0
Tuesday 27 Oct 2020 11:56

عراق میں مظاہروں کی برسی

عراق میں مظاہروں کی برسی
اداریہ
عراق میں گذشتہ سال 25 اکتوبر کو حکومت مخالف مظاہرے ہوئے تھے۔ جس کے نتیجے میں وزیراعظم عادل عبدالمہدی کی حکومت ختم ہوگئی تھی۔ ان مظاہروں کی یاد منانے کے لیے امسال بھی 25 اکتوبر کو عراق میں مظاہرے ہوئے، لیکن مظاہروں میں شریک افراد کے جوش و جذبے سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ مظاہروں کی کامیابی کا جشن نہیں بلکہ ناکامی کی برسی منا رہے ہوں۔ سب سے پہلی بات تو یہ تھی کہ 25۵ اکتوبر 2019ء کے مقابلے میں مظاہرین کی تعداد قابل موازنہ بھی نہ تھی۔ دوسری طرف جوانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ گذشتہ برس کے مظاہروں میں سات ہزار کے قریب افراد ہلاک یا زخمی ہوئے تھے۔ لیکن اس دفعہ کے مظاہرے میں سکیورٹی فورس کے کسی فرد کے زخمی یا ہلاک ہونے کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔ البتہ بغداد پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ مظاہرے میں موجود ایک مشکوک شخص سے اکسٹھ دستی بم برآمد ہوئے ہیں۔

2019ء کے مظاہروں کے مقابلے میں ایک اور بات جو قابل ذکر ہے، وہ غیر ملکی افراد کی مظاہروں سے لاتعلقی اور عدم شرکت تھی۔ گذشتہ سال غیر ملکی عراقی شہریوں کو اشتعال دلا رہے تھے، لیکن اس سال کے مظاہروں میں کسی بھی غیر ملکی بالخصوص امریکی اور برطانوی شہری کو متحرک نہیں دیکھا گیا۔ عراق کے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال کے مظاہروں کا واحد ہدف اور مقصد عادل عبدالمہدی کی حکومت کا خاتمہ تھا، وگرنہ عراق میں نہ بے روزگاری میں کمی آئی ہے، نہ معیشت سنبھلی ہے، نہ عراقی حکومت میں کرپشن کا خاتمہ ہوا۔ گذشتہ سال کے مظاہروں میں مظاہرین جو مطالبات کر رہے تھے، ان میں سے ایک بھی پورا نہیں ہوا، سوائے عادل المہدی کی حکومت کے خاتمے کے۔ شاید تجزیہ نگار یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اکتوبر 2019ء کے مظاہروں کا مقصد مصطفیٰ کاظمی جیسے شخص کو اقتدار میں لانا تھا اور اس میں مظاہرین اور ان کے پیچھے موجود افراد کو کامیابی حاصل ہوئی۔
خبر کا کوڈ : 894374
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش