0
Monday 9 Nov 2020 11:33

اقبال، ایک نابغۂ روزگار(1)

اقبال، ایک نابغۂ روزگار(1)
تحریر: ثاقب اکبر

آج (9 نومبر 2020ء) علامہ اقبال کا یوم ولادت منایا جا رہا ہے۔ وہ 9 نومبر1877ء کو سیالکوٹ میں حکیم نور محمد کے ہاں متولد ہوئے۔ اس وقت کون جانتا تھا کہ آج ایک عام مذہبی گھرانے میں پیدا ہونے والا بچہ کل کو اپنے دور کے نوابغ میں شمار کیا جائے گا۔ علامہ اقبال کو شاعرِ مشرق، حکیم الامت، مصور پاکستان اور دانائے روزگار جیسے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ جس دور میں تشریف لائے، برصغیر انگریز سامراج کی غلامی سے گزر رہا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب برصغیر پر انگریزوں کا اقتدار ہمہ گیر بھی ہوچکا تھا اور گہرا بھی۔ عالم اسلام زبوں حالی کا شکار تھا اور رہا سہا مسلم اقتدار زلزلوں کی زد میں تھا۔ علامہ اقبال کے دیکھتے دیکھتے ترکوں کی عثمانی خلافت زمین بوس ہوگئی۔ انھوں نے اپنی جوانی میں جنگ عظیم اول کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کیا۔ مغربی تہذیب کی چکا چوند پورے عالم کو متاثر کر رہی تھی۔ افکار کہنہ لرزہ براندام تھے۔ سائنس اور کائنات کے مادی تصور کی بنا پر تشکیل پانے والی مغربی تہذیب نئی نسلوں کے ذہنوں کو مسخر کر رہی تھی۔ صدیوں سے رائج تصورات و افکار ایک بڑے چیلنج کے سامنے دفاعی حیثیت سے کھڑے تھے۔

قومی ریاستوں کی بنیاد پر وطن پرستی کا غلغلہ تھا۔ یورپ کے مختلف ممالک کی نوآبادیاں افریقہ اور ایشیا میں قائم ہوچکی تھیں۔ ان خطوں میں پہلی جنگ عظیم کے بعد آزادی کی تحریکیں بھی نشوونما پا رہی تھیں، البتہ یہ تحریکیں بھی زیادہ تر قومی حیثیت رکھتی تھیں۔ ملوکیت اور شہنشاہیت کے بت ٹوٹ رہے تھے۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے عناوین پذیرائی حاصل کر رہے تھے۔ سماج، پیداواری ذرائع میں تبدیلی اور نئی مصنوعات کے پھیلائو کی وجہ سے تبدیل ہو رہا تھا۔ کسی جگہ یہ تبدیلی تیز رفتار تھی اور کسی جگہ سست رفتار، بہرحال تبدیلی آرہی تھی۔ قدیم تعلیمی نظام بھی تبدیل ہو رہے تھے۔ نئے نئے موضوعات اور نئے نئے علوم دانش گاہوں میں اپنی جگہ بنا رہے تھے۔ فکری جمود کی خارجی دنیا میں گنجائش کم سے کم ہوتی جا رہی تھی۔ ایسے میں علامہ اقبال ایک مفکر اور نظریاتی راہنماء کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ ان کی شخصیت اور فکر کی قدر پیمائی انہی حقائق کو سامنے رکھ کر کی جاسکتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ علامہ اقبال کی فکری اور کتبی میراث کا زیادہ تر حصہ منظوم ہے لیکن انھیں عام معنی میں شاعر سمجھنا اور کہنا درست نہیں ہوگا کیونکہ ان کی شاعری گل و بلبل، لب رخسار اور محبوب کے عشوہ و ناز کے موضوعات کی حامل نہیں ہے۔ ہجر و وصال کی وہ کیفیتیں جو ہماری شاعری کا موضوع رہی ہیں، علامہ اقبال شاعری میں اس کے ترجمان نہیں ہیں۔ اسی طرح ہجو گوئی اور شاہوں کی قصیدہ سرائی بھی ہمارے روایتی شعراء کا موضوع سخن دکھائی دیتی ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری دراصل اپنے دور کے تہذیبی ارتقاء کے ادراک کا پتہ دیتی ہے۔ اقبال تہذیب مغرب پر تنقید کرتے ہیں تو اس کی خوبیوں کو بھی نظرانداز نہیں کرتے۔ انھوں نے اپنی جوانی کے کئی قیمتی سال مغرب میں بسر کیے اور مغربی تہذیب کو دیکھا نہیں بلکہ برتا ہے۔ مغربی تہذیب پر ان کی تنقید جس گہرے شعور کے ساتھ تھی، اس کی سچائیاں وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آتی چلی جا رہی ہیں۔ معنویت سے خالی اور عالم باطن سے نابلد مغربی تہذیب انسان دوست ہو ہی نہیں سکتی، اگرچہ اس کے حکمران کتنا بھی انسانی حقوق کا شعار بلند کریں۔

مغربی حکمرانوں کے ہاتھوں انسانوں کا خون جس قدر ارزاں ہوا ہے، اس نے گذشتہ ساری تاریخ کے سیاہ چہرے کو بھی سفید کر دیا ہے۔ اقبال کہتے ہیں:
یورپ میں بہت، روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات

کمزور اور پسماندہ قوموں کے ساتھ مغرب نے جو سلوک روا کیے رکھا ہے، اس نے ثابت کر دیا ہے کہ علامہ اقبال کی تہذیبِ غرب اور سرمایہ داری نظام پر تنقید کس قدر درست ہے۔ اقبال کہتے ہیں:
یہ پیر کلیسا کے کرامات ہیں آج
بجلی کے چراغوں سے منور کیے افکار
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ دشوار


اپنے ملکوں کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اور اپنی مشینوں کے پہیوں کو رواں رکھنے کے لیے مغربی طاقتوں نے جس طرح سے کمزور قوموں کا خون پیا ہے، اس نے ثابت کر دیا ہے کہ مغربی تہذیب اندر سے خون آشام ہے اور اپنے فائدے کے لیے سرمایہ داری نظام کے رکھوالے مغربی حکمران کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔ علامہ اقبال کہتے ہیں:
مشرق کے خداوند سفیدانِ فرنگی
مغرب کے خداوند درخشندہ فلزَات
یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات
رعنائی تعمیر میں، رونق میں، صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات
بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات
وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر
تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات


ان کا پیغام یہ ہے کہ طویل شب ظلمت میں بھی حوصلہ ہارنے کی ضرورت نہیں بلکہ طلوع سحر کی امید کے ساتھ سفر کو جاری رکھنا چاہیئے۔ وہ کہتے ہیں:
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر

علامہ اقبال جہاں مغربی تہذیب پر تنقید کرتے ہیں، وہاں عالم مشرق کو بھی بیداری کا پیغام دیتے ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے ’’پس چہ باید کرد ای اقوامِ شرق‘‘ کے عنوان سے ایک طویل مثنوی سپرد قلم کی ہے۔ اس میں انھوں نے مشرق سے اٹھنے والے ایک انقلاب کی پیش گوئی بھی کی ہے اور اہل مشرق کے دلوں میں شمع امید روشن کرنے کی کوشش کی ہے۔  وہ کہتے ہیں:
پس چه باید کرد ای اقوام شرق
باز روشن می شود ایام شرق
در ضمیرش انقلاب آمد پدید
شب گذشت و آفتاب آمد پدید
یورپ از شمشیر خود بسمل فتاد
زیر گردون رسم لادینی نهاد
گرگی اندر پوستین بره ئی
هر زمان اندر کمین بره ئی
مشکلات حضرت انسان از وست
آدمیت را غم پنهان از وست
در نگاهش آدمی آب و گل است
کاروان زندگی بی منزل است
هر چه می بینی ز انوار حق است
حکمت اشیا ز اسرار حق است
هر که آیات خدا بیند، حر است
اصل این حکمت ز حکم ’’انظر‘‘ است


ان اشعار کا اردو مفہوم کچھ یوں ہے: پس اے مشرق کی اقوام کرنا کیا چاہیے، مشرق کے ایام ایک مرتبہ پھر روشن ہو رہے ہیں، اس کے ضمیر میں ایک انقلاب وجود میں آرہا ہے، رات گزر گئی ہے اور خورشید طلوع ہو رہا ہے، یورپ خود اپنی شمشیر سے بسمل ہو کر گر پڑا ہے، جس نے آسمان کے نیچے لادینی تہذیب کی بنیاد رکھی تھی، اس تہذیب کی مثال ایک ایسے گرگ کی سی ہے، جس نے بھیڑ کی کھال پہن رکھی ہے اور وہ ہر دور میں کسی بھیڑ کی کمین میں بیٹھا ہے، انسان کی مشکلات اسی یورپ کی وجہ سے ہیں، انسانیت کا غم پنہاں اسی کی وجہ سے ہے، اس کی نظروں میں انسان پانی اور مٹی کے سوا کچھ نہیں اور زندگی کے کاروان کی کوئی منزل نہیں، جب کہ آپ جو کچھ دیکھ رہے ہیں، یہ انوار حق میں سے ہے اور اشیاء کی حکمت اسرار حق سے ہے، جو کوئی بھی ان آیات الٰہی کو دیکھ سکے، وہی مرد حر اور مرد آزاد ہے، اس حکمت کی اصل اُنْظُر کے حکم سے ماخوذ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 896740
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش