0
Tuesday 3 Nov 2020 18:15

ہفتہ وحدت، وحدت کے پیامبروں کی قدر کریں

ہفتہ وحدت، وحدت کے پیامبروں کی قدر کریں
تحریر: آئی اے خان

ماہ ربیع الاول کا بابرکت مہینہ جاری ہے۔ یہی وہ بابرکت مہینہ ہے کہ جس میں اللہ رب العزت کی جانب سے عالم انسانیت کو اشرف المخلوقات قرار دیئے جانے کی مکمل و مجسم دلیل رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صورت نصیب ہوئی ہے۔ حضور اکرم (ص) کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے دنیا بھر کے مسلمان اس مہینے میں ذکر محمد و آل محمد (ص) کی خصوصی محافل کا انتظام کرتے ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی عوامی سطح پہ چراغان، محافل، سیمینارز، جلسے، جلوسوں، ریلیوں، کانفرنسز کی صورت عوامی اجتماعات کا اعلیٰ پیمانے پہ انعقاد ہوتا ہے، جن میں محبان محمد و آل محمد حسب توفیق اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ رواں برس پاکستان بھر کے عوام کیلئے یہ امر انتہائی خوش آئند رہا ہے کہ حکومت کی جانب سے فقط ایک دن (بمناسبت ولادت پیغمبر اکرم) منانے کے بجائے ہفتہ عشق رسول (ص) منانے کا اعلان کیا گیا۔

قبل ازیں انقلاب اسلامی ایران کے بانی پیشوا امام خمینی نے عالم اسلام کو اتحاد و یگانگت کی ایک لڑی میں پرونے کی غرض سے سیدالانبیاء امام المرسلین سے منسوب ایام کو ہفتہ وحدت المسلمین کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ 12 تا 17 ربیع الاول پر محیط ہفتہ وحدت (ہفتہ عشق مصطفٰی) اپنے دامن میں بے شمار برکات و ثمرات سمیٹے ہوئے ہے۔ ان ثمرات میں سب سے نمایاں اور خصوصی ثمر اتحاد بین المسلمین ہے۔ عالم اسلام کے دو مکاتب فکر اہل سنت اور اہل تشیع کے نزدیک پیغمبر اکرم (ص) کی ولادت باسعادت کی تاریخ میں فرق پایا جاتا ہے۔ اہلسنت 12 ربیع الاول جبکہ اہل تشیع 17 ربیع الاول مناتے ہیں، امام خمینی نے ایک جانب ان دونوں مکاتب فکر کو اسلام کے بازو قرار دیا تو دوسری جانب ہفتہ وحدت کے فلسفہ کے ذریعے دونوں مکاتب کو ایک پلیٹ فارم، مشترکہ اجتماعات کا ذریعہ عنایت کیا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلامی دنیا کے خلاف دشمن کا جو ہتھیار سب سے کارگر ثابت ہوا، وہ فرقہ واریت یا مسلکی تقسیم کا ہتھیار ہے اور عالم اسلام کی سب سے بڑی کمزوری بھی اس کا اندرونی انتشار ہے۔ پاکستان میں اہلسنت و اہل تشیع دونوں مکاتب کے حقیقی نمائندہ علماء، مشائخ اور مذہبی سکالرز نہ صرف مسلکی منافرت کی ہلاکت خیزی سے بخوبی آگاہ ہیں بلکہ فرقہ واریت کے خاتمے اور اتحاد بین المسلمین کے فروغ کیلئے حسب توفیق کوششوں میں بھی مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی سفارشات و مطالبے پہ حکومت پاکستان کی جانب سے ایک جانب ہفتہ عشق مصطفٰی منانے کا اعلان کیا گیا تو دوسری جانب میلاد کے جلسے، جلوسوں، سیمینارز اور کانفرنسز میں دونوں مکاتب (اہل تشیع و اہلسنت) کی نمائندگی ماضی کی نسبت بہت زیادہ رہی۔ یہاں تک کہ فرقہ واریت کے تناظر میں حساس سمجھے جانے والے شہروں جیسا کہ کوئٹہ، ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ، جھنگ، راولپنڈی و دیگر شہروں میں میلاد کے مرکزی جلوسوں کے راستوں میں اہل تشیع تنظیموں، انجمنوں اور ماتمی سنگتوں نے لنگر و نیاز اور شربت و دودھ کی سبیلوں کا اہتمام کیا۔

اہلسنت کی بیسیوں مساجد میں ہونیوالی میلاد کی محافل سے اہل تشیع علماء نے خطاب کیا۔ علاوہ ازیں دونوں مکاتب کی نمائندہ سیاسی جماعتوں اور تحریکوں کے مرکزی دفاتر میں علماء و خطباء کے وفود کا تبادلہ ہوا اور ایک دوسرے کی اقتداء میں نمازیں ادا کی گئیں۔ وحدت کو فروغ دینے والے ان مخلص علماء، خطباء، اسکالرز کا بنیادی ہدف وطن عزیز پاکستان میں ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہے کہ جس میں شہری مکتب، مسلک سے بالاتر ہوکر ’’واعتصمو بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقو‘‘ حکم الہیٰ کے تحت زندگی گزار پائیں اور یہ وہ کار خیر ہے کہ جس کی پاکستان کے موجودہ حالات میں شدید ضرورت ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلام اور پاکستان دشمن قوتوں کو وطن عزیز میں ایسی فضا قبول ہے کہ جس میں مساجد مشترکہ ہوں کہ جیسے اربعین کے موقع پہ مشی کرنے والے سینکڑوں اہل تشیع افراد نے اہلسنت کی مساجد میں وقفہ کیا، نماز ادا کی اور نیاز و لنگر کیا یا میلاد کے جلوسوں کے راستوں میں اہل تشیع پھلوں اور مٹھائیوں سے بھرے طشت لیکر استقبال کیلئے موجود تھے۔

شیعہ سنی ایک دوسرے کی اقتدا میں نمازیں ادا کریں اور سب سے بڑھ کر اسلامی دنیا کے سیاسی مسائل پہ دونوں مشترکہ و متفقہ موقف اپنائیں اور تصادم کے بجائے تعاون پہ مائل ہوں۔؟ ظاہر ہے کہ یہ ماحول نہ پاکستان کے دشمنوں کو قبول ہوسکتا ہے اور نہ ہی اسلام و عالم اسلام کے دشمنوں کو۔ چنانچہ وحدت، اخوت، اتحاد بین المسلمین کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کیلئے اور اتحاد کی فضا کو مکدر کرنے کیلئے وہ اپنے مذموم حربے تسلسل سے آزما رہے ہیں اور آزماتے رہیں گے۔ ان حربوں میں نفرت انگیز اور انتشار پہ مبنی تقاریر (جیسے اشرف جلالی، رمضان مینگل، اورنگزیب فاروقی، آصف علوی وغیرہ اپنی زبان سے معاشرے میں نفرت کی آگ لگاتے ہیں)۔ اسی طرح ٹارگٹ کلنگ میں دونوں مکاتب کے رہنماؤں کو اس طرح نشانہ بنایا جاتا ہے کہ جس سے یہ تاثر ملے کہ ملک میں دو طرفہ فرقہ وارانہ قتال کی لہر جاری ہے۔ حال ہی میں کراچی میں مولانا عادل کا قتل بھی اسی سلسلے کی واضح کڑی ہے، یا ماضی میں مدرسہ تعلیم القرآن پہ ہونے والا حملہ کہ جس کے تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مدرسے پہ حملہ اسی مسلک سے تعلق رکھنے والی ایک تنظیم نے کیا تھا، جس کا مقصد ملک بھر میں عوامی سطح پہ شیعہ سنی ٹکراؤ تھا۔

سوشل میڈیا پہ جعلی آئی ڈیز کے ذریعے باقاعدہ نیٹ ورکس متحرک ہیں، جو کہ شیعہ سنی منافرت کو بڑھاوا دینے کیلئے غلیظ مواد وائرل کر رہے ہیں۔ اسی طرح نفرت انگیز لٹریچر کی تقسیم بھی ملک میں امن و وحدت کو نقصان پہنچانے کی سازش ہے۔ نماز جمعہ کے بعد کئی مساجد کے باہر تقسیم ہونے والے نفرت انگیز لٹریچر سے نہ ہی مسجد انتظامیہ آگاہ ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ بس ہوائی ناموں کے ذریعے صرف نفرت کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عثمانی نے اپنے ایک انٹرویو میں بہت پیاری بات کہی ہے کہ ’’قال اللہ و قال رسول اللہ کہنے والوں کے لبادوں میں چھپے ملک و اسلام دشمنوں کی تشخیص قطعاً کوئی مشکل کام نہیں، دیکھ لیں کہ جس کی زبان، عمل، تحریر سے معاشرہ تقسیم ہو، نفرت کو فروغ ملے یا کسی مکتب و مسلک کی تضحیک ہو، سمجھ لیں پاکستان دشمن ہے، اسلام دشمن ہے، عالم اسلام کا دشمن ہے، جہاں سے اخوت، وحدت، یکجہتی، اتحاد کا درس ملے، جان لیں محب وطن ہے، محب اسلام ہے اور عالم اسلام کا خیر خواہ ہے۔‘‘

حال ہی فرانس میں گستاخانہ خاکوں اور اس پہ صدر میکرون ایمانوئیل کے جاہلانہ موقف کے خلاف دنیا بھر کے مسلمانوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ کئی ممالک میں فرانسیسی سفارتخانوں پہ عوام نے ہلہ بول دیا۔ فرنچ مصنوعات کا بائیکاٹ تاحال جاری ہے۔ حرمت رسول (ص) پہ جان بھی قربان ہے، کے سلوگن سے شہروں، قصبوں، دیہاتوں میں ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ دنیا بھر میں یہ احتجاج مکتب و مسلک سے بالاتر ہو کر جاری ہے، ایک لحاظ سے یہ احتجاجی ریلیاں بھی اتحاد بین المسلمین کی عکاسی کر رہی ہیں، مگر یہ امر باعث حیرت ہے کہ وہ گروہ جو دوسرے مسالک کی تکفیر، توہین اور ان کے مقدسات کی بیحرمتی کی غرض سے آئے روز سڑکوں پہ دکھائی دیتے ہیں، وہ ان گستاخانہ خاکوں پہ خاموش ہیں۔ نہ ان کی جانب سے فرانسیسی صدر کو واجب القتل قرار دیا گیا، نہ انہوں نے ایک ہی رات میں فرانسیسوں کو ختم کرنے کی قسمیں کھائیں، نہ ان کے سماجی بائیکاٹ کی مہم چلائی اور نہ ہی ان گروہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ وطن عزیز پاکستان کو فرانسیسی شہریوں سے پاک کیا جائے، حالانکہ یہی گروہ مخالف فرقے کے لوگوں کو تہہ تیغ کرنے کی قسمیں کھاتے ہیں۔

کیا یہ دہرا معیار اس امر کا غماز نہیں کہ وہ گروہ جو مسلمانوں کے دیگر مسالک کے خلاف زہر اگلتے ہیں اور ان کیخلاف نفرت کی فضا بناتے ہیں، ان کے اختلاف کا معیار محبت صحابہ یا محبت آل رسول (ص) نہیں بلکہ پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی قائم رکھنے کیلئے بس ایک آلہ کار کے طور پر سرگرم ہیں، البتہ صحابہ کرام کی محبت کی آڑ انہوں نے پکڑی ہوئی ہے۔ وگرنہ جو محبت صحابہ میں مخالف مسلک کے خلاف سڑکوں پہ نکلتے ہیں، انہیں محبت رسول (ص) میں کافروں کے خلاف تو عملی جہاد کا اعلان کرنا چاہیئے تھا، مگر اظہر من الشمس ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ان گروہوں کی روحانی وابستگی کا معیار محض اتنا ہی ہے کہ کوئی شیعہ، کوئی بریلوی کسی تاریخ دان یا راوی کے متعلق اپنا اشتباہ ظاہر کر دیں تو لحظہ بھر میں انہیں دائرہ اسلام سے خارج کرکے واجب القتل قرار دیں اور جب غیر مذہب، ملحد رسول اکرم (ص) کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوں تو لمبی تان کے سو جائیں۔ 

ہفتہ وحدت، ہفتہ عشق رسول (ص) مناتے ہوئے جہاں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ وطن عزیز میں امن و آشتی کیلئے کون اتحاد بین المسلمین کے لیے سرگرم ہے، وہاں یہ ذہن میں بھی رکھنا لازم ہے کہ کون کون سے گروہ، عناصر، ادارے وطن عزیز میں فرقہ واریت کی آگ سلگائے رکھنا چاہتے ہیں۔ کون لوگ ہیں کہ جن کی روٹی مسلکی فساد کے شعلوں پر ہی پکتی ہے اور کون سی شخصیات ہیں کہ جن کی اہمیت و حیثیت فرقہ وارانہ کشیدگی میں ہی رہتی ہے۔ پس ریاست کو انہی کے خلاف بند باندھنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب پورے پاکستان میں ہفتہ وحدت، ہفتہ عشق مصطفٰی کے حوالے سے شیعہ سنی مشترکہ اجتماعات کا سلسلہ جاری ہے، اسی دوران وفاقی دارالحکومت کے سرکاری کنونشن سنٹر میں ایسی تقریب کا ہونا بھی لمحہ فکریہ ہے کہ جس میں تکفیری کالعدم گروہوں کے سربراہ شریک ہوں۔

علاوہ ازیں یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ اتحاد و وحدت، مسلکی ہم آہنگی، اتحاد بین المسلمین پاکستانی معاشرے کی موجودہ اہم ضرورت ہے، جو لوگ اس کیلئے سرگرم ہیں، وہ حقیقی معنوں میں پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں، ریاست کو ان کی قدر کرنی چاہیئے اور وفاقی و صوبائی حکومتوں، میڈیا اور اداروں کو چاہیئے کہ ان شخصیات کا خیر مقدم کریں اور انہیں مواقع فراہم کریں کہ وہ پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر پاکستان کا پرامن چہرہ مزید اجاگر کریں۔ پاکستان میں جو شیعہ سنی اتحاد کی بات کرتا ہے، وحدت کی بات کرتا ہے، وہی وحدت کا پیامبر ہے، حکومت، ریاست، اداروں، میڈیا اور عوام کو ان کی قدر کرنی چاہیئے۔ 
خبر کا کوڈ : 895661
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش