0
Saturday 31 Oct 2020 12:08

دہشتگردی کا مذہب

دہشتگردی کا مذہب
اداریہ
فرانس کے صدر میکرون نے جس طرح آزادی بیان کے نام پر توہین رسالت جیسے قبیح فعل کا ارتکاب کیا ہے، اس نے بہت سے باشعور افراد کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ یورپ کے ایک ملک کی صدارت تک ایسا فرد کیسے پہنچ سکتا ہے، جسے عام انسانی و دینی اقدار کا بھی بنیادی شعور نہیں ہے۔ بدقسمتی سے یورپ کا عمومی شعوری معیار روز بروز پستی کی طرف مائل ہے۔ جب امریکہ کے صدر ٹرامپ اور فرانس میں میکرون جیسے افراد برسراقتدار آئیں گے تو یورپی معاشرے کی روایتی اقدار کو زوال نہیں آئے گا تو کیا ہوگا۔؟ یورپی معاشرے کی اقدار دوسرے براعظموں میں مثالی نمونے کے طور پر پیش کی جاتی تھیں، لیکن آج میکرون اور ٹرامپ نے یورپی معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج صیہونی پروپیگنڈے کی وجہ سے اسلام اور دہشت گردی کا نام ایک ساتھ لیا جاتا ہے۔ اسلام امن و آشتی کا دین ہے، جو حالت جنگ میں بھی عام شہریوں حتیٰ درختوں اور پالتو جانوروں کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا، اس کے خلاف اس طرح کا پروپیگنڈہ کرنا کہ اسلام یا مسلمان دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب اور دین نہیں ہوتا، کیونکہ کوئی بھی آسمانی و الہٰی دین دہشت گردی یا بے گناہ انسانوں کے قتل عام کی اجازت نہیں دیتا۔ آج یہ اقدام انفرادی بنیادوں پر انجام پا رہا ہے اور یہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں۔

عیسائیت اور یہودیت میں بھی ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں، جو ذاتی سامراجی اہداف کی تکمیل کے لیے دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دیتی ہیں۔ بعض تجزیہ نگاروں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں میں پائے جانے والے دہشت گردوں کی کڑیاں عالمی صیہونیت سے جا ملتی ہیں اور دنیا میں بلواسطہ یا بلاواسطہ دہشت گردی کی ہر کارروائی کی ذمہ داری عالمی صیہونیت پر عائد ہوتی ہے۔ دہشت گردوں کی تلاش کے لیے صیہونی نظریات اور انکے معروف پروٹوکولز کا تحقیقی جائزہ لینا ضروری ہے۔ صیہونی لابی یہودیت کے پردے میں غیر انسانی اقدام انجام دے رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہودی علماء بھی صیہونی نظریات کے مخالف ہیں۔ 
خبر کا کوڈ : 895213
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش