QR CodeQR Code

لائن آف کنٹرول پر آگ و آہن کی برسات

20 Nov 2020 22:06

اسلام ٹائمز: اعداد و شمار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ سرحدوں پر دہشت کی حکمرانی ہے اور ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ بھارت و پاکستان کی اس کشیدگی کا خمیازہ منقسم جموں و کشمیر کے عوام کو ہی بھگتنا پڑ رہا ہے اور ایل او سی کے دونوں جانب عام لوگ اس کشیدگی میں توپ کی رسد بن رہے ہیں۔ منقسم جموں کشمیر کے بیچوں بیچ کھچی لائن آف کنٹرول یا حد متارکہ کا شمار دنیا کی حساس ترین سرحدوں میں ہوتا ہے اور اسکے بارے میں حقائق سے پتہ چلتا ہیکہ یہ اپنے قیام سے ہی انسانوں کو اپنا نوالہ بناتی رہی ہے اور یوں اگر کسی کو امن کی سب سے زیادہ ضرورت ہے تو وہ جموں و کشمیر کے عوام ہی ہیں۔


رپورٹ: جے اے رضوی

پلوامہ حملہ کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کسی سے پوشیدہ نہیں تھی اور پہلے دن سے خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے کہ یہ کشیدگی کوئی بھی کروٹ لے سکتی ہے۔ فی الوقت یہ کشیدگی منقسم جموں و کشمیر کی سرحدوں پر آگ اُگل رہی ہے۔ اس جنگی صورتحال کے بیچ منقسم جموں و کشمیر کی سرحدوں پر جو کچھ ہوا، یا ہو رہا ہے وہ نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ غور و فکر کی دعوت دے رہا ہے۔ کپوارہ اور گریز سے لیکر پونچھ تک لائن آف کنٹرول پر جنگ جیسی صورتحال ہے۔ دونوں جانب سے آتشیں گولہ باری تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ ایک ہفتہ قبل سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کے نتیجہ میں لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کم از کم 16 کے قریب اموات واقع ہوئیں اور 3 درجن کے قریب زخمی ہوگئے، نیز درجنوں رہائشی مکانات راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے جبکہ ایک وسیع سرحدی آبادی جان کی امان پانے کے لئے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔

آگاہ حلقوں کے مطابق سرحدی گولہ باری کے اس نہ تھمنے والے سلسلہ کی وجہ سے درجنوں دیہات متاثر ہوچکے ہیں اور اشتعال انگیزی کا یہ عالم ہے کہ دونوں جانب سے ہلکے ہتھیاروں کے علاوہ 120 ایم ایم اور 180 ایم ایم مارٹر گولے بھی داغے جا رہے ہیں۔ ایک طرف امن اور مفاہمت کی باتیں کی جا رہی ہیں جبکہ دوسری جانب سرحدوں پر لگی توپیں آگ اگلنا بند نہیں کر رہی ہیں اور کشمیر سے کٹھوعہ تک لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد پر وقفہ وقفہ سے دونوں ملکوں کے درمیان گولہ باری جاری ہے۔ سرحدوں پر کشیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارتی دعوؤں کے مطابق پاکستانی افواج نے سال رفتہ یعنی 2019ء میں 3500 دفعہ جنگ بندی معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہے، جن میں 61 افراد ہلاک جبکہ 250 کے قریب زخمی ہوگئے جبکہ پاکستانی حکام کے مطابق اسی عرصہ کے دوران بھارت کی جانب سے 5 ہزار سے زائد بار ایسی خلاف ورزی کی جا چکی ہیں، جن کے نتیجہ میں 27 افراد ہلاک جبکہ 163 سے زیادہ لوگ زخمی ہوچکے ہیں۔

صورتحال کی سنگینی کا یہ عالم ہے کہ 2003ء کے سیز فائر معاہدہ کے بعد 2020ء کو اس معاہدہ کی خلاف ورزیوں کے لئے سب سے بدترین سال قرار دیا گیا تھا اور 2018ء کی نسبت 2019ء میں جنگ بندی معاہدہ کی خلاف ورزیوں کے واقعات میں 3 گنا اضافہ ہوا جبکہ گذشتہ تین برسوں کے دوران اس میں مجموعی طور 6 گنا اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار خود بتا رہے ہیں کہ سرحدوں کی صورتحال قطعی صحیح نہیں ہے اور یہ ایک طرح کی جنگ ہے، جو دونوں جانب سے جاری ہے اور دونوں فریق ایک دوسرے کو اس کے لئے مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ ایک زمانہ ایسا تھا جب سرحدوں پر جنگ بندی معاہدہ کی خلاف ورزی کا ایک بھی واقعہ پیش نہیں آتا تھا۔ 26 نومبر 2003ء کو جنگ بندی معاہدہ عمل میں آیا تو اس کے بعد مسلسل تین برسوں تک سرحدوں پر بندوقیں خاموش رہیں اور 2004ء، 2005ء اور 2006ء میں ایک بھی خلاف ورزی کا واقعہ پیش نہ آیا۔

یہ وہ دور تھا جب اٹل بہاری واجپائی اور پرویز مشرف کے درمیان مذاکراتی عمل اپنی انتہاء پر تھا اور یہی وہ دور ہے جب بھارت لائن آف کنٹرول پر تار بندی کرنے میں کامیاب بھی ہوا، تاہم 2006ء سے حالات بدلنا شروع ہوگئے اور سرحدوں کا سکون قائم نہ رہ سکا۔ 2006ء میں تین دفعہ جبکہ 2007ء میں 21 اور 2008ء میں 77 دفعہ اس معاہدہ کی دھجیاں بکھیر دی گئیں، تاہم بعد ازاں اس میں پھر قدرے کمی ہوئی اور 2009ء میں یہ تعداد 28 تک پہنچ گئی لیکن پھر گراف بڑھنے لگا اور 2010ء میں 44 جبکہ 2011ء میں 62، 2012ء میں 114 اور 2013ء میں 347 دفعہ سیز فائر معاہدہ کی خلاف ورزیاں ہوئیں۔ بھارت و پاکستان تعلقات میں کشیدگی کا گراف جوں جوں بڑھتا گیا، سرحدی کشیدگی بھی بڑھتی گئی اور 2014ء میں لائن آف کنٹرول پر سیز فائر معاہدے کی تعداد 583 اور 2015ء میں 405 تک پہنچ گئی۔ 2014ء کے بعد سے سرحدیں عملی طور آگ برسا رہی ہیں اور آہنی گولہ باری ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔

2016ء میں دونوں ملکوں کی اس گولہ باری کے 500 سے زیادہ واقعات پیش آئے جبکہ 2017ء میںیہ تعداد 971 تک پہنچ گئی اور 2018ء میں کشیدگی کی اُس وقت حد ہی ہوگئی جب یہ تعداد 3 ہزار تک پہنچ گئی جبکہ 2019ء میں 3500 واقعات پیش آئے ہیں اور امسال تو تمام حدیں پار کی جا رہی ہیں۔ سال رفتہ کے اعداد و شمار کے مطابق روزانہ اوسطاً 10 بار سرحدوں پر گولہ باری ہوئی ہے جبکہ سال جاری میں اب سرحدیں خاموش ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں اور دونوں جانب سے سے مسلسل آگ برسائی جا رہی ہے۔ یہ اعداد و شمار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ سرحدوں پر دہشت کی حکمرانی ہے اور ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ بھارت و پاکستان کی اس کشیدگی کا خمیازہ منقسم جموں و کشمیر کے عوام کو ہی بھگتنا پڑرہا ہے اور ایل او سی کے دونوں جانب عام لوگ اس کشیدگی میں توپ کی رسد بن رہے ہیں۔

منقسم جموں کشمیر کے بیچوں بیچ کھچی لائن آف کنٹرول یا حد متارکہ کا شمار دنیا کی حساس ترین سرحدوں میں ہوتا ہے اور اس کے بارے میں حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اپنے قیام سے ہی انسانوں کو اپنا نوالہ بناتی رہی ہے اور یوں اگر کسی کو امن کی سب سے زیادہ ضرورت ہے تو وہ جموں و کشمیر کے عوام ہی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کشمیری عوام سب سے زیادہ امن کی وکالت کر رہے ہیں، لیکن اب یہ ثابت ہوچکا ہے کہ سرحدی سکوت بھارت و پاکستان تعلقات میں گرمجوشی سے مشروط ہے۔ اس لئے کم از کم عوام پر ترس کھا کر بھارت و پاکستان کی قیادت کو چاہیئے کہ وہ امن کی طرف لوٹ آئیں، تاکہ کشمیری عوام کو راحت کے چند پل میسر آسکیں اور اگر امن لوٹ آتا ہے تو مسائل کے حل کی راہ بھی خود بخود نکل آئے گی۔


خبر کا کوڈ: 898160

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/898160/لائن-ا-ف-کنٹرول-پر-ا-گ-ا-ہن-کی-برسات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org