QR CodeQR Code

میکرون کا اسلام مخالف موقف، ایک لمحہ فکریہ

29 Oct 2020 15:13

اسلام ٹائمز: اسلام مخالف بیانات سے ایمانیوئیل میکرون کا دوسرا مقصد مسلمان شہریوں کو اشتعال دلا کر انہیں شدت پسندی پر اکسانا ہے تاکہ ان شدت پسندانہ اقدامات کو بنیاد بنا کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلانے کیلئے مناسب مواد حاصل ہو سکے۔ فرانسیسی صدر کا تیسرا مقصد فرانس میں مسلمان شہریوں اور اسلامی تنظیموں کی فعالیت اور سرگرمیوں کو محدود کرنا ہے۔ اس کی ایک مثال حکومت کی جانب سے کئی مساجد بند کرنے کا اقدام ہے۔ میکرون کا چوتھا مقصد عوام کو فلسطینی جہادی گروہوں سے بدبین کر کے ان کے دلوں میں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کیلئے نرم گوشہ ایجاد کرنا ہے۔ اسی مقصد کیلئے فرانسیسی میڈیا نے اسکول ٹیچر کو قتل کرنے والے چچنیا نژاد مسلمان شہری کو حماس کا رکن ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔


تحریر: رضا محمد مراد
 
چند ہفتے قبل متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے اعلان کے ساتھ ہی ایک فرانسیسی میگزین چارلی ایبدو نے دوبارہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے ایک توہین آمیز خاکہ جاری کیا۔ اس گستاخانہ اقدام کے ردعمل میں دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس کی شدید مذمت کی۔ چارلی ایبدو مجلے کے اس توہین آمیز اقدام کے بعد اس کے دفتر کے اردگرد احتجاج کے طور پر چند واقعات رونما ہوئے۔ گذشتہ ہفتے فرانس کے ایک اسکول ٹیچر نے کلاس میں چارلی ایبدو کے گستاخانہ خاکے بچوں کو دکھائے۔ اس کا ردعمل یوں ظاہر ہوا کہ ایک 18 سالہ چچنیا نژاد فرانسیسی مسلمان شہری نے اسے قتل کر دیا۔ فرانسیسی حکام خاص طور پر صدر ایمانوئل میکرون نے اس قتل کی شدید مذمت کر دی۔
 
دنیا بھر کے مسلمانوں کی جانب سے چارلی ایبدو کے اس گستاخانہ اقدام کی شدید مذمت کے بعد فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے نہ صرف اس جیسے اقدامات کی روک تھام کیلئے کوئی موثر اقدام انجام نہیں دیا بلکہ اسے آزادی اظہار کا مصداق قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے نے داشت نامی علاقے کے دورے کے دوران کہا کہ اظہار آزادی کے زمرے میں انجام پانے والے اقدامات قابل مذمت نہیں ہو سکتے۔ اس کے بعد بھی میکرون نے کئی بار اسلام مخالف بیانات دیے ہیں۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اسلام ایک بحران کا شکار دین ہے اور اسلامی ممالک بھی شدید بحرانوں کا شکار ہیں۔ فرانسیسی صدر نے اسلاموفوبیا کو ہوا دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی تنظیمیں فرانس کے آئین کو تبدیل کر کے اس کی جگہ اسلامی آئین لانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
 
فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے اپنے تازہ ترین اسلام مخالف موقف میں چارلی ایبدو کی جانب سے نبی اکرم ص کی شان میں گستاخانہ خاکے شائع کرنے کی حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ ایسے اقدامات جاری رہیں گے۔ اگرچہ پہلی نظر میں یوں دکھائی دیتا ہے کہ ایمانوئیل میکرون کے یہ اسلام مخالف بیانات عوام کی توجہ درپیش مسائل اور حکومت کی ناکامیوں سے ہٹانے کی خاطر سامنے آئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بیانات کئی مقاصد رکھتے ہیں۔ فرانسیسی صدر کا پہلا مقصد دین مبین اسلام کے چہرے کو بدنام کر کے مغربی دنیا میں اسلام کے پھیلاو اور عوام کی جانب سے اسلام کی جانب جھکاو کو روکنا ہے۔ 2019ء کی مردم شماری کے مطابق فرانس کی کل آبادی 6 کروڑ 60 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اسی طرح فرانس میں مقیم مسلمان شہریوں کی تعداد ایک کروڑ بتائی گئی تھی۔
 
اس مردم شماری میں افریقی نژاد مسلمان شامل نہیں تھے جن کی تعداد بھی اچھی خاصی زیادہ ہے۔ اس بنیاد پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فرانس میں مسلمانوں کی تعداد کل آبادی کا 20 فیصد ہے۔ دوسری طرف فرانس سمیت تمام مغربی ممالک شدید اقتصادی اور ثقافتی مشکلات کا شکار ہیں جس کے باعث مغربی دنیا میں گھرانے کا نظام نابود ہوتا جا رہا ہے اور تولید کی شرح بھی کم ہو چکی ہے۔ دوسری طرف مغربی معاشروں میں بڑھتی ہوئی جنسی بے راہروی اور ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت ملنے سے بھی گھرانے کا نظام تباہی کی جانب گامزن ہے۔ لہذا توقع کی جا رہی ہے کہ مستقبل قریب میں فرانس سمیت تمام مغربی ممالک کو درپیش چیلنجز میں ایک بڑا چیلنج آبادی کا بحران ہو گا۔ مغربی ممالک میں مقامی آبادی کی شرح تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔
 
دوسری طرف دین مبین اسلام میں گھرانے کے نظام کو انتہائی بنیادی اہمیت حاصل ہے جبکہ جنسی بے راہروی کی شدید سزائیں موجود ہونے کے باعث اس کا مناسب سدباب کیا گیا ہے۔ اسی طرح اسلامی تعلیمات میں شادی کو ایک مقدس حیثیت حاصل ہے اور تولید نسل پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اس کا منطقی نیتجہ مغربی معاشروں میں مسلمان شہریوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ ایک طرف مقامی آبادی کی کم ہوتی شرح اور دوسری طرف مسلمان شہریوں کی بڑھتی ہوئی آبادی نے مغربی حکمرانوں کو شدید خوفزدہ اور ہراسان کر ڈالا ہے۔ اسی خوف کے نتیجے میں مغربی حکمرانوں نے اسلاموفوبیا کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ فرانسیسی صدر کا حالیہ بیان بھی اسی پالیسی کا ایک شاخسانہ ہے۔
 
اسلام مخالف بیانات سے ایمانیوئیل میکرون کا دوسرا مقصد مسلمان شہریوں کو اشتعال دلا کر انہیں شدت پسندی پر اکسانا ہے تاکہ ان شدت پسندانہ اقدامات کو بنیاد بنا کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلانے کیلئے مناسب مواد حاصل ہو سکے۔ فرانسیسی صدر کا تیسرا مقصد فرانس میں مسلمان شہریوں اور اسلامی تنظیموں کی فعالیت اور سرگرمیوں کو محدود کرنا ہے۔ اس کی ایک مثال حکومت کی جانب سے کئی مساجد بند کرنے کا اقدام ہے۔ میکرون کا چوتھا مقصد عوام کو فلسطینی جہادی گروہوں سے بدبین کر کے ان کے دلوں میں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کیلئے نرم گوشہ ایجاد کرنا ہے۔ اسی مقصد کیلئے فرانسیسی میڈیا نے اسکول ٹیچر کو قتل کرنے والے چچنیا نژاد مسلمان شہری کو حماس کا رکن ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔


خبر کا کوڈ: 894752

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/894752/میکرون-کا-اسلام-مخالف-موقف-ایک-لمحہ-فکریہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org