1
Tuesday 3 Nov 2020 00:23

عرب دنیا میں نئے بلاک کا ظہور

عرب دنیا میں نئے بلاک کا ظہور
تحریر: سید رحیم نعمتی

مصر کے وزیراعظم مصطفیٰ مدبولی کئی وفاقی وزراء پر مشتمل اعلیٰ سطحی حکومتی وفد کی سربراہی کرتے ہوئے ہفتہ کے دن عراق پہنچے ہیں۔ اس دورے میں ان کا مقصد اپنے عراقی ہم منصب مصطفیٰ الکاظمی کے ہمراہ مصر اور عراق کے درمیان مشترکہ کمیشن تشکیل دینا ہے۔ ان کے دورے سے چند دن پہلے دونوں ممالک کے حکومتی عہدیداروں نے مل بیٹھ کر اس کمیشن سے متعلقہ امور کا جائزہ لیا جبکہ عراق اور مصر کے درمیان طے پانے والے معاہدوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ مصر کے وزیراعظم کا یہ دورہ عراق کے وزیر خارجہ فواد حسین کے دورہ قاہرہ کے بعد انجام پا رہا ہے۔ عراقی وزیر خارجہ نے گذشتہ ہفتے مصر کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کا مقصد اردن، مصر اور عراق کے درمیان سہ طرفہ اجلاس میں شرکت کرنا تھا۔

اب مصر کے وزیراعظم کا دورہ عراق ظاہر کرتا ہے کہ "جدید شام" نامی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مزید ایک قدم آگے بڑھایا گیا ہے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ کیا ان دوروں کے نتیجے میں "جدید شام" عرب دنیا میں ایک نیا بلاک معرض وجود میں آنے کا مقدمہ ثابت ہو جائے گا؟ یاد رہے "جدید شام" نامی منصوبہ گذشتہ عراقی وزیراعظم حیدر العبادی کے زمانے میں بنایا گیا تھا اور اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ وزیراعظم مصطفیٰ الکاظمی اسے عملی جامہ پہنانے کا عزم کرچکے ہیں۔ مصطفیٰ الکاظمی نے اگست کے آخر میں منعقد ہونے والے اجلاس میں اردن کے بادشاہ اور مصر کے صدر کو "جدید شام" نامی منصوبے سے آگاہ کیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس منصوبے کا بنیادی مقصد تینوں عرب ممالک میں اقتصادی تعاون کو فروغ دینا ہے۔

عراق، مصر اور اردن عرب دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ تینوں ممالک کی آبادی پندرہ کروڑ سے زیادہ ہے اور ان کی جی ڈی پی بھی 500 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان ممالک کے درمیان تجارت کی شرح بہت کم ہے۔ عراق اور مصر کے درمیان انجام پانے والی تجارت ایک ارب دو سو ملین ڈالر ہے جبکہ عراق اور اردن کے درمیان تجارت کی شرح ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔ اسی طرح مصر اور اردن کے درمیان تجارت کی سطح بھی ایک ارب ڈالر سے کم ہے۔ لہذا جدید شام منصوبے کا مقصد تینوں ممالک کے درمیان تجارت کی شرح میں اضافہ کرنا ہے۔ اس منصوبے کے تحت عراق ان دونوں ممالک کو تیل فراہم کرے گا جبکہ مصر اور اردن عراق میں سرمایہ کاری کا زمینہ فراہم کریں گے۔

عراق، مصر اور اردن میں مالی اور تجارتی تعاون بڑھانے کیلئے ایک آئل پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ بھی جدید شام پراجیکٹ کا حصہ ہے۔ یہ آئل پائپ لائن بصرہ سے اردن کی بندرگاہ عقبہ تک بچھائی جائے گی اور وہاں سے مصر جائے گی۔ اس منصوبے کیلئے 18 ارب ڈالر کا بجٹ مخصوص کیا گیا ہے۔ اس پائپ لائن کے ذریعے عراق اردن اور مصر کو سستا تیل فراہم کرے گا، جس کی قیمت 16 ڈالر فی بیرل ہوگی۔ دوسری طرف مصر اور اردن عراق کو بجلی فراہم کریں گے۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عراق، مصر اور اردن کے درمیان اقتصادی تعاون فروغ پاتا ہے تو خود بخود عرب دنیا میں ایک نیا بلاک پیدا ہو جائے گا۔ یہ نیا بلاک اقتصادی شعبے کے علاوہ وسیع پیمانے پر سیاسی اور سکیورٹی شعبوں میں بھی باہمی تعاون کو فروغ دے گا۔

عراقی وزیراعظم مصطفیٰ الکاظمی کا کہنا ہے کہ جدید شام پراجیکٹ کے خدوخال یورپی یونین کے ماڈل پر استوار کئے گئے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ پراجیکٹ یورپی یونین ماڈل کی چھوٹی شکل ہے۔ یورپی یونین کی طرز پر پراجیکٹ شروع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک اقتصادی سیاسی بلاک مدنظر ہے۔ لہذا یہ منصوبہ عرب دنیا میں ایک نیا محاذ کھول سکتا ہے۔ یہ امر موجودہ دور میں دنیا کے تیزی سے بدلتے حالات کے پیش نظر بہت اہم ہے۔ اسی طرح جب ہم دیکھتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسی عرب ریاستوں نے جلد بازی میں اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کر لئے ہیں اور اب وہ ماضی کی طرح منافقت سے بھی کام نہیں لے رہے بلکہ کھلم کھلا اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں تو یہ اس نئے بلاک کی اہمیت زیادہ محسوس کی جا سکتی ہے۔

دوسری طرف شام اور لیبیا کا بحران ان تینوں عرب ممالک کی نظر میں انتہائی اہم ایشو ہے۔ عراق، مصر اور اردن تینوں کسی نہ کسی طرح لیبیا اور شام میں جاری بدامنی اور بحران سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے اکثر اوقات تینوں ممالک کی جانب سے اس بارے میں مشترکہ موقف سامنے آچکا ہے۔ یہ مشترکہ ایشوز ان تینوں عرب ممالک کو مزید ایک دوسرے کے قریب لا سکتے ہیں اور بہتر اقتصادی تعلقات کے ذریعے عرب دنیا میں ایک نئے سیاسی اتحاد کے طور پر ابھر کر سامنے آسکتے ہیں۔ البتہ فی الحال جدید شام منصوبے کا آغاز ہے اور اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ وقت ہی بتائے گا کہ یہ نیا عرب اتحاد کس حد تک پہلے سے موجود ترکی قطر اتحاد اور سعودی عرب متحدہ عرب امارات اتحاد کے مقابلے میں کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تینوں عرب ملک بہت زیادہ اقتصادی اور سیاسی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔
خبر کا کوڈ : 895575
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش