0
Monday 2 Nov 2020 23:38

ہفتہ وحدت امت مسلمہ کیلئے ایک نعمت(3)

ہفتہ وحدت امت مسلمہ کیلئے ایک نعمت(3)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

گذشتہ سے پیوستہ
رسول خدا نے توحید اور اسلام کا پیغام معاشرے میں پیش کیا تو جو رکاوٹیں فوری طور پر سامنے آئیں، ان میں قومی اور قبائلی تعصبات سب سے نمایاں تھے۔ قبائل اور حسب و نسب پر فخر کیا جاتا ہے اور دوسروں کو اسی بنا پر ذلیل، کمزور اور کمتر تصور کیا جانا۔ قرآن نے اسی تعصب کو ختم کرنے کے لیے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے سب سے زیادہ خدا کے قریب وہ ہے، جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یعنی قرآن نے ذات، قبیلہ، حسب و نسب کو نظرانداز کرتے ہوئے تقویٰ کو عزت و شرف کا معیار قرار دیا۔ رسول خدا نے ایک سیاہ فام حبشی بلال کو اپنا موذن بنا کر رنگ و نسل کے تعصب کو ختم کر دیا۔ سلمان فارسی جو فارس سے گئے ہوئے تھے، ان کو اپنے اہلبیت سے قرار دیا۔

کہتے ہیں کہ ایک بار سلمان فارسی مسلمانوں کے ایک گروہ میں بیٹھے تھے کہ وہاں موجود مختلف افراد اپنے قبائل اور حسب و نسب پر فخر کرتے ہوئے اپنا تعارف کرا رہے تھے، لیکن جب سلمان فارسی کی باری آئی تو آپ نے سب کو مخاطب ہو کر کہا میرا نام سلمان ہے اور میں خدا کے بندے کا فرزند ہوں۔ میں گمراہ تھا، محمد کے وسیلے سے میری رہنمائی ہوئی۔ میں فقیر تھا، محمد کے وسیلے سے بے نیاز ہوا۔ میں غلام تھا، محمد کے ذریعے آزاد ہوا، یہ میرا حسب و نسب ہے۔ جب یہ بات رسول خدا کے پاس پہنچی تو آپ نے سلمان کی باتوں کی تائید کی اور دوسروں کو قبیلے، ذات پات اور رنک و نسل کے تعصیبات سے منع فرمایا۔ آپ نے دین، تقویٰ، حریت، اخلاق اور عقل و فہم کو عظمت اور برتری کا معیار قرار دیا۔ اسلامی وحدت کے لیے معاشرے کے تمام افراد کو مثالی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشروں سے جاہلانہ رسم و رواج اور نسل پرستی، قبیلہ پرستی اور اس طرح کے تعصبات کو ختم کرنا ہوگا۔ عدل و انصاف اور تقویٰ و پرہیزگاری نیز ایمان قوی کو عزت و وقار اور عظمت کا معیار قرار دینا ہوگا۔

رسول خدا نے مدنی زندگی میں غلاموں کو آزاد کرکے، فقیروں اور غریبوں کو اہمیت دے کر اور تقویٰ و پرہیزگاری کو معیار قرار دے کر مدنی معاشرے میں بنیادی اصطلاحات لائیں۔ آپ نے اپنے عمل و کردار سے مساوات، عدل و انصاف اور قبائلی و نسلی تعصبات کو ختم کیا۔ آپ عام لوگوں جیسا لباس پہنتے، عام افراد کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے، یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ جب آپ کسی اجتماع میں بیٹھے ہوتے تو باہر سے آنے والے کو فوری طور پر اس بات کا احساس نہیں ہوتا تھا کہ ان میں رسول خدا کون سے ہیں۔ آپ کو بھی کسی نے فاخر اور قیمتی لباس میں نہیں دیکھا۔ آپ غلاموں اور فقیروں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا لیتے، معمولی سواری پر سوار ہو جاتے، رسول خدا کے ان اقدامات کی وجہ سے مدنی معاشرے میں اس حد تک تبدیلی آگئی تھی کہ ایک بار ایک امیر شخص رسول خدا کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک غریب شخص وہاں آیا۔ اس غریب شخص کو دیکھ کر امیر شخص نے اپنا قیمتی لباس سمیٹ لیا اور غریب سے دور بیٹھنے کی کوشش کی۔

رسول خدا پر اس امیر شخص کا یہ عمل گراں گزرا اور آپ نے امیر شخص کا مواخذہ کیا۔ امیر شخص اس قدر شرمندہ ہوا کہ اس نے اپنے تمام سرمائے میں سے نصف اس غریب اور فقیر انسان کو دے دیا۔ غریب نے امیر کی اس پیشکش کو مسترد کر دیا اور کہا کہ مجھے خوف آتا ہے کہ ممکن ہے کہ کل میں بھی امیر ہونے کے بعد اس طرح کے فخر و مباہات کو شکار ہو کر غریبوں اور محروموں سے دو ہونے کی کوشش نہ کروں۔ رسول خدا نے اپنے عمل و کردار سے مدنیہ منورہ کے معاشرے میں عدل و انصاف، برابری اور ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری کا ایسا سبق دیا کہ مدینہ کے معاشرے میں بنیادی تبدیلی آگئی اور زندگی اور عزت و شرف کے معیارات بدل گئے۔ آقا اور غلام، غریب اور امیر غرض معاشرے کا ہر فرد دوسرے کو اپنا بھائی اور دوست سجھنے لگا اور معاشرہ عدل و انصاف اور برابری و مساوات کے حقیقی مظہر میں تبدیل ہوگیا۔

رسول خدا جب مدینہ میں داخل ہوئے تو آپ نے سب سے پہلے بنیادی سماجی تبدیلیاں پیدا کیں، سب سے پہلے مرکز کی مضبوطی اور حکومتی ڈھانچے کی تشکیل کو برابری اور مساوات پر استوار کیا اور ارشاد فرمایا کہ حاکمان اسی کی اطاعت کریں، ان کی بات کو اہمیت دیں، کیونکہ رہبریت کی اطاعت امت مسلمہ کے درمیان وحدت کا باعث ہے۔ رسول خدا نے مدینہ میں داخل ہونے کے بعد جو اہم اقدامات انجام دیئے، ان میں قبائل کا باہمی معاہدوں کا ازسرنو جائزہ اور ان پر عمل درآمد تھا۔ ان معاہدوں کی وجہ سے مدینہ اور اس کے اردگرد رہنے والے قبائل میں باہمی اتحاد کی صورتحال پیدا ہوئی۔ اسی طرح انصار و مہاجرین کے درمیان معاہدوں کے بعد مدینہ گویا باہر سے حملہ آور دیگر قبائل کے خلاف ایک متحدہ قوت میں تبدیل ہوگیا۔ ان معاہدوں سے مسلمانوں کو یہ فائدہ پہنچا کہ مدینہ کے مختلف قبائل مشرکین قریش کے مقابلے میں بھی ہم پیماں ہوگئے اور مسلمان مشرکین مکہ کے ایک بڑے خطرے کے مقابلے میں محفوظ ہوگئے۔ البتہ ان معاہدوں کے باوجود بعض یہودیوں نے معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی، جن کو بعد میں اس عہد شکنی کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔

رسول خدا نے مدینہ میں داخل ہونے کے بعد انصار اور مہاجرین کے درمیان اخوت و برادری کے معاہدے کئے، جس کی روشنی میں ہر مہاجر کو ایک انصار کا بھائی بنا دیا گیا۔ مہاجر اور انصار کے اس بھائی چارے کی بنیاد سے جہاں مہاجرین کی مالی و سماجی مشکلات حل ہوگئیں، وہاں معاشرے میں اتحاد و وحدت میں اضافہ ہوا۔ رسول خدا نے مدینہ منورہ میں اپنے دس سالہ قیام میں معاشرے کو اتحاد و وحدت کی لڑی میں پرو دیا اور مدینہ منورہ میں اپنائے گئے آپ کے مختلف اقدامات بھی اسلامی معاشروں میں اتحاد و یکجہتی پیدا کرنے کے لیے آج بھی بہترین آئیڈیل اور مثالی نمونے ہیں۔ آپ نے مسلمانوں کے درمیان اخوت و برادری کے سلسلہ کو جاری کرکے مسلمانوں کو یہ دعوت دی کہ "یداللہ مع الجماعت" یعنی اللہ کا ہاتھ جماعت اور اتحاد و وحدت پر ہے اور شیطان اس کے ساتھ ہے، جو جماعت، اجتماع اور اتحاد و وحدت کے خلاف ہے۔ آپ کو مدینہ منورہ میں اتحاد و وحدت کا عملی نمونہ اور اتحاد و وحدت مختلف اقدامات تمام مسلمان امت اور اسلامی رہنمائوں کے لیے مثالی نمونہ ہیں۔ آپ کی سیرت پر عمل کرکے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 895292
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش