1
0
Friday 13 Nov 2020 22:57

ہمارا معاشرہ شدت پسندی سے قتل انسانیت کی طرف

ہمارا معاشرہ شدت پسندی سے قتل انسانیت کی طرف
تحریر: شاہد عباس ہادی

شدت پسندی (Extremism) ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے ہمارے معاشرے میں امن و سکون قائم کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔ قبل اس سے کہ ہم شدت پسندی کے خاص مسائل پر بات کریں، ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ شدت پسندی کیا ہے؟ اور کیسے پیدا ہوتی ہے۔؟ شدت پسندی بنیادی طور پر انسانی رویہ یا ذہنی رجحان ہے۔ ہر وہ شخص یا گروہ جو طاقت کے ذریعے اپنے خیال یا ایجنڈے کا نفاذ (Enforced) چاہتا ہے اور دوسرے کی رائے بغیر کسی دلیل کے رد کرتا ہے، وہ شدت پسند ہے۔ ہر شدت پسند میں دو یکساں حالتیں پائی جاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ اس کے پاس علم (Education) کم اور معلومات (Information) زیادہ ہوتی ہے اور یہ معلومات بھی یکطرفہ ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہر شدت پسند اپنے نظریئے یا خیال کو حتمیت و قطعیت کے درجے پر رکھتا ہے۔ سوشل میڈیا پر اکثر ہم شدت پسندی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ایک انسان نے مکمل دلیل اور تاریخی حوالوں سے بات کی ہے، اس پر غور و فکر کی بجائے نیچے لکھا کافر، جہنمی، یہودی، قادیانی، استعماری ایجنٹ۔

وجہ صرف یہی یے کہ ہم لکیر کے فقیر ہیں، اپنی بوسیدہ اقدار و روایات کے مقابل علمی، منطقی اور تحقیقی دلائل کو متنازع بنا کر دفنا دیتے ہیں۔ وطن عزیز میں مفادات کے حصول کیلئے انتہاء پسندی، شدت پسندی اور عدم برداشت کے فروغ کیلئے مذہب کو ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اب مذہبی انتہاء پسندی نے قتل و غارت کی طرف کٹھن راستہ طے کر لیا ہے، اس لئے ہمارے ہاں مذہبی انتہاء پسندی کا آئے روز کوئی واقعہ رونما ہوا ہوتا ہے۔ کہیں توہین رسالت پر قتل تو کہیں توہین خلافت پر قتل، کہیں بچہ پستول ہاتھ میں لئے کفر و ایمان کے فیصلے کرتا نظر آتا ہے تو کہیں خوشاب میں بینک منیجر کا گارڈ ہی قاتل بن جاتا ہے اور پھر اسے بھی افسوسناک بات یہ ہے کہ اس قاتل کو غازی بنا دیا جاتا ہے، جو اپنے مفادات کیلئے کسی بے گناہ شخص کو قتل کرتا ہے۔ اگر آئے روز اس طرح کے واقعات کا سلسلہ چل پڑا تو ہر شخص اپنے مفادات کے حصول کیلئے توہین رسالت کے نام پر قتل کرتا نظر آئے گا اور پھر یہی قاتل سچا عاشق رسول کہلایا جائے گا۔

کیا رسول ختمی مرتبت صلى الله عليہ وآلہ وسلم کی تعلیمات یہی تھیں؟ کیا رسول (ص) نے انسانی جان کی قدر و قیمت کے بارے میں رہنمائی نہیں فرمائی؟ کیا دین اسلام یہی درس دیتا ہے کہ دین کے نام پر قتل کرتے جاؤ اور دین کے احکام چاہے عبادی ہوں یا عبودی و اخلاقی نظر انداز کر دو۔؟ معلم انسانیت حضرت محمد مصطفی (ص) نے امن و سلامتی کا درس دیا، تاکہ معلوم ہو کہ یہ دین سلامتی کا دین ہے۔ آپ (ص) نے دور جاہلیت کی درندگی و حیوانیت کو ختم کرکے انسانیت بتلائی جیسا کہ قرآن مجید میں انسانیت و سلامتی کی اعلیٰ مثال سورہ مائدہ آية 32 میں ہے: مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا "جس نے ایک انسان کو قتل کیا یا زمین میں فساد برپا کیا تو گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا اور اگر کسی نے ایک انسان کو زندگی دی گویا اس نے پوری انسانیت کو زندہ کیا۔"

آج کل وطن عزیز پاکستان میں رائج کیا جانے والا ایک نعرہ (گستاخ رسول کی ایک سزا، سر تن سے جدا) ہر گلی، ہر یونیورسٹی ہر کالج کی زینت بن چکا ہے۔ ہماری جان و مال، عزت، اولاد سب کچھ رسول خدا (ص) پر قربان، مگر یہ کہ رسول خدا (ص) کے نام پر کسی بے گناہ شخص کا قتل کرنا ہرگز جائز عمل نہیں اور نہ ہی خدا تعالی اور رسول خدا (ص) اس عمل پر راضی ہیں۔ اگر حقیقت میں کسی شخص نے گستاخی کی ہے تو اس کیلئے قانون موجود ہے، ادارے موجود ہیں، کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ رسول خدا (ص) کے نام پر سر عام قتل و غارت کرتا پھرے. حقیقت میں یہ نعرہ سراسر قرآن اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اس نعرے کا نہ صرف اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ انسانیت سے بھی اس کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ نعرہ لگانے والے لبرل لوگ ہیں، جو اسلام اور انسانیت کے مخالف ہیں۔ اسلام کی نظر میں جس نے ایک انسان کو قتل کیا، اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا، اسلام تو امن و سلامتی کا درس دیتا ہے، ایسی متشدد اور انتہاء پسندانہ سوچ دین اسلام میں نہیں ہوسکتی۔

"گستاخی" کے الزام پر کسی انسان کی جان لینا ہرگز درست عمل نہیں، یہ ظلم ہے اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ توہین کے الزام کے تحت مارے جانے والے بے گناہ افراد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے جنونی قاتلوں کو فوری نشان عبرت بنائے۔ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ بتائیں کہ کسی بے گناہ کی جان لینے والا قاتل، دہشتگرد اور جہنمی ہے، وہ عاشق رسول ہرگز نہیں ہے۔  اگر یوں "--- سر تن سے جدا" کا سلسلہ چل پڑا تو مسلمانوں کے بعض مسالک کو بعض دیگر نے "گستاخ" قرار دیا ہوا ہے، کیا ان سب کو قتل کیا جائے گا؟ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، اگر اسے پہلو تہی کر لی جائے تو ملک میں فسادات اور قتل و غارت کا بازار گرم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے کو شدت پسندی سے قتل و غارت کی طرف اس کٹھن راستے کا تدارک نہایت ضروری ہے۔

اس کے لئے سب سے بہترین راہ حل یہی ہے قرآنی تعلیمات پر عمل کیا جائے اور معلم انسانیت (ص) نے جو اخلاق اسلامی بتلائے ہیں، ان کا احیاء کیا جائے، تاکہ اتحاد و محبت کی فضاء پیدا ہو کیونکہ اتحاد و محبت نہ صرف انسانیت کی عزت و تکریم کرنا سکھاتی ہے بلکہ اتحاد و محبت فاتح عالَم ہے اور رمز مسلمانی بھی یہی ہے۔ اس لئے علامہ اقبال (رہ) فرماتے ہیں۔
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی ہے
اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی

معاشرے میں محبت کی فراوانی کی ضرورت ہے، کیونکہ محبت فاتح عالَم ہے۔ محبت فاتح عالَم کی فتح مکہ سے بہتر کیا مثال ہوسکتی ہے، جس میں رسالت مآب (ص) نے اپنے سارے دشمنوں کو معاف کر دیا اور خون کا ایک قطرہ تک نہ بہا، ہمارے معاشرے کو بھی ایسے کردار کی ضرورت ہے۔
نوٹ: ادارہ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
خبر کا کوڈ : 897640
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عدنان حیدر
United Arab Emirates
ھادی صاحب نے بالکل درست کہا ھمیں سب سے اچھے اخلاق اور محبت سے پیش آنا چاھیئے۔
ہماری پیشکش