2
Friday 30 Oct 2020 17:11

گلگت بلتستان انتخابات اور ہمارا مستقبل

گلگت بلتستان انتخابات اور ہمارا مستقبل
تحریر: ذاکر حسین میر

گلگت بلتستان میں الیکشن گہماگہمی اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ یہ خطہ حکومت، میڈیا اور سیاسی پارٹیوں کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ لوکل لیڈرز لوگوں کو سٹرکوں پر لے آتے ہیں، زندہ باد، مردہ باد کے نعرے لگواتے ہیں اور اپنی تقریروں میں طرح طرح کے وعدے کرتے ہیں۔ وفاقی سیاسی پارٹیوں کے سربراہاں بھی اس موقع پر علاقہ کا رخ کرتے ہیں۔ یہ لوگ گلگت بلتستان کے دور و دراز علاقوں تک جاتے ہیں اور اپنے آپ کو یہاں پر حاکم ناامیدیوں میں امید کی کرن ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے اختیار میں ہو یا نہ ہو، گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دینے کا وعدہ ضرور کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے دوسروں کو الو بنانے کے ماہر ہیں۔ گلگت بلتستان کی عوام سے ووٹ حاصل کرنے کا موثر حربہ بھی یہی ہے۔ یہ وہ بنیادی کمزوری ہے، جس کے استعمال پر ووٹ بھی مل جاتا ہے، حکومتیں بھی بنتی ہیں اور لوکل امیدواروں کی سیٹ بھی کنفرم ہو جاتی ہے۔ جلسے، جلوس، شور و غل، نعرے بازی، دھواں دار تقریریں یک دم رک جاتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے حالات جیسے تھے، کی حالت میں پلٹ جاتے ہیں۔ وفاقی لیڈرز اپنے اپنے صوبوں کو چلے جاتے ہیں اور اس خطہ کو ایسے بھلا دیتے ہیں جیسے کرہ زمین پر گلگت بلتستان نام کا کوئی خطہ بھی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ الیکشن کے موقع پر آئینی حقوق کو سر کا تاج بنانے والے، اسلام آباد پہنچ کر گلگت بلتستان کے حوالے سے کسی بھی بڑے فیصلہ کو کشمیر کاز کے لئے نقصان دہ قرار دیتے ہیں۔

گلگت بلتستان کی صورتحال سے آگاہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ علاقہ کسی بھی صورت پاکستان کا صوبہ نہیں بن سکتا۔ اس حوالے سے سی پیک امید کی ایک کرن تھی۔ خیال کیا جاتا تھا کہ پاکستان یہاں کے باسیوں کے لئے نہ سہی تو کم از کم اپنی اکانومی کی خاطر ہی کیوں نہ ہو، اس خطہ کو قومی دھارے میں شامل کرے گا، لیکن وقت نے بتا دیا کہ پاکستان سی پیک جیسے بڑے اور اہم منصوبہ کو تحفظ بخشنے کے لئے بھی گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی صوبہ نہیں بنا سکتا۔ معلوم ہوا کہ طویل عرصہ سے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے دعوے، نعرے اور وعدے سراب کے علاوہ کچھ نہ تھے۔ لیکن پھر بھی انتخابات کے ساتھ ہی دوبارہ انہی وعدوں اور نعروں کو دہرایا جانا اور لوگوں کا پھر سے پرامید نظر آنا، یہاں کے اہل علم اور صاحب فکر و بینش کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

قدیم الایام سے عمومی خیال یہ رہا ہے کہ الیکشن میں بھرپور حصہ لے کر منتخب نمایندوں کے ذریعے آئینی حقوق حاصل کئے جا سکتے ہیں، لیکن گذشتہ کئی سالوں پر محیط تجربہ بتاتا ہے کہ حکومتیں بنتی گئیں، منتخب عوامی نمائندوں کو وزارتیں بھی ملیں اور ترقیاتی فنڈز بھی ملے، لیکن علاقہ کی آئینی اور سیاسی صورتحال میں کسی طرح کی پیشرفت دیکھنے کو نہیں ملی۔ جس طرح وفاقی لیڈرز اسلام آباد جا کر گلگت بلتستان کو بھلا دیتے ہیں، اسی طرح یہاں کے منتخب نمایندے بھی اسمبلی پہنچ کر آئینی حقوق کے مسئلہ کو یکسر بھول جاتے ہیں۔ لگتا ہے الیکشن، اسمبلی اور منتخب عوامی نمایندے گلگت بلتستان کی عوام کو مصروف رکھنے کی پالیسی کا ایک حصہ ہیں اور ''مصروف رکھو، آگے بڑھو'' کی پالیسی کے تحت اصل مسئلہ کو لوگوں کی توجہ سے دور رکھا جاتا ہے۔ لوگ صوبہ کے انتظار میں، منتخب نمائندے پروٹول کے چکر میں اور اس صورتحال سے ناراض کچھ لوگ جیلوں میں گزر بسر کر رہے ہوتے ہیں جبکہ غیر مقامی لوگ اپنے تئیں کبھی اس خطہ کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بناتے ہیں، کبھی اسے کشمیر کا حصہ قرار دیتے ہیں تو کبھی اسے متنازعہ  ڈکلیئر کرتے ہیں۔

یہاں تک کہ کشمیر ایشو کو وہاں کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کے خواہاں لوگ بھی گلگت بلتستان کے لوگوں کی خواہشات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اسے کشمیر کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ گویا ان کی نظروں میں نہ اس خطہ کی آزادی کے لئے دی گئی قربانیوں کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی گلگت بلتستان کے باسیوں کی خواہشات کا کوئی احترام۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس طرح کے یکطرفہ فیصلوں پر گلگت بلتستان کے باسیوں کی طرف سے کوئی سادہ سا ردعمل بھی دیکھنے کو نہیں ملتا؛ نہ کوئی احتجاج، نہ کوئی اجتماع اور نہ ہی کوئی پریس کانفرنس، بس ایک  انتظار کہ شاید کسی حکمران کے دل میں رحم آئے اور ہمارے حق میں کوئی بڑا فیصلہ کرلے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں کو نہ گلگت بلتستان سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی یہ ان کا مسئلہ ہے، کیونکہ کسی بھی چھوٹے بڑے ایشو پر نہ وہ یہاں کی عوام کی حمایت کے محتاج ہیں اور نہ ہی وہ ان کے ووٹ سے یہاں پہنچے ہیں۔

یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک گلگت بلتستان کی سرزمین سے اپنے حقوق کے دفاع کے لئے کوئی مضبوط تحریک نہیں چلتی۔ پاکستان سے الحاق کی بات ہو یا تنازعہ کشمیر کا حصہ بننا چاہتے ہوں، آزاد ریاست بنانے کے حامی ہوں یا  کوئی اور صورت مدنظر ہو، یہ سب کچھ فقط یہاں کی عوامی بیداری، اتحاد، مضبوط عوامی تحریک، علاقہ کے ساتھ ہمدردی اور غیر متزلزل موقف سے ہی ممکن ہے۔ گلگت بلتستان کے تمام مخلص، ہمدرد، صاحبان فکر و اندیشہ، سیاسی پارٹیوں اور ان کے رہبران کو یہ جان لینا چاہیئے کہ اپنے علاقہ کی حیثیت کو تعین کرنے کا حق کسی اجنبی کے سپرد کرنا اور اس سے آس لگا کر بیٹھنا دنیا کی سب سے بڑی بے وقوفی ہے۔ ہمیں اپنی حیثیت کا تعین خود کرنا ہوگا، جس کے لئے گلگت بلتستان کی سطح پر ایک مضبوط تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔

نہ ہم انتخابات پر بھروسہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی ہمارے منتخب نمایندوں سے کوئی توقع رکھ سکتے ہیں۔ ماضی بعید سے ہم انتخابات کو ویلکم کرتے آئیں ہیں اور قابل ترین لیڈرز کو ووٹ دے کر اسمبلی  بھی بھیجتے  رہے ہیں، لیکن وہاں سے علاقہ کو موجودہ صورتحال سے نکالنے کے لئے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھا۔ مذکورہ حقایق کو سامنے رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کے باسیوں کو چاہیئے کہ غفلت کی تاریکیوں میں دھکیلنے والے انتخابات کا مکمل بائیکاٹ کریں اور من پسند امیدواروں کی جیت کے لئے اچھل کود کی بجائے اپنی شناخت کے لئے سڑکوں پر آئیں، اگر ایسا ہوتا ہے تو حقوق کے راستے میں یہ پہلا اور مضبوط قدم ہوگا، وگرنہ:
اُمّیدیں باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے
خبر کا کوڈ : 894970
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش