QR CodeQR Code

اقبال، ایک نابغۂ روزگار(2)

11 Nov 2020 14:05

اسلام ٹائمز: زمیندار اخبار کے نام مذکورہ خط میں علامہ اقبال مزید لکھتے ہیں: ’’میں مسلمان ہوں، میرا عقیدہ ہے (اور یہ عقیدہ دلائل و براہین پر مبنی ہے) کہ انسانی سماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں: ’’موجودہ صورتِ حال میں روسیوں کا اقتصادی نصب العین خواہ کیسا ہی محمود کیوں نہ ہو، ان کے طریق عمل سے کسی مسلمان کو ہمدردی نہیں ہوسکتی۔ ہندوستان اور دیگر ممالک کے مسلمان جو یورپ کی پولیٹکل، اکانومی پڑھ کر مغربی خیالات سے فوراً متاثر ہو جاتے ہیں، ان کے لئے لازم ہے کہ اس زمانے میں قرآن کریم کی اقتصادی تعلیم پر نظر غائر ڈالیں، مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی مشکلات کا حل اس کتاب میں پائیں گے۔‘‘


تحریر: ثاقب اکبر

علامہ اقبال عالمی سطح کے ایک مفکر کی حیثیت سے تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اس دور کی عالمی حرکیات کو پہچانا، ان کی ماہیت کو سمجھا، سماج پر اس کے اثرات پر گہری نظر ڈالی اور انسانی معاشرہ مستقبل میں کس سمت کو اختیار کرے گا، کے بارے میں اپنی رائے پیش کی۔ انھوں نے جہاں مغربی تہذیب کا تجزیہ کیا اور اس کی اٹھان اور تشکل میں سرمایہ داری نظام کی کارفرمائی کا جائزہ لیا، وہاں اس کے ردعمل میں پیدا ہونے والی اشتراکیت کو بھی اپنا موضوع سخن بنایا۔ ان دونوں اقتصادی اور سماجی نظاموں، نیز ان کے تصور کائنات کا تجزیہ کرتے ہوئے انھوں نے اپنا نقطہ نظر بھی پیش کیا، جو یقینی طور پر ان کے فہم اسلام سے ماخوذ ہے۔ اس کے لیے ان کی فکر کا بنیادی ماخذ اور سرچشمہ قرآن حکیم ہے۔

23 جون 1923ء کو زمیندار اخبار میں اشتراکی مفکر شمس الدین حسن کا ایک مضمون شائع ہوا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال بالشویک خیالات رکھتے ہیں۔ علامہ اقبال کو اس کی اطلاع ملی تو انھوں نے ایک مضمون زمیندار اخبار میں چھپنے کے لیے روانہ کیا، جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’میں نے ابھی ایک دوست سے سنا ہے کہ کسی صاحب نے آپ کے اخبار میں یا کسی اور اخبار میں (میں نے اخبار ابھی تک نہیں دیکھا) میری طرف بالشویک خیالات منسوب کیے ہیں۔ چونکہ بالشویک خیالات رکھنا میرے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہو جانے کے مترادف ہے، اس واسطے اس تحریر کی تردید میرا فرض ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری کی قوت جب حد اعتدال سے تجاوز کر جائے تو دنیا کے لئے ایک قسم کی لعنت ہے، لیکن دنیا کو اس کے مضر اثرات سے نجات دلانے کا طریق یہ نہیں کہ معاشی نظام سے اس قوت کو خارج کر دیا جائے، جیسا کہ بالشویک تجویز کرتے ہیں۔ روسی بالشوزم یورپ کی ناعاقبت اندیش اور خود غرض سرمایہ داری کے خلاف ایک زبردست ردعمل ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ داری اور روسی بالشوزم دونوں افراط و تفریط کا نتیجہ ہیں۔‘‘ (خطوط اقبال، مرتبہ رفیع الدین ہاشمی، صفحہ 155۔ 156، اشاعت اول 1977)

اقبال نے اشتراکی نظام فکر کے بانی کارل مارکس کے نظریے پر ایک نظم میں بہت خوبصورتی سے تنقید کی ہے، جس کے ضمن میں ان کا اپنا نظریہ بھی سامنے آگیا ہے۔
صاحبِ سرمایہ از نسلِ خلیل
یعنی آں پیغمبرِ بے جبرئیل
زانکہ حق در باطل او مضمر است
قلبِ اُو مومن، دماغش کافر است
غربیاں گم کردہ اند افلاک را
در شکم جویند جانِ پاک را
رنگ و بُو از تن نگیرد جانِ پاک
جز بہ تن کارے ندارد اشتراک
دین آں پیغمبرِ حق ناشناس
بر مساوات شکم دارد اساس

ان اشعار کا مفہوم کچھ یوں ہے: حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ کی اولاد میں سے کتاب سرمایہ (داس کیپٹل) کا مصنف (کارل مارکس جو یہودی تھا) ایک ایسا شخص ہے جو پیغمبر تو ہے لیکن اس پر جبریل نہیں آتا، اس لیے کہ حق اس کے باطل میں مضمر ہے۔ اس کا دل تو مومن ہے لیکن اس کا دماغ کافر ہے۔ اہل مغرب نے افلاک کو کھو دیا ہے اور وہ انسان کی پاک روح کو شکم کے اندر تلاش کر رہے ہیں جبکہ انسان کی روح پاک جسم سے رنگ و بو حاصل نہیں کرتی۔ اشتراکیت کو انسانی بدن کے علاوہ کسی چیز سے کوئی سروکار نہیں۔ اس حق ناشناس پیغمبر کے دین کا دارومدار شکم کی مساوات پر ہے۔

زمیندار اخبار کے نام مذکورہ خط میں علامہ اقبال مزید لکھتے ہیں: ’’میں مسلمان ہوں، میرا عقیدہ ہے (اور یہ عقیدہ دلائل و براہین پر مبنی ہے) کہ انسانی سماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں: ’’موجودہ صورتِ حال میں روسیوں کا اقتصادی نصب العین خواہ کیسا ہی محمود کیوں نہ ہو، ان کے طریق عمل سے کسی مسلمان کو ہمدردی نہیں ہوسکتی۔ ہندوستان اور دیگر ممالک کے مسلمان جو یورپ کی پولیٹکل، اکانومی پڑھ کر مغربی خیالات سے فوراً متاثر ہو جاتے ہیں، ان کے لئے لازم ہے کہ اس زمانے میں قرآن کریم کی اقتصادی تعلیم پر نظر غائر ڈالیں، مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی مشکلات کا حل اس کتاب میں پائیں گے۔‘‘ علامہ اقبال روسی عوام کی مذہب کے ساتھ وابستگی کو بھی جانتے تھے اور اشتراکیت جو دہریت کی بنیاد پر انسانی معاشرے کے لیے بنایا گیا نظام تھا، اس کے روسی معاشرے پر اثرات بھی ان کی نظر میں تھے، لہٰذا انھوں نے روس کے مستقبل کے بارے میں متعدد مقامات پر پیش گوئی کی ہے۔

سر فرانسس ینگ ہسبینڈ کے نام انھوں نے ایک کھلا خط لکھا جو سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور کے شمارہ 30 جولائی 1931ء کو اشاعت پذیر ہوا۔ اس میں اقبال لکھتے ہیں: ’’میں ذاتی طور پر یہ تسلیم نہیں کرتا کہ روسی فطرتاً لا مذہب لوگ ہیں، اس کے برعکس میرا خیال ہے کہ ان کے زن و مرد قوی مذہبی رجحانات رکھتے ہیں۔ روسی ذہنیت کی موجودہ منفی کیفیت غیر معین مدت تک باقی نہیں رہ سکتی، کیونکہ کوئی نظامِ معاشرہ دہریت کی بنیاد پر نہیں رہ سکتا۔ جونہی اس ملک میں حالات سکون پذیر ہوں گے اور اس کے باشندوں کو ٹھنڈے دِل سے سوچنے کی فرصت ملے گی، وہ اپنے نظام کے لئے ایک مثبت احساس کی تلاش پر مجبور ہوں گے، کیونکہ بالشویزم مع خدا تقریباً اسلام کے مماثل ہے۔ مجھے تعجب نہ ہوگا اگر وقت گزرنے پر یا تو اسلام روس کو نگل لے یا روس اسلام کو۔‘‘

اس پیشگوئی کا ایک حصہ تو پورا ہوچکا ہے، البتہ ایک اور حصہ پورا ہونا ابھی باقی ہے۔ اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو موجودہ روس اسی طرف بڑھ رہا ہے، جس کی پیش گوئی دوسرے حصے میں موجود ہے۔ اس مقالے میں ہم نے مغربی تہذیب اور یورپی حکمرانوں کی فکر پر اقبال کا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ سرمایہ داری نظام کے بارے میں اقبال کے تاثرات کا کچھ حصہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ عالم مشرق کے حوالے سے ان کے موقف کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ سرمایہ داری نظام کے ردعمل میں اشتراکیت کے غلغلہ اور پھر اس کے انجام کے حوالے سے ان کی گفتگو بھی پیش کی گئی ہے۔ اسلام کی کلی روح اور اس کے مستقبل کے بارے میں بھی ایک مقام پر اپنا موقف انھوں نے صراحت سے بیان کیا ہے۔ اقبال کی فکر کے اور بھی بعض اہم پہلو بیان کرنے کی ضرورت ہے، جو اقبال کو ایک نابغہ روزگار ثابت کرتے ہیں۔ تاہم اس مقالے کو ہم اقبال کے اسلام کے حوالے سے جامع تصور پر تمام کرتے ہیں۔

انھوں نے 29 دسمبر 1930ء کے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ الہ آباد سے خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہا اس میں سے چند جملے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں: ’’اسلام انسانی وحدت کو روح اور مادہ کی ناقابلِ موافقت ثنویت میں تقسیم نہیں کرتا۔ اسلام میں خدا اور کائنات، روح اور مادہ، کلیسا اور ریاست، ایک دوسرے سے نامیاتی رشتوں میں مربوط ہیں۔ یورپ نے بلا تحقیق روح اور مادہ کی ثنویت کو قبول کر لیا۔ یہ خیال غالباً مانوی فکر سے یورپ میں در آیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس سے خطاب کرنے کے لئے آپ نے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا ہے، جو اسلام سے بحیثیت ایک ایسی زندہ قوت کے مایوس نہیں ہوا، جس میں انسانی زاویہ نگاہ کو اس کی جغرافیائی حد بندیوں سے آزاد کرنے کی اہلیت موجود ہے، جو یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ مذہب افراد اور ریاستوں کی زندگی میں انتہائی اہمیت کی قوت ہے اور آخر میں جو یہ یقین رکھتا ہے کہ اسلام خود تقدیر ہے اور کسی دیگر تقدیر کے تابع نہیں ہوسکتا۔ اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے تخلیق کردہ سماجی نظام سے ایک نامیاتی نسبت رکھتا ہے۔ ایک کے رد کرنے سے دوسرے کا استرداد بالآخر لازم آئے گا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 897222

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/897222/اقبال-ایک-نابغہ-روزگار-2

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org