1
4
Tuesday 10 Nov 2020 09:04

ہم تیرے عباس ہیں یا زینب (س)

ہم تیرے عباس ہیں یا زینب (س)
از قلم: عاشق الشہداء

اس کتاب کو پڑھ کر یوں لگا کہ وادی عشق میں شہداء کی محفل سے ہو کر گزری ہوں۔ یہ کتاب فقط کتاب نہیں بلکہ زندگی کو کس انداز سے گزارنا یے، اس کا لائحہ عمل دے گئی ہے، جس کو پڑھتے ہوئے میں نے ہر شہید کی زندگی کو غور سے دیکھا اور محسوس کیا کہ شدید تر مشکلات میں دو راہے پر ٹھہر کر انھوں نے جس راہ کا انتخاب کیا، وہ بہترین راہ ثابت ہوئی۔۔۔۔ اگر ہم اپنی ذاتی زندگی کے مسائل کو دیکھیں تو ہم یوں سمجھیں گے کہ جو راہ شہداء زینبیون نے چنی وہ ناممکن ہے کہ اس میں کامیاب ہوتے۔۔۔ مگر وہ کامیاب ہوگئے۔ کچھ شہداء ایسے ہیں کہ جن کی زندگی بہت سخت مرحلے سے گزر رہی تھی کہ جس میں ان کا اپنے وطن میں ہونا اور اپنے خاندان کی کفالت کرنا، سہارا بننا،خدمت کرنا ضروری تھا۔۔۔

مگر دوسری جانب دینی فریضہ دفاع حرم بھی سامنے تھا کہ اگر وہاں نہ جاتے تو کوفہ والوں کی طرح اک بے حس قوم ثابت ہوتے، جنھوں نے مولا (ع) کو بلایا تو تھا جیسے ہم العجل العجل کر رہے ہیں، مگر جب ساتھ دینے کا وقت آیا تو تنہا چھوڑ دیا اور ناموس رسالت اسیر ہوگئے۔ آج بھی جب ہم *کاش* کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی جان و مال و اولاد اور ہر چیز اس راہ میں قربان کرنے کو تیار ہیں۔۔۔ تو اس *کاش کہ میں کربلا میں ہوتا* کا  مصداق اس دور میں جب سیدہ (س) کے حرم پر حملہ ہوا تو ثابت ہوا کہ کیا واقعی ہم اپنا سب کچھ قربان کرسکتے ہیں یا نہیں۔۔۔۔ مدافعین حرم نے ثابت کیا کہ وہ قول و فعل میں گفتار میں سچے ہیں۔۔۔

ان سخت حالات میں جب ان کو یا تو اپنا گھر بار چننا تھا، آسائش چننی تھی، ایسے میں انھوں نے سختیوں کو چنا اور مشکلات کو چن کر اپنی جان کا نذرانہ دینے سیدہ زینب (س) کے حرم جا پہنچے۔۔۔ جہاں جانے سے پہلے ان کو معلوم تھا کہ ان کا انجام کیا تھا، لیکن مدافعین حرم نے انجام کی پرواہ کیے بغیر اپنا فریضہ انجام دیا اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ کس قدر کامیاب و باوقار ثابت ہوئے ہیں۔۔۔۔ اس کتاب کو پڑھنے کا اک خواب تھا میرا، کیونکہ ہر عمر کا شہید دفاع حرم میں شہادت پا گیا اور انہی مشکلات سے گزر کر گیا، جن مشکلات میں آج ہم غرق ہیں۔ آج ہمارے پاس جن مشکلات کے لیے ہزاروں حیلے و بہانے ہیں، وہ شہداء ان مشکلات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے چل پڑے۔۔۔۔

میری نظر میں شہداء زینبیون و مدافعین زینبیون بہت مظلوم ہیں، جو اپنے وطن کا افتخار ہوتے ہوئے بھی گمنام ہیں۔۔۔۔ جن کا ملک پاکستان ہے، وہ اسلامی جمہوری پاکستان جس کی بنیاد دین اسلام ہے اور جس میں ہر اک کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔۔۔ مگر ہمارا افتخار ہمارے باہمت حوصلہ مند شہداء اپنے ملک میں دفن ہونے کا حق نہیں رکھتے بلکہ دوسرے ملک میں ان کا مرقد بنایا جاتا ہے۔۔۔ جن کی بہادری و شجاعت کے قصے  ملک پاکستان کے باشندے نہیں جانتے۔ جن کے خانوادے گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔۔۔۔ جن کے پیاروں کے چلے جانے سے ان کا پرسان حال کوئی نہیں۔۔۔۔ یہ کتاب فقط کتاب نہیں، ان ماوں بہنوں کا افتخار ہے، جنھوں نے اپنے لخت جگر راہ حق کے لیے قربان کر دیئے۔۔۔ جن کے صبر نے کربلا والوں کے صبر یاد کرا دیئے۔۔۔۔

شہداء کا خون تاثیر رکھتا ہے اور اس کتاب سے یہ بات واضح طور پہ عیاں ہے۔ جس میں نوجوانوں کی، جوانی کی عمر میں ہزاروں خواہشات ہوتی ہیں، وہ اپنی خواہشات کو ترک کرکے اپنی جوانی سیدہ زینب (س) کے حرم کے دفاع میں قربان کر دیتا ہےو
وہ جوان جو اپنی شادی کی عمر میں اپنی زندگی کو راہ حق میں قربان کر دیتا ہے،
وہ جوان جس نے اب آسائش سے اپنے خانوادے کے ساتھ زندگیاں گزارنی تھی، وہ جنھوں نے بچوں کو پلتا بڑھتا اور جوان ہوتا دیکھنا تھا، وہ مرد میدان جنھوں نے اپنی آنے والی نسل کی تربیت کرنی تھی، اپنا سب کچھ قربان کرکے دفاع حرم کی خاطر چل پڑے۔۔۔۔

اور اپنے وصیت ناموں میں اپنے خانوادے کو جو تلقین کی وہ یہ کہ: *گریہ نہ کرنا۔۔۔ اور اگر کرنا ہو تو مصائب ابا عبداللہ الحسین (ع) پر گریہ کرنا، صبر سیدہ زینب (س) پر گریہ کرنا۔۔۔۔ *، *نماز کو اول وقت پرادا کرنا۔۔۔۔* یعنی ایسے الہیٰ وصیت نامے جن میں دنیا کی بو نہیں آتی❤️ یعنی ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اک انسان جو تیس سے چالیس سال ریاضت و جستجو کرکے جس مقام تک پہنچتا ہے، اک شہید اس مقام تک 10، 15 دن میں پہنچ جاتا ہے، کیسے۔۔۔۔؟ اس کتاب نے بیان کیا کہ کیسے ہم جب دنیا کو ترک کرکے آخرت کا انتخاب کرتے ہیں راہ حق کے ذریعے تو واقعی خدا کے ہاں ہم قبول کر لیے جاتے ہیں اور پھر خدا جس کی قیمت لگا لے، دنیا والے اس مقام کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔۔۔۔

اس کتاب کی خاص بات یہ کہ اس میں مدافعین حرم شہداء کا مقصد واضح کیا گیا ہے، جس سے مدافعین پہ لگائے گئے الزامات و جھوٹ سراسر بے بنیاد ثابت ہوئے ہیں، جس سے ثابت ہوا کہ *یہ شہداء منتخب شدہ لوگ تھے اور اپنے رستے و منزل سے آگاہ تھے، یہ شہادت کے متمنی تھے، یہ کربلائی تھے۔۔۔۔* اور شہداء کا مختصر تعارف بیان کرکے جو پیغام دیا گیا، وہ بہترین انداز میں دیا گیا ہے اور پھر داستان شہداء حرم اہلبیت (ع) کو بیان کیا گیا، جسے پڑھ کر اشک آنکھوں سے رواں ہوئے کہ ہم اپنی زندگیوں کو کس طرز پہ گزار رہے ہیں اور یہ جوان اپنی قربانیاں دے کر اپنے مقصد کو پا گئے ہیں اور ضمیر نے سوال کیے کیا ہم اپنا مقصد نہیں پا سکتے۔؟ کیا ہم راہ حق میں اپنا فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔؟؟ اگر انجام دے سکتے ہیں تو کیسے۔؟ اگر مدافعین میدان میں اپنا فرض انجام دے رہے ہیں تو ہمارا میدان کونسا ہے۔؟؟ جہاں ہم اپنا فریضہ انجام دے کر مولا صاحب العصر (ع) کے ظہور کی زمینہ سازی کرسکتے ہیں.
کیسے کہا جائے کہ عاشق ہیں ہم لوگ
جو عاشق مزاج تھے وہ قافلوں سے جا ملے


اس کتاب کا آخری حصہ جس میں الہیٍ وصیت ناموں کو لکھا گیا، بہترین ہے۔ جس میں ہر انسان کے لیے پیغامات چھپے ہیں، یہ وصیت نامے فقط شہداء کے خانوادوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہم سب کے لیے ہدایت کا چراغ ہیں۔۔۔۔ جس کی روشنی میں ہم اپنا رستہ متعین کرتے ہوئے اپنی منزل کی جانب گامزن ہوسکتے ہیں۔۔۔۔۔ پروردگار ہمیں توفیق دے کہ وادی شہداء میں قدم رکھتے ہوئے راہ حق پر گامزن رہیں، تاکہ مقصد حقیقی کی جانب متوجہ ہو کر منزل حقیقی کو پا سکیں۔۔۔ اور جنھوں نے اس کتاب کے لیے کوشیشیں کی اور زحمات اٹھائیں، پروردگار ان کی توفیقات میں اضافہ فرمائے، آمین بحق علی (ع)۔
سجاد کہہ رہے ہیں شہیدان راہ حق
ہم شاہ پہ مر گئے ہیں لیکن خیریت سے ہیں
خبر کا کوڈ : 896976
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Ali Haider
میں یہ کتاب "ہم تیرے عباس ہیں یا زینب" کہاں سے خرید سکتا ہوں؟ کیا یہ پی ڈی ایف میں مل سکتی ہے، رہنمائی فرمائیں شکریہ
ہماری پیشکش