1
0
Monday 26 Oct 2020 10:04

بھائی، کھیل صرف مفادات کا ہے

بھائی، کھیل صرف مفادات کا ہے
تحریر: تصور حسین شہزاد

کوئٹہ میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد "پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ" کے زیراہتمام ہونیوالے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جمیعت علمائے پاکستان کے مرکزی رہنماء شاہ اویس نورانی نے کہا کہ پی ڈی ایم کا آغاز کرنے کی وجہ یہ ہے کہ چور، ڈاکو، لٹیرے اور غاصبوں سے عوام کو نجات دلائی جائے، ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان ایک آزاد ریاست ہو۔ کچھ مبصرین کہہ رہے ہیں کہ شاہ اویس نورانی نے جذبات میں آکر یہ بات کہہ دی، کچھ کہہ رہے ہیں کہ یہی تو بھارتی ایجنڈا ہے، جس پر اپوزیشن جماعتیں عمل پیرا ہیں۔ پاکستان میں ایک کلچر پروان چڑھتا جا رہا ہے کہ جو جماعت اقتدار میں ہو، وہی محب وطن ہوتی ہے اور اس کے علاوہ سارے غدار سمجھے جاتے ہیں۔ یہ کلچر بہرحال تشویشناک ہے، سیاسی قائدین کو اس طرف نہیں جانا چاہیئے، کیونکہ اس کے اثرات عوام میں بہت زیادہ منفی پڑتے ہیں۔ مخالف جماعتوں کے سیاستدان تو اپنی محافل میں مل بیٹھتے ہیں، گپ شپ بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں بھی شریک ہوتے ہیں، لیکن عوامی سطح پر دشمنیاں فروغ پاتی ہیں۔ بھائی بھائی کا دشمن ہو جاتا ہے، لوگ سیاسی گفتگو کرتے کرتے اپنے اپنے لیڈر کو "معصوم" اور دوسرے کے لیڈر کو "عاصی" ثابت کرنے میں جت جاتے ہیں، جس کا نتیجہ لڑائی جھگڑے اور مار کٹائی کی صورت میں نکلتا ہے۔

ماضی میں واضح طور پر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کس طرح ایک دوسرے کیخلاف بولتے تھے، پھر نواز شریف اور زرداری کا دور آیا، دونوں نے ایک دوسرے کو غدار تک کہا، بھاٹی چوک میں گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالنے کی بھی باتیں ہوئیں، مگر وہی زرداری جس کیلئے شہباز شریف نے پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالنے کا ماٹو دیا تھا، جاتی امراء نواز شریف کی رہائش گاہ پر پہنچا اور وہی نواز و شہباز اس کا استقبال کر رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی، آج کا دوست کل کا دشمن اور آج کا دشمن کل کا دوست ہوسکتا ہے۔ اس لئے عوام کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ اپنے لیڈروں کی طرح سیاست کو سیاست کے طور پر ہی لیں، انا اور عناد کا مسئلہ نہ بنائیں۔ عوامی حلقوں میں یہ بڑی عجیب بات ہے کہ جو لیڈر ہمارا نام تک نہیں جانتے، جن کے گھر میں جا کر ہم چائے نہیں پی سکتے، اس لیڈر کیلئے ہم اپنے اُس دوست سے قطع تعلق کر لیتے ہیں، جو ہمیں کھانا بھی کھلاتا ہے، چائے بھی پلاتا ہے اور ہمارے دکھ سکھ میں بھی شریک ہوتا ہے۔ اس حوالے سے عوام کو باشعور ہونے کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

اب واپس آتے ہیں شاہ اویس نورانی کے بیان کی طرف، شاہ اویس نورانی کے خطاب کے بعد ان کا یہ جملہ کہ "ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان ایک آزاد ریاست ہو" سوشل میڈیا پر بہت زیادہ گردش کر رہا ہے اور اس پر شاہ اویس نورانی کو کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا چونکہ بے مہار اونٹ ہے، اس کی کوئی سمت نہیں ہوتی، سوشل میڈیا یوزر اپنی بھڑاس دل کھول کر نکالتے ہیں۔ اس میں جہاں مہذب انداز میں تنقید ہوتی ہے، وہیں گالیوں سے بھی نوازا جاتا ہے۔ بہرحال، انسان کا رویہ ہی اس کی تربیت کا عکاس ہوتا ہے، اس معاملے پر بھی کچھ غیر تربیت یافتہ لوگ ننگی گالیوں سے بھی اجتناب نہیں کر رہے۔ اس کی آڑ میں علماء کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جنہیں بکاو مال تک کہہ دیا گیا ہے۔ کچھ صارفین کہہ رہے ہیں کہ یہ بھارت کا ایجنڈا ہے، جو کھل کر سامنے آگیا ہے۔ تاہم اب اویس نورانی نے اپنی جماعت کے قائدین کی جانب سے اظہارِ ناراضگی کے بعد ٹویٹر پر اس کی "صفائی" پیش کر دی ہے۔ ٹوئٹر پر اپنے وضاحتی بیان میں شاہ اویس نورانی نے لکھا ہے کہ میرے بلوچستان کے غاصبوں بارے ایک طنزیہ اور سوالیہ جملے کو سیاق و سباق سے ہٹ کر میرے مطالبے کے طور پر سوشل میڈیا پر پھیلایا جا رہا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ بلوچستان پاکستان کا لازمی جزو ہے اور کسی کا باپ بھی اسے پاکستان سے الگ نہیں کرسکتا۔ شاہ اویس نورانی کے اس ٹویٹ کو بھی صارفین تسلیم نہیں کر رہے ہیں، ایسے صارفین کا کہنا ہے کہ اب اپنی جماعت کے بڑوں کی لعن طعن کے بعد وضاحت دی جا رہی ہے جبکہ ان کا جملہ ریکارڈ پر ہے، جس میں کسی سیاق و سباق کا تو معاملہ ہے ہی نہیں، واضح طور پر شاہ اویس نورانی نے اپنے بیرونی آقاوں کو خوش کیا ہے اور انہی کی ہدایت پر یہ جملہ اپنی تقریر میں ادا کیا۔ اسی طرح کا انداز پہلے آصف اشرف جلالی بھی اپنا چکے ہیں۔ سیدہ زہراء سلام اللہ علیہا کی شان میں گستاخی کی، انہیں نعوذباللہ خطاکار کہا اور بعد میں مُکر گئے کہ انہوں نے ایسا نہیں کہا، وہ تو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو سیدہ، طاہرہ مانتے ہیں۔ لیکن ان کی تقریر ریکارڈ پر آچکی تھی، جس سے مُکرنا ممکن نہیں تھا، لیکن تب تک تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ پنجابی زبان کا ایک شعر ہے کہ
جو بول زبانوں نکل گیا
اوہ تیر کمانوں نکل گیا

یعنی جو بات زبان سے نکل گئی، وہ ایسے ہی ہے جیسے تیر کمان سے نکل گیا ہو، اور کمان سے نکلا ہوا تیر واپس نہیں آتا، تو شاہ اویس نورانی صاحب، آپ جتنی مرضی وضاحتیں دیں، آپ کے جملے نے بے نقاب کر دیا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کو غدار قرار دینے کا رجحان پاکستان میں پُرانا ہے، لیکن موجودہ اپوزیشن کی تحریک کا ایک دم منظم ہو جانا، ایک بیمار ترین لیڈر کا فوری طور پر صحت یاب ہو جانا، ایک دوسرے کی شدید ترین دشمن جماعتوں کا ایک پیج پر آجانا، جلسوں میں ناچ گانے پر کڑی تنقید کرنیوالے مولانا کا اِنہیں جلسوں میں شامل ہونا اور ناچ گانے پر "ملک کے وسیع تر مفاد میں" خاموشی اختیار کرنا ثابت کرتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ اپوزیشن کو اس بار بیرونی قوتیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہی ہے۔ لگتا ہے میاں نواز شریف کو لندن میں "ہدایات" اور "تقریریں" کوئی اور فراہم کر رہا ہے۔ یہاں مفتیوں اور مولویوں کے اکاونٹس میں آنیوالی رقوم، شہباز شریف کا نواز شریف کے بیانیئے سے الگ ہو کر خود ہی گرفتاری دے دینا ثابت کرتا ہے کہ
سرِآئینہ میرا عکس ہے
پسِ آئینہ کوئی اور ہے

اب یہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان آزمائے ہوئے لیڈروں کے نئے جال میں پھنسنے کی بجائے بیدار مغزی کا ثبوت دیتے ہوئے اس سازش کا ادراک کریں کہ کہیں اپوزیشن کی یہ تحریک سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی سازش تو نہیں،؟ کہیں یہ اسرائیل کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالنے کیلئے دباو تو نہیں، کیونکہ ہمارے کچھ دوست نما دشمن ہمیں واضح دھمکیاں دے چکے ہیں اور ایف اے ٹی ایف میں اپنے کردار سے بھی ثابت کرچکے ہیں کہ وہ ہمارے دوست نہیں بلکہ انہیں صرف اپنا مفاد عزیز ہے، خواہ وہ انڈیا سے وابستہ ہو یا اسرائیل سے۔
خبر کا کوڈ : 894034
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

شهزاد صاحب سوشل میڈیا کے خلاف بات کی اور پهر خود بهی بغیر دلیل و منطق لکھ دیا!!!!
ہماری پیشکش