1
Saturday 31 Oct 2020 23:33

عالمی صہیونی نیٹ ورک اور اسلامی دنیا میں اس کا پھیلاو

عالمی صہیونی نیٹ ورک اور اسلامی دنیا میں اس کا پھیلاو
تحریر: علی احمدی
 
صہیونزم کی تشکیل تقریباً 150 سال پہلے انجام پائی لیکن دنیا میں اس کے پھیلاو کا آغاز مغرب میں نشاۃ ثانیہ کی تحریک (رینائسنس) کے بعد ہوا ہے۔ صہیونزم پوری دنیا پر قوم یہود کی برتری اور تسلط کے نظریے پر گامزن ہے۔ چونکہ دنیا میں صہیونیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لہذا وہ اپنا یہ مقصد رائج ہتھکنڈوں سے حاصل نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے غیر معمولی ہتھکنڈے اپنا رکھے ہیں۔ عالمی صہیونزم کا پہلا حربہ جو وہ قرون وسطی کے بعد بروئے کار لایا "اقتصادی تسلط" پر استوار تھا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں یہودیوں پر سب سے زیادہ اقتصادی دباو یورپ میں رہا ہے جبکہ اسلامی دنیا میں مقیم یہودی کافی حد تک مالی آسائش سے برخوردار تھے۔ یورپ میں یہودی شہری گوشہ گیری کی زندگی گزار رہے تھے۔
 
عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر چڑھانے میں یہودیوں نے بنیادی کردار ادا کیا ہے لہذا وہ یہودیوں سے میل جول رکھنے سے پرہیز کرتے تھے۔ یہودیوں نے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے معیشت کے خاص طریقے اختیار کر کے اقتصادی طاقت حاصل کر لی۔ یہودیوں نے سودی نظام متعارف کروایا اور اس نظام کے ذریعے یورپی معاشروں کی اقتصادی نبض اپنے ہاتھ میں لے۔ اس کا نتیجہ مغربی معاشروں کا اقتصادی لحاظ سے یہودیوں پر انحصار کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یہودی اس حربے سے یورپی معاشروں میں بے پناہ اثرورسوخ پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ دوسری طرف یہودیوں نے مختلف علوم خاص طور پر تجربیاتی علوم میں بھی بہت ترقی حاصل کی۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب کے بڑے بڑے فلسفی اور سائنسدان جیسے نیوٹن اور آئن اسٹائن یہودی تھے۔
 
یوں یہودیوں نے عالمی سطح پر اثرورسوخ بڑھانے کے سفر کا آغاز کیا۔ اب ان کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ موجود تھی جس کی نوعیت نظریاتی تھی۔ یہودی عیسائیوں کو اپنے لئے نظریاتی رکاوٹ تصور نہیں کرتے تھے چونکہ وہ سترہویں صدی عیسوی میں کامیابی سے پروٹیسٹنٹ عیسائیوں کے درمیان ایسے ایلیٹ افراد گھسانے میں کامیاب ہو چکے تھے جو "عیسائی صہیونی" کے نام سے معروف ہیں۔ یورپ سے امریکہ نقل مکانی کرنے والے ابتدائی افراد کی اکثریت ایسے ہی عیسائی صہیونیوں پر مشتمل تھی۔ وہ اس قدر اثرورسوخ رکھتے تھے کہ جرج واشنگٹن بھی ان کی پیروی کرتا تھا۔ انیسویں صدی عیسوی کے آخر میں صہیونزم باقاعدہ طور پر تشکیل پا چکا تھا۔ صہیونزم کا منشور دنیا پر تسلط قائم کرنے پر استوار ہے اور اسلام سے انہیں خاص دشمنی ہے۔
 
اسلام سے یہودیوں کی دشمنی کی اصل وجہ اسلامی متون خاص طور پر قرآن کریم ہے جس میں واضح طور پر مسلمانوں کو یہودیوں کی دشمنی اور سازشوں سے خبردار کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب خودمختار یہودی ریاست کی تشکیل کیلئے کوششوں کا آغاز ہوا تو پہلے لاطینی امریکہ کا خطہ توجہ کا مرکز بنا لیکن بعد میں صہیونزم کا رخ فلسطین کی جانب ہو گیا کیونکہ انہیں اسلامی دنیا میں اثرورسوخ بڑھانے کیلئے عالم اسلام کے مرکز میں ایک ٹھکانے کی ضرورت تھی۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی بین الاقوامی صہیونزم کے اہداف کیلئے ایک بہت بڑا دھچکہ تھا۔ اسرائیل کا پہلا صدر بن گورین تھا۔ اس کی ڈاکٹرائن یہ تھی کہ عرب ہمارے دشمن ہیں لہذا ہمیں عرب دنیا کے اردگرد غیر عرب اسلامی ممالک کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔
 
بن گورین ڈاکٹرائن کی روشنی میں بنیادی طور پر چار ممالک کو ٹارگٹ بنایا گیا جن میں ایران، ترکی، ایتھوپیا اور انڈیا شامل تھے۔ صہیونی حکام ان ممالک میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے میں بہت حد تک کامیاب ہوئے۔ انہیں اس مقصد میں سب سے زیادہ کامیابی ایران میں حاصل ہوئی۔ لیکن امام خمینی رح کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے انہیں شدید خوفزدہ اور ہراساں کر دیا۔ مزید برآں، اس اسلامی انقلاب سے متاثر ہو کر عالم اسلام میں مختلف مقامات پر اسلامی مزاحمتی تحریکیں معرض وجود میں آئیں۔ ان اسلامی مزاحمتی تحریکوں نے پوری اسلامی دنیا میں اسرائیلی مفادات کو شدید خطرات سے روبرو کر ڈالا۔ لہذا صہونی حکمرانوں نے انقلاب اسلامی کے خلاف مختلف قسم کے گروہ تشکیل دینا شروع کر دیے۔ اسرائیل کی حمایت سے ایران مخالف گروہوں کی تشکیل اور پروپیگنڈے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
 
آج دنیا میں جہاں بھی انقلاب اسلامی ایران کے خلاف کوئی سازش تیار ہوتی ہے اس کے پیچھے عالمی صہیونز کے ناپاک عزائم کارفرما ہیں۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد اس سلسلے میں بہت زیادہ تیزی اور شدت آئی ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے قدس شریف منتقل کرنا، عرب ممالک پر اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کیلئے دباو ڈالنا اور سینچری ڈیل نامی ظالمانہ منصوبے میں ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر کی بھرپور فعالیت چند نمونے ہیں۔ مختلف تحقیقاتی اداروں کی سروے رپورٹس کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی دنیا میں رائے عامہ امریکی اور اسرائیلی حکمرانوں کی شدید مخالف ہے۔ عالم اسلام میں امریکی صہیونی بلاک کے خلاف پائی جانے والی شدید نفرت اسلامی بیداری کی بنیاد ہے۔
خبر کا کوڈ : 895247
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش