0
Tuesday 3 Nov 2020 16:48

ہفتہ وحدت امت مسلمہ کیلئے ایک نعمت(4)

ہفتہ وحدت امت مسلمہ کیلئے ایک نعمت(4)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

گذشتہ سے پیوستہ
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ دین اسلام اخوت، وحدت، ہمدلی اور یکجہتی کا حامی اور عدم تشدد، دقیانوسیت اور انتہاء پسندی کا مخالف ہے۔ اتحاد و وحدت کو عالم اسلام اور دین اسلام کی بنیاد اور جڑ قرار دیا جاتا ہے اور دین اسلام کی تعلیمات میں مشکلات اور سازشوں پر قابو پانے کے لیے "واعتصمو بحبل اللہ" یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینے کا نسخہ بتایا جاتا ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر اسلامی تعلیمات اتحاد و وحدت کی تعلیم اور پیغام دیتی ہیں تو جدائی، تفرقہ، باہمی دوری کی وجوہات اور عوامل کیا ہیں؟ دین شناس حلقوں کا کہنا ہے کہ تفرقہ اور مسلمانوں کا باہمی اختلاف دین اسلام کی تعلیمات اور اس کے حقائق سے عدم آگاہی و جہالت کا نتیجہ ہے۔ بدقسمتی سے دین اسلام اور اسلامی تعلیمات کے اندر مسلمانوں کے باہمی اتحاد کا جو پوٹینشل اور توانائی موجود ہے، اس سے استفادہ ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بنا دیا گیا ہے۔

عصر حاضر میں بعض انتہاء پسند گروہوں نے دین اسلام کی تعلیمات اور اس کے امن و آشتی کے چہرے کو مسخ کرکے ایک خود ساختہ دین متعارف کروانا شروع کر دیا ہے، جس سے اتحاد و وحدت کے دروازے بند ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ دین کے اس چہرے کو جدید جہالت کا دور قرار دیا جا رہا ہے۔ اس جدید جہالت کا مرکز و محور سعودی عرب جیسی ریاست میں تشکیل پایا اور اسلامی سرمائے سے اس کو دنیا بھر میں پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ امریکہ یعنی عالمی سامراج بھی اسرائیل کی مدد سے اس وقت فائدہ اٹھاتے ہوئے سعودی عرب اور اس کے حواریوں کو اپنے مذموم اہداف کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ "لڑائو اور حکومت کرو" سامراج کا قدیمی ہتھکنڈہ ہے اور برطانوی سامراج کا بچھائے ہوئے اس جال سے دوسری سامراجی طاقتیں بھی بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں اختلافات کے جو بیج بوئے گئے تھے، آج وہ مکمل درخت بن کر ظلمتوں اور تاریکیوں کے سائے پھیلا رہے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کا خطہ تو خصوصی طور پر تفرقے کی سازش کا شکار ہے، اس سازش کا ایک بڑا ہدف مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر غاصب اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان مسلکی اور مکتبی تفرقہ بازی کے آثار مغربی ایشیاء کے ممالک میں با آسانی مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں۔ ان ممالک میں سماجی، اخلاقی اور سیاسی برائیوں اور انحرافات کے پیچھے بھی عالمی سامراج کی سازشیں پوشیدہ و پنہاں ہیں۔ اس خطے میں جس انداز سے تکفیری وہابی فکر کو جس طرح متعارف کرایا گیا اور جس انداز سے اس کی نشوونما کی گئی، اس سے کوئی بھی باشعور انسان انکار نہیں کرسکتا۔ آل سعود نے عالمی سامراج کے کہنے پر تکفیریت کو پروان چڑھانے کا جو سلسلہ شروع کیا، وہ کبھی القاعدہ، کبھی داعش، کبھی بوکو حرام اور کبھی الشباب وغیرہ جیسے ناموں کے ساتھ سامنے آتا ہے۔

اسلامی بیداری سیکرٹریٹ کے سیکرٹری جنرل اور ایران کے سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر علی اکبر ولائتی اس تناظر میں کہتے ہیں کہ مسلماںوں کے درمیان اختلاف ایک فطری امر ہے، لیکن دشمن سے مقابلے کے لیے مسلمانوں کے درمیان وحدت و اخوت حیاتی اور لازمی امر ہے۔ دشمنان اسلام اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلامی مزاحمت و استقامت کو شکست دینے اور اسرائیلی و امریکی توسیع پسندی کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے اختلاف اور تفرقہ بنیادی ضرورت ہے۔ سامراجی طاقتوں نے دہشت گردی کے فروغ کے لیے داعش اور جھبۃ النصرہ جیسے گروہ تشکیل دیئے اور ان گروہوں کے ذریعے اسلامی اتحاد و وحدت کو اپنے نشانے پر لیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف امریکہ کی اصل اسٹریٹجی جنگ و جدل کا ماحول پیدا کرنا ہے اور اس کی خباثتون اور شیطنتوں کا حقیقی ہدف مسلمانوں کے درمیان قتل و غارت کا بازار گرم کرنا ہے۔

گذشتہ برسوں میں افغانستان، شام، عراق، غزہ، یمن، بحرین اور افریقہ وغیرہ میں جن جرائم کا ارتکاب کیا گیا، یہ اسی سازش کا ایک حصہ تھا۔ عالم اسلام اور مسلمان ممالک کی اس صورتحال میں ضروری ہے کہ امت مسلمہ حقیقی اسلام یعنی خالص محمدی اسلام کی طرف واپس پلٹے، کیونکہ وحدت اسلامی دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں ایک بہترین ہتھیار اور ڈھال ہے۔ سامراجی طاقتیں مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرنا چاہ رہی ہیں جبکہ اسلام امت مسلمہ کو "واعتصمو بحبل اللہ" کی دعوت دے رہا ہے۔ مسلمانوں کا باہمی اختلاف اور تفرقہ امت مسلمہ کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ اس اختلاف کو ہوا دینے کے لیے اسلام دشمن طاقتیں مختلف طرح کے پروپیگنڈے کر رہی ہیں، ان میں سے ایک سازش دین اسلام اور اسلامی تعلیمات کو بدنام کرنا ہے۔ وہ اسلام کا چہرہ مسخ کرکے امت مسلمہ کو کمزور اور انہیں احساس کمتری میں مبتلا کرنا چاہتیں ہیں۔

ان سازشوں کو برملا کرکے انہیں ناکام بنانا ایک سنگین ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے انجام دے کر دشمن کی کئی سازشوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ اور فرزند رسول امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے اپنے خطاب میں فرماتے ہیں کہ امریکہ، غاصب اسرائیل، رجعت پسند ریاستیں اور عالمی طاقتوں سے وابستہ افراد دور حاضر کے فرعون ہیں اور یہ امت مسلمہ کے درمیان اختلافات پھیلا رہے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے چند سال پہلے عالمی وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء سے خطاب میں فرمایا تھا کہ بعض امریکی حکام نے چاہتے نہ چاہتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ مغربی ایشیاء مین جنگ و جدل شروع کی جائے، تاکہ غاصب صہیونی حکومت کو امن و سلامتی نصیب ہو اور امت مسلمہ کا زخمی پیکر ترقی و پیشرفت نہ کرسکے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید فرمائی ہے کہ آج مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کے مسائل میں سب سے اہم اور بنیادی نوعیت کا ہے اور سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ملت فلسطین کی آزادی و نجات کے لیے تلاش اور کوشش کریں۔ بے شک عالم اسلام کی عزت و وقار ظالموں اور مستکبروں کے مقابلے میں ڈٹ جانے میں ہے۔ یہاں پر سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ امت مسلمہ کو اسلام کے حقیقی مبانی و اصولوں کی طرف پلٹنا ہوگا۔ وحدت و اخوت اسلامی معاشروں میں تغیر و تبدیلی میں بنیادی کردار کی حامل ہے۔ مظلوم اقوام دنیا کے جس کونے میں موجود ہیں، انہیں اتحاد و وحدت کی برکت سے ظلم و ستم سے رہائی دلائی جا سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 895667
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش