0
Thursday 5 Nov 2020 21:31

بائیڈن اور ٹرمپ دونوں ہار گئے ہیں

بائیڈن اور ٹرمپ دونوں ہار گئے ہیں
تحریر: سید اسد عباس

دنیا میں آج کل امریکی انتخابی دنگل کی دھوم ہے، اقوام عالم امریکہ کے انتخابی نتائج کے بارے میں جاننے کے لیے بے چین ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ امریکہ کے دنیا بھر میں پھیلائے ہوئے پنجے ہیں۔ مسلمان، غیر مسلم سب جاننا چاہتے ہیں کہ امریکہ میں کس پارٹی کا صدر برسر اقتدار آتا ہے اور امریکہ کی اگلی حکومت کی پالیسی کیا ہوگی۔ ٹرمپ کے حوالے سے دنیا کا تجربہ اتنا اچھا نہیں ہے، جیسا کہ اس سے قبل کے صدور کے حوالے سے تھا۔ واشنگٹن میں تعینات اکثر یورپی سفراء نے ایک امریکی رپورٹر سے نجی بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر صدر ٹرمپ مزید ایک مدت کے لیے بر سر اقتدار آتے ہیں تو یورپ کے اکثر ممالک کے امریکہ کے ساتھ تعلقات پہلے کی طرح نہیں رہیں گے۔ ان یورپی سفراء کے بقول ٹرمپ ایک غیر سنجیدہ اور ناقابل اعتبار شخص ہیں۔ جن کے دور اقتدار میں یورپ کو متعدد بار توہین کا سامنا کرنا پڑا۔ یورپی سفراء کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ٹرمپ کو مزید اقتدار ملا تو ہمیں یقین نہیں ٹرمپ نیٹو کے اتحاد کو مزید آگے بڑھائیں گے، اس کے لیے یورپ کو دوسری اقتصادی اور فوجی طاقتوں کے ساتھ برابری کے تعلقات استوار کرنے ہوں گے، تاکہ امریکی خلا کو پر کیا جاسکے۔

یاد رہے کہ ایران اور دنیا کی طاقتوں کے مابین ہونے والے معروف ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے بعد ٹرمپ نے یورپی ممالک کے شہریوں اور کمپنیوں کو بھی امریکی پابندیوں کی دھمکی دی تھی، جو ایک طرح سے یورپ کے خارجہ تعلقات پر اثر انداز ہونے کی کوشش تھی۔ ٹرمپ کا فلسطین کے حوالے سے رویہ بھی اس کے یورپی اتحادیوں کی سمجھ سے بالاتر ہے، جس کی متعدد یورپی اتحادیوں نے کھل کر مخالفت بھی کی۔ ٹرمپ کے دور اقتدار میں امریکہ نے صہیونی لابی کو خوش کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے، جن میں ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے کا خاتمہ، ایران پر مزید پابندیاں، یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا، گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو جائز قرار دینا، فلسطین کے دو ریاستی حل کو عملی طور پر کالعدم قرار دیتے ہوئے سنچری ڈیل کے نام سے منصوبے کا آغاز شامل ہیں۔

ایسا بھی نہیں کہ سبھی ممالک ٹرمپ سے ناخوش ہیں، اسرائیل کو ہی لے لیں، ٹرمپ کے دور میں اسرائیل نے بہت سے اہداف حاصل کیے، ٹرمپ انتظامیہ کے تعاون سے ہی کئی ایک عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کا معاہدہ کیا۔ گذشتہ ایک برس میں اسرائیلی حکومت کے فلسطین کے علاقوں کو اسرائیل میں شامل کرنے کے حوالے سے اقدامات میں تیزی بھی اس امر کو ظاہر کرتی تھی کہ وہ ٹرمپ کے دور اقتدار میں ہی زیادہ سے زیادہ اہداف کا حصول چاہتے ہیں اور انہیں بائیڈن سے زیادہ توقعات نہیں ہیں۔ ہندوستان نے بھی ٹرمپ کے دور اقتدار میں بہت سے اہم تزویراتی اور سیاسی اہداف حاصل کیے، جن میں کشمیر کی مقبوضہ وادی کی خود مختار حیثیت کا خاتمہ، افغانستان میں معاشی مفادات، خود ہندوستان کے لیے سائنسی، عسکری اور تعلیمی میدان میں بڑے معاہدے ٹرمپ کے دور حکومت میں ہی ہوئے۔

ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے ریپبلیکن پارٹی کے پاکستانی نژاد راہنما سجاد تارڑ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ ایک کاروباری شخص ہے، جو جنگ نہیں چاہتا، اس کا کاروبار چونکہ تعمیرات سے متعلق ہے، لہذا وہ چاہتا ہے کہ اقتصادی ذرائع سے مختلف مسائل کو حل کیا جائے۔ ساجد تارڑ کا کہنا ہے کہ ہم نے دیکھا کہ ٹرمپ کے دور میں مختلف محاذوں سے امریکی افواج کے انخلا کا سلسلہ تیز ہوا، تارڑ کے مطابق اس کی ایک وجہ امریکہ پر جنگی مشینری کا اقتصادی بوجھ ہے جبکہ دوسری اہم وجہ ٹرمپ کا جنگ مخالف ہونا ہے۔ تارڑ کے مطابق اگر ڈیموکریٹس کی حکومت آتی ہے تو ایک مرتبہ پھر مختلف ممالک میں جنگی جنون زور پکڑے گا۔ امریکی معیشت کا بڑا انحصار اسلحہ سازی کی صنعت پر ہے، ڈیموکریٹس کے برسر اقتدار آنے سے اس صنعت کی ترقی یعنی جنگوں کے کاروبار کا ایک بار پھر آغاز ہوگا۔ اس کے برعکس ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ اگرچہ افغانستان، عراق اور دیگر ممالک میں امریکی افواج ہماری معیشت کے لیے ایک بوجھ ہین، تاہم جس انداز سے ٹرمپ فوجوں کا انخلا کر رہا ہے، یہ امریکی خارجہ پالیسی کے مطابق نہیں اور اس انخلا سے فائدہ کے بجائے نقصان زیادہ ہوگا۔

امریکی کرسی صدارت پر کون آتا ہے، نیز اس تعیناتی سے اقوام عالم کی توقعات اور مفادات کیا ہیں، اتنا وسیع موضوع ہے کہ اس پر بات کرنے کے لیے ہر قوم کے مفادات اور ان کی امریکی حکومت سے توقعات کو الگ الگ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم پاکستان کے حوالے سے ٹرمپ یا بائیڈن کا موازنہ کریں تو ہمارے لیے دونوں میں سے کسی کا بھی صدر بننا کوئی خاص فرق نہیں رکھتا۔ نہ کشمیر کا مسئلہ ٹرمپ نے حل کرنا ہے اور نہ ہمیں اس کی بائڈن سے کوئی توقع رکھنی چاہیئے۔ ٹرمپ کا ایک فائدہ یہ ہوسکتا تھا کہ وہ جلدی افغانستان سے چلا جاتا، تاہم جہاں تک ہندوستان سے روابط کا تعلق ہے تو بائیڈن یا ٹرمپ دونوں کا ہونا ایک جیسا ہی ہے۔ قوی امکان ہے بائیڈن کے دور اقتدار میں پاکستان پر سی پیک اور دہشت گردی کے حوالے سے دباؤ نسبتاً زیادہ بڑھ جائے۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ ٹرمپ اگر دوبارہ برسر اقتدار آتا ہے تو عالم اسلام کے کئی ایک ممالک سے بالخصوص عراق اور افغانستان سے امریکی افواج مکمل نہیں تو ایک بڑی حد تک نکل جائیں گی، تاہم دوسری جانب ٹرمپ کی اسرائیل کے حوالے سے پالیسیاں ہمارے لیے نئی مشکلات کو جنم دیں گی۔ یورپ شاید چاہے کہ بائیڈن برسر اقتدار آئے اور امریکی پالیسیوں میں ٹھہراؤ آئے، تاہم اس کے برعکس اسرائیل اور صہیونی لابی ٹرمپ کو ترجیح دے گی

اگر اب بھی آپ جاننا چاہتے ہیں کہ ٹرمپ آئے گا یا بائیڈن تو میری نظر میں اس وقت امریکہ میں مختلف لابیز مصروف عمل ہیں۔ امریکہ کے حالیہ انتخابات متنازعہ حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ مختلف ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی روکنے کے لیے درخواستیں دائر ہوچکی ہیں۔ مظاہرین سڑکوں پر موجود ہیں۔ امریکی آر ٹی ایس سسٹم جو کرونا کے سبب ڈاک ووٹ پر مشتمل تھا، فلاپ ہوچکا ہے۔ ایسی صورتحال میں بائیڈن آتا ہے یا ٹرمپ دونوں اس صورتحال میں نہیں ہوں گے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے فیصلوں سے تجاوز کرسکیں اور اپنی من مانیاں کرتے پھریں۔ میں تو کہوں گا کہ بائیڈن اور ٹرمپ دونوں یہ انتخاب ہار چکے ہیں اور امریکی اسٹیبلشمنت جس کا بڑا حصہ صہیونیوں پر مشتمل ہے کامیاب ہوچکی ہے۔
خبر کا کوڈ : 896144
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش