0
Monday 26 Oct 2020 13:58

تین جلسے تین سکینڈلز، اپوزیشن کا حاصل

تین جلسے تین سکینڈلز، اپوزیشن کا حاصل
تحریر: ارشاد حسین ناصر

اپوزیشن کے گیارہ جماعتی اتحاد نے اے پی سی کے بعد جلسوں کا شیڈول جاری کیا اور اپنی طاقت کے پہلے اظہار کیلئے پنجاب کے شہر گوجرانوالہ کا انتخاب کیا گیا۔ گوجرانوالہ اس وقت تک مسلم لیگ نون کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، اس لئے کہ یہاں سے نون لیگ نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ گوجرانوالہ لاہور کے بھی نزدیک ہے جہاں مولانا فضل الرحمان کے مکتب سے تعلق رکھنے والوں کے بہت بڑے مدرسے ہیں، خود گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں بھی اس مکتب کے بڑے بڑے مدارس ہیں۔ لاہور نون لیگ کا بھی گڑھ سمجھا جاتا ہے کہ اس کی مرکزی قیادت لاہور سے ہی تعلق رکھتی ہے اور لاہور میں اس نے بڑے بڑے کام اور پراجیکٹ بھی کئے ہیں۔ اس اتحاد میں شامل ایک اور مذہبی جماعت جمعیت اہلحدیث کے سینیٹر پروفیسر ساجد میر ہیں، ان کا بنیادی تعلق بھی سیالکوٹ سے ہی ہے اور ان کا مرکز لاہور میں راوی روڈ پر ہے۔ ادھر پنجاب پیپلز پارٹی کے صدر قمر زمان کائرہ کا تعلق بھی اسی ریجن سے ہے، لالہ موسیٰ ان کا آبائی حلقہ ہے، جہاں سے بلاول بھٹو زرداری قافلہ لیکر چلے تھے۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ کسی نہ کسی نسبت سے گوجرانوالہ کا جلسہ کامیابی سے ہمکنار ہونے کے چانسز بہت زیادہ تھے، یعنی پبلک کو نکالنا مشکل نہیں تھا۔ جس کا واضح ثبوت موجود ہے کہ عوام بہت بڑی تعداد میں نکلی، اگرچہ جلسہ میں مرکزی قائدین اپنے قافلوں کے ساتھ وقت پہ نہ پہنچ سکے اور ان کی عدم موجودگی سے جلسہ کی ٹائمنگ زیادہ ہوگئی، بالخصوص مولانا فضل الرحمن جو پی ڈی ایم کے سربراہ بنائے گئے ہیں، وہ بہت زیادہ تاخیر سے پہنچے، لہذا جب وہ تقریر کیلئے آئے تو کافی پبلک جا چکی تھی اور ویسے بھی میاں نواز شریف اپنا مشہور زمانہ خطاب فرما چکے تھے، جن پر اس کیساتھ ہی تبصرے بھی شروع ہوگئے تھے۔ میاں صاحب نے موجودہ آرمی چیف اور سی پیک کے چیئرمین جنرل عاصم سلیم باجوہ کو نام لیکر رگڑا دیا، جو باقی تمام تقاریر اور بیانیوں پر حاوی ہوگیا۔ میاں نواز شریف کا یہ بیانیہ گویا پی ڈی ایم کا بیانیہ ٹھہرا، جس پر بعد میں مسلسل تبصرے جاری رہے اور یوں جلسے کے وہ مقاصد جو حاصل ہونا تھے، وہ اس بیانیہ کی تشریح اور تبصروں کی نظر ہوگئے۔ میڈیا نے بھی اس پر خوب مزے لے لے کر پروگرام کئے، یوں اگلے جلسے تک میاں نواز شریف کی یہی تقریر اور بیانیہ زیر بحث رہا۔

اٹھارہ اکتوبر وہ دن ہے، جب بے نظر بھٹو جلا وطنی ختم کرکے پاکستان تشریف لائیں تھیں، کراچی میں ان کا فقید المثال استقبال رکھا گیا تھا، اس وقت کے حاکم جنرل پرویز مشرف نے انہیں پاکستان آنے سے منع کیا تھا اور بعض خبروں کے مطابق دھمکی بھی دی تھی، مگر بے نظر بھٹو نے ٹھان لی تھی اور وہ پاکستان تشریف لائیں، ان کا فقید المثال استقبال ہوا اور ریلی کے راستے میں کار ساز کے مقام پر ان پر یکے بعد دیگرے دو بڑے خودکش حملے ہوئے، وہ خود تو بلٹ پروف ٹرک کی وجہ سے محفوظ رہیں مگر دو سو سے زائد کارکنان اور ان کی سکیورٹی پر مامور لوگ مارے گئے، سینکڑوں زخمی ہوئے۔ یہ دن پاکستان کی سیاسی و جمہور تاریخ کیلئے بالعموم اور پاکستان پیپز پارٹی کیلئے بالخصوص اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن کی  مناسبت سے پی ڈی ایم کا اگلا جلسہ کراچی میں ہونا طے پایا تھا، کراچی قائد اعظم کے مزار سے ملحق جناح گرائونڈ میں ہونے والے جلسے میں بھی عوام کا جم غفیر امڈ آیا، سندھ ابھی تک پیپلز پارٹی کا ہے، تمام تر ہتھکنڈوں اور کوششوں کے باوجود پیپلز پارٹی سے سندھ نہیں ہتھیا سکے ،سندھ میں ان کی حکومت ہے۔

یہ گرائونڈ تو اکیلی پیپلز پارٹی بھی بھر سکتی تھی جبکہ یہاں گیارہ جماعتی اتحاد ہے، جن کا اپنا اپنا ووٹ بنک اور عوامی پذیرائی ہے۔ یہ جلسہ بھی عوامی شرکت کے لحاظ سے بھرپور رہا اور اس میں تمام قائدین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ نون لیگ کی نمائندگی مریم نواز شریف نے کی اور انہی کی باتوں کو آگے بڑھایا۔ جلسہ چونکہ پیپلز پارٹی کی میزبانی میں ہوا، اس لئے یہ پیپلز پارٹی کی طاقت کے اظہار کا ایک شو بھی کہا جا سکتا ہے۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا، اس میں میاں نواز شریف کی تقریر نہیں کروائی گئی، وگرنہ لوگ تو اس انتظار میں تھے کہ دیکھیں اب میاں نواز شریف اس سے آگے کہاں جاتے ہیں۔ بہرحال اس دوران ایک عجیب واقعہ ہوگیا، مریم نواز شریف کی مزار قائد پر حاضری اور فاتحہ خوانی کے دوران ان کے شوہر نامدار جناب کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اعوان نے قبر کا جنگلہ پھلانگ کر اندر کھڑے ہو کر بڑے ہی زور و شور سے ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگوائے، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور ہر طرف سے ان کی مزار کے اندر داخل ہونے اور نعرے لگوانے کی مذمت ہونے لگی، لوگوں کو جلسہ بھول گیا۔ ادھر پی ٹی آئی نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور برگیڈ تھانے میں مزار کی بے حرمتی کے خلاف ان پر پرچہ کاٹنے کیلئے درخواست دی۔

بھرپور پریشر کے بعد یہ ایف آئی آر کاٹ لی گئی۔ اگرچہ یہاں صوبائی حکومت پیپلز پارٹی کی ہے، مگر کراچی میں چونکہ رینجر بھی ایک اہم کردار رکھتی ہے، اس لئے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور بیچاری پولیس کی کیا مجال کہ ایک طاقتور ادارے کے سامنے ٹھہر سکے۔ ایف آئی آر کٹنے کے بعد کیپٹن صفدر کو رات گئے ان کے کمرے سے گرفتار کیا گیا، جو کافی دھماکہ خیز تھا۔ مریم صاحبہ نے الزام لگایا کہ ان کے کمرے کا دروازہ توڑ کر چادر و چار دیواری کا تقدس پائمال کیا گیا۔ اس پر سندھ حکومت اور فوجی اداروں کی جانب سے علیحدہ علیحدہ موقف سامنے آئے، ایسا لگا کہ یہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو لڑانے کی کوشش کی گئی ہے۔ بہرحال معاملہ کافی سنگین ہوگیا، حتیٰ سندھ حکومت ختم کرنے کی بات بھی سامنے آئی، مگر پاکستان پیپلز پارٹی بھی یہاں ڈٹ گئی اور اور اس عمل سے بیزاری کا علان کیا، جبکہ کیپٹن صفدر کو عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں ان کی ضمانت منظور ہو گئی اور یوں یہ معاملہ اگلے جلسے تک میڈیا کی زینت بنا رہا۔ اس پہ تبصرے جاری رہے، اس دوران ایک ڈیویلپمنٹ یہ بھی ہوئی کہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے بلاول بھٹو زرداری کو فون بھی کیا، اس سے یہ تاثر سامنے آیا کہ وفاقی حکومت کی اتھارٹی بس اتنی سی ہی ہے کہ اس سے بالا بالا معاملات طے پا جاتے ہیں۔

اگلا جلسہ بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ میں جے یو آئی کی میزبانی میں 25 اکتوبر کو ہونا طے پایا تھا، بلوچستان میں جے یو آئی ایف کا اچھا ووٹ بنک اور تنظیمی نیٹ ورک ہے، جبکہ دیگر بلوچ و پختون قوم پرست جماعتوں کی بھی اپنی اپنی ساکھ اور اہمیت ہے، جو اپنا اپنا خاص ووٹ بنک رکھتے ہیں۔ یہاں جلسہ ایوب سٹیڈیم میں ہونا طے پایا تھا، اس دوران سکیورٹی اداروں کی جانب سے ایک تھریٹ الرٹ بھی جاری کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ان دنوں میں کوئٹہ دہشت گردی کا شکار ہوسکتا ہے، اس کے باوجود قائدین پی ڈی ایم نے یہ جلسہ کرنے اور سکیورٹی حکومت کی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے کیا۔ کراچی جلسے کے بعد بلاول بھٹو گلگت بلتستان الیکشن کے باعث اس میں شریک نہیں ہوئے، ان کی نمائندگی راجہ پرویز اشرف نے کی۔ یہاں بھی تمام قائدین خوب گرجے اور برسے۔ ان کا نشانہ عمران خان کی حکومت اور وہ عناصر جو ووٹ چوری کرتے ہیں وہی رہے۔ البتہ مولانا فضل الرحمن نے واضح کیا کہ افواج ان کیلئے مقدس ہیں اور وہ انہیں اپنی آنکھوں کی پلکوں کی مانند سمجھتے ہیں، جو لوگ مسئلہ پیدا کرتے ہیں، ان سے ہمارے لڑائی ہے، البتہ اگر افواج یہ تسلیم کر لیں کہ ان سے غلطی ہوئی اور انہوں نے غلط کام کیا تو ہم اس حکومت کو مان لینگے۔

میاں نواز شریف نے بھی یہاں اپنا موقف بیان کیا، مگر وہ زبان استعمال نہیں کی، جو گوجرانوالہ جلسہ میں استعمال کی گئی۔ اس جلسے میں جو سب سے برا ہوا، وہ مولانا اویس احمد نورانی کی گفتگو ہے، جن سے یہ سننے کو ملا کہ "ہم بلوچستان کو ایک آزاد ریاست دیکھنا چاہتے ہیں" یہ زبان کی پھسلاہٹ تھی یا ایسی سوچ و ایجنڈا رکھتے ہیں؟ اس بارے میں اب تبصرے جاری ہیں۔ اتنے بڑے پاور شو کے بعد پی ڈی ایم کو وضاحتیں دینا پڑ رہی ہیں اور میرا خیال ہے کہ اگلے جلسے تک یہ دیتے بھی رہینگے اور طعنے بھی سنتے رہینگے، اگرچہ اس کی وضاحت بھی کر دی گئی ہے۔ تین جلسے اور تین سیکینڈلز پاور شو کی اس گیم پر حاوی ہوچکے ہیں۔ ہاں ایک بات بڑی اہم ہے کہ باقی جماعتوں کی نسبت پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اپنی تینوں تقاریر میں کچھ پوائنٹ تسلسل سے دہرائے ہیں اور وہ یہ ہیں:

٭ سعودیہ نے پاکستان پر بہت زیادہ احسانات کئے ہیں، جسے موجودہ حکومت نے ناراض کیا ہے۔
٭ ایران انڈیا کے کیمپ میں جا چکا ہے۔
٭ حکومت نے سی پیک کو بھی لپیٹ دیا ہے۔
٭ گلگت بلتستان کشمیر کیساتھ ملحق ہے، اس خطے کو صوبائی حیثیت دینا پاکستان کے کشمیر پر ستر سالہ موقف کی نفی ہے۔ ٠یاد رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی یہاں ہونے والے الیکشن میں بھرپور طرح سے حصہ لے رہی ہے اور اس کے چیئرمین اس وقت بھی بلتستان میں ہی ہیں اور ماضی میں نام نہاد صوبائی سیٹ اپ بھی پاکستان پیپلز پارٹی کا کام تھا) اب یہ سب عوام کے سامنے ہے کہ دس بارہ سال تک مسلسل کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رہنے والی شخصیت اہل گلگت بلتستان کے بارے کیا رائے رکھتے ہیں۔ موصوف کی جماعت بھی ان الیکشنز میں حصہ لے رہی ہے، ماضی میں بھی اور اب بھی ان کے امیدوار میدان میں ہیں، مذہبی شناخت سے ہٹ کر اگر علاقے کے رسومات، ثقافت اور زبان و بیان کو دیکھتے ہوئے بھی فیصلہ کیا جائے تو اہل گلگت بلتستان چاہے انکا مذہب جو بھی ہو، وہ اس حق میں ہیں کہ ان کو پاکستان کا شہری سمجھا جائے اور انہیں بنیادی جمہوری و آئینی حقوق دیئے جائیں۔
خبر کا کوڈ : 894086
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش