگر ہم امام حسن عسکری علیہ السلام کی عظمت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے امام مہدی علیہ السلام کی عظمت کو سمجھنا چاہیئے۔ توجہ کرنی چاہیئےکہ امام مہدی علیہ السلام کا ایک لقب بقیۃ اللہ ہے۔ قرآن کریم میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

قرآن کریم کی تین سو آیات میں امام مہدی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک آیہ شریفہ یہ ہے، "بقیۃ اللہ خیرلکم ان کنتم مومنین"۔ اس آیہ کے ذیل میں آئمہ اطہار علیہم السلام فرماتے ہیں کہ بقیۃ اللہ سے مراد حضرت امام مہدی علیہ السلام ہیں کہ جو بشریت کے لیے خیر ہیں۔ امام مہدی علیہ السلام کے مقام و منزلت کے بارے میں رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ اطہار علیہم السلام کی زبان مبارک سے بیان ہونے والی صفات انسان کو حیران و پریشان کر دیتی ہیں اور آپ توجہ کریں کہ امام حسن عسکری علیہ السلام اس الٰہی ذخیرہ کے امام ہیں، یعنی ایسا امام کہ جو امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف پرولایت رکھتا ہے۔ امام حسن عسکری (ع) کی مدت امامت دوسرے تمام آئمہ (ع) سے کم تھی اور ان کی امامت کا دورانیہ فقط چھ سال تھا۔ امام حسن عسکری (ع) نے اپنی امامت کے زمانے میں عباسی خاندان کے تین خلفاء معتذ، معتدی اور معتمد کے ادوار حکومت کو درک کیا اور آپ مدت امامت میں سامرہ میں ایک فوجی چھاونی میں وقت کے حکمرانوں کے زیرنظر رہے۔ امام حسن عسکری(ع) کی والدہ ماجدہ ایک نیک سیرت خاتون تھیں ان کا نام سلیل یا سوسن تھا، آئمہ کی روایت کے مطابق آپ بہت زیادہ عبادت گزار تھیں اور آپ کو عارفہ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔

امام حسن عسکری (ع) کی والدہ گرامی کی عظمت اس قدر زیادہ تھی کہ امام (ع) کے بعد لوگ اپنے دینی مسائل کے حل کیلئے ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ امام حسن عسکری (ع) نے لوگوں کو غیبت کے زمانے کا سامنا کرنے کیلئے آمادہ کیا۔ امام حسن عسکری (ع) نے فرمایا، "دو خصلتیں ایسی ہیں جن سے برتر کوئی چیز نہیں ہے ایک خداوند عالم پر ایمان اور دوسرا اپنے دینی اور انسانی بھائیوں کو فائدہ پہنچانا"۔ علماء اس حدیث کی تفسیر کچھ یوں فرماتے ہیں کہ اگر کوئی پرہیزگار شخص لوگوں کو مشکلات میں گھرا ہوا دیکھے تو وہ اپنے آپ کو مشکل میں ڈال کر دوسروں کی مشکلات کو حل کرتا ہے اور جب بھی لوگ مشکل میں گرفتار ہوتے ہیں تو وہ خود اس کے پاس آتا ہے اور یہ شخص ہمیشہ لوگوں کی مشکلات کو حل کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ اگرچہ وہ خود تکلیف میں رہتا ہے اور خود تکلیفیں اس لئے نہیں جھیلتا کہ وہ کوئی دنیاوی مقام حاصل کرے بلکہ خدا کی خوشنودی اور اپنی آخرت کیلئے یہ کام کرتا ہے۔ یہ شخص اپنی بقاء چاہتا ہے اور بقاء ہمیشہ آخرت میں ہے نہ کہ دنیا میں۔

امام کے دور کی پابندیوں کا سرچشمہ دو باتیں تھیں، ان سختیوں کی ایک وجہ معاشرے میں امام کی سر شناس اور معزز شخصیت تھی اور دوسرا سبب یہ تھا کہ اس دور میں عراق میں شیعہ ایک طاقت بن چکے تھے جو کسی عباسی حکمران کے اقتدار کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ کی جانب سے امامت، حضرت علی کے فرزندوں میں باقی ہے اور اس خاندان کی واحد ممتاز شخصیت امام حسن عسکری علیہ السلام ہیں۔ اسی لئے امام دوسروں سے زیادہ حکومت کی نظروں میں تھے۔ عباسی حکمران اور ان کے چاہنے والے جانتے تھے کہ مہدی موعود جو کہ تمام ظالم حکومتوں کا خاتمہ کر دیں گے، وہ نسلِ امام حسن عسکری سے ہی ہیں۔ اسی لئے وہ ہمیشہ اس تلاش میں رہتے تھے کہ آپ کے بیٹے کو قتل کر دیں۔ اگر امام حسن عسکری کی دن رات کی کوششیں نہ ہوتیں تو عباسیوں کی سیاست کی وجہ سے اسلام کا نام بھی ذہنوں سے مٹ جاتا۔ اگرچہ امام براہِ راست عباسی حکمرانوں کی نگرانی میں تھے، لیکن آپ نے ہر اسلامی سرزمین پر اپنے نمائندے مقرر کئے ہوئے تھے اور مسلمانوں کے حالات سے آگاہ رہتے تھے۔ بعض شہروں کی مسجدیں اور دینی عمارتیں آپ ہی کے حکم سے بنائی گئیں۔ جس میں قم میں موجود مسجد امام حسن عسکری بھی شامل ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے نمائندوں کے ذریعے سے اور علمِ امامت سے تمام محرومیوں سے آگاہ تھے اور لوگوں کی مشکلات کو دور کرتے رہتے تھے۔

آٹھ ربیع الاول 260 ہجری کی صبح وعدہ دیدار آن پہنچا، دکھ و مشقت کے سال اختتام پذیر ہوئے۔ قلعہ بندیاں، نظربندیاں اور قید و بند کے ایام ختم ہوئے۔ ناقدریاں، بےحرمتیاں اور جبر و تشدد کا سلسلہ اختتام پذیر ہوا۔ امام حسن عسکری علیہ السلام ایک طرف سے قربِ وصالِ معبود سے شادماں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت اور آپ (ص) کی دو امانتوں (قرآن و عترت) کے انجام سے فکرمند، غریب الوطنی میں دشمن کے زہر جفا کی وجہ سے بستر شہادت پر درد کی شدت سے کروٹیں بدل رہے ہیں لیکن معبود سے ہم کلام ہونے کو پھر بھی نہ بھولے اور نماز تہجد لیٹ کر ادا کی وہ بھی شب جمعہ کو جو رحمت رب العالمین کی شب ہے، وہی شب آپ (ع) کی وصال الٰہی کی شب ہے۔ آپ (ع) نے نماز فجر بھی اپنے بستر پر لیٹ کر ہی ادا فرمائی وہ بھی اٹھائیس سال کی عمر اور عین جوانی کے عالم میں، آپ (ع) کی آنکھیں قبلہ کی طرف لگی ہوئی تھیں جبکہ زہر کی شدت سے آپ (ع) کے جسم مبارک پر ہلکا سا رعشہ بھی طاری تھا۔ آپ (ع) بمشکل "مہدی" کا نام دہراتے رہے اور پھر مہدی آ ہی گئے اور چند لمحے بعد آپ (ع) اور آپ (ع) کے فرزند مہدی کے سوا کوئی بھی کمرے میں نہ تھا اور راز و نیاز اور امانتوں اور وصیتوں کے لمحات تیزی سے گذر رہے تھے۔

ابھی آفتاب طلوع نہيں ہوا تھا کہ گیارہویں امام معصوم کی عمر مبارک کا آفتاب غروب ہوا اور آسمان و زمین پر سوگ و عزا کی کیفیت طاری ہوئی۔ "اَلسَّلامُ عَلَيكَ يا مَولايَ يا اَبامُحَمَّدِ الحَسَنِ بنِ عَليٍّ الهادي الْمَهْدي وَ رَحْمَةُ اللّهِ وَ بَرَکاتُهُ. اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا وَليَّ اللّهِ وَابنَ اَولِيائِه. اَلسَّلامُ عَليكَ يا حُجَّة اللّهِ وَ ابنَ حُجَّتِهِ. اَشْهَدُ يا مَولايَ اِنَّكَ اَقَمْتَ الصَّلوةَ وَ آتَيْتَ الزَّکوةَ وَ اَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَيْتَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ دَعَوْتَ اِلی سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِکْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ عَبَدتَ اللّهَ مُخْلِصا حَتّي آتیک اليَقينُ"۔ سلام ہو آپ پر اے میرے مولا اے ابا محمد حسن بن علی الہادی المہدی اور اللہ کی رحمت اور برکتیں۔ سلام ہو آپ پر اے اللہ کے ولی اور اللہ کے اولیاء کے فرزند۔ سلام ہو آپ پر اے حجت خدا اور اے حجت خدا کے فرزند۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز بپا رکھی اور زکوٰة ادا کی اور نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا اور اپنے پروردگار کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دی اور اخلاص کے ساتھ تا دم شہادت اللہ کی عبادت اور بندگی کی۔ امام مہدی علیہ السلام کی عمر ابھی صرف پانچ سال کی ہوئی تھی کہ خلیفہ معتمد بن متوکل عباسی نے مدتوں قید رکھنے کے بعد امام حسن عسکریؑ کو زہر دے دیا۔ جس کی وجہ سے آپ بتاریخ ۸ ربیع الاول ۲۶۰ ہجری مطابق ۸۷۳ ء بعمر ۲۸ سال رحلت فرما گئے، "و خلف من الولد ابنہ محمد" اور آپ نے اولاد میں صرف امام محمد مہدی کو چھوڑا۔ (نورالابصار، ص ۱۵۲،دمعة الساکبة، ص ۱۹۱)۔

علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ جب آپ کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی، تو سارے شہر سامرہ میں ہلچل مچ گئی، فریاد و فغاں کی آوازیں بلند ہو گئیں، سارے شہر میں ہڑتال کردی گئی ۔ یعنی ساری دکانیں بند ہو گئیں ۔ لوگوں نے اپنے کاوربار چھوڑ دیئے۔ تمام بنی ہاشم، حکام دولت، منشی، قاضی، ارکان عدالت، اعیان حکومت اور عامہ خلائق حضرت کے جنازے کے لئے دوڑ پڑے۔ حالت یہ تھی کہ شہر سامرہ قیامت کا منظر پیش کر رہا تھا۔ نماز سے فراغت کے بعد آپ کو اسی مکان میں دفن کر دیا گیا جس میں حضرت امام علی نقی علیہ السلام مدفون تھے۔ (نورالابصار،ص ۱۵۲)۔ امام حسن عسکری کی وفات کے بعد نمازجنازہ حضرت امام مہدی علیہ السلام نے پڑھائی۔ (دمعہ ساکبہ، جلد ۳، ص ۱۹۲ و جلاٴالعیون، ص ۲۹۷)۔ علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ نماز کے بعد آپ کو بہت سے لوگوں نے دیکھا اور آپ کے ہاتھوں کا بوسہ لیا۔ (اعلام الوری،ص ۲۴۲) علامہ ابن طاؤس کا بیان ہے کہ ۸ ربیع الاول کو امام حسن عسکری کی وفات واقع ہوئی اور ۹ ربیع الاول سے حضرت حجت کی امامت کا آغاز ہوا ہم ۹ ربیع الاول کو جو خوشی مناتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ (کتاب اقبال) علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ ۹ ربیع الاول کو عمر بن سعد بدست مختار قتل ہوا ہے۔ (زادالمعاد ص ۵۸۵)۔ جو عبداللہ بن زیاد کا سپہ سالار تھا جس کے قتل کے بعد آل محمد نے پورے طور پرخوشی منائی۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے سامراء جیسے شہر میں رہ کر جو کہ ایک قید کی مانند تھا، شیعیت کی ترویج کے لئے بہت ہی عظیم کام انجام دیا تھا، امام نے ایک عظیم نیٹ ورک بنایا تھا، جس کے ذریعے دینیات کے ساتھ ساتھ علوم اسلامی کی کھل کر تبلیغ ہو رہی تھی، یہ صرف اس بات تک ہی محدود نہيں تھا کہ آپ روزہ، نماز، طہارت اور نجاسات پر پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے تھے بلکہ عہدہ امامت کو اسی معنی میں جس معنی میں امامت کو ہونا چاہیئے، قائم رکھا تھا۔ آپ امت سے پوری طرح وابستہ رہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کی سیاسی روش میں سب سے اہم مسئلہ نظام مرجعیت کو عوام کے درمیان پہنچانا تھا اور دور غیبت کبرٰی میں فقیہ کی حکومت کو عملی جامہ پہنانا تھا۔
خبر کا کوڈ : 893939
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش