QR CodeQR Code

خادم رضوی بار بار کیا لینے آتے ہیں؟

16 Nov 2020 16:48

اسلام ٹائمز: ختم نبوت، شان رسالت، دشمنان نبی اکرمﷺ سے بیزاری اور آپﷺ کے ذکر کی محافل ہمارے ایمان کا حصہ ہیں۔ ان مقدس نعروں کو استعمال کرکے اپنے خود ساختہ مطالبات کیلئے لمبے عرصے تک گزرگاہوں کو بند رکھنا اور ریاستی اداروں کیخلاف انتہائی سخت زبان استعمال کرنا درست رویہ نہیں ہے۔ ہر گستاخ کا آپ نے ہی سر قلم کرنا ہے تو عدالتیں بند کر دیتے ہیں؟ آپ ہی فیصلے کریں۔ جیسے قائد آباد کے واقعہ میں سکیورٹی گارڈ نے بنک مینجر کو قتل کر دیا، یا جیسے چنیوٹ میں تبلیغی جماعت کے لوگوں کو مار دیا گیا۔


تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

چند سال پہلے ایک تقریب کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائرل ہوئی، اس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ تحریک لبیک کے موجودہ سربراہ خادم رضوی صاحب خطاب فرما رہے ہیں اور ایک شخص ان کی کرسی کو انتہائی عقیدت سے چوم رہا ہے۔ اس وقت ہی بہت سے لوگوں کو لگا کہ بڑھتی ہوئی اندھی عقیدت اور رضوی صاحب کا ترش رویہ پاکستان کے صوفی نظریہ رکھنے والوں کی اکثریت کو تشدد کی طرف مائل کر سکتا ہے۔ نواز شریف دور میں جب یہ پہلی بار فیض آباد آئے اور ایک لمبا عرصہ وہاں مقیم رہے تو پاکستان کی مقتدر اشرافیہ اور حکومت کے درمیان اختلافات عروج پر تھے۔ اشرافیہ یہ چاہتی تھی کہ حکومت کو اس کے ذریعے زچ کیا جائے، اسی لیے  مذاکرات میں کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ جب حکومت نے سول اداروں کے ذریعے کارروائی کی تو مشکوک جوابی ردعمل میں پولیس کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اسلام آباد ہائیکوٹ کے فیصلے نے اس وقت کے تمام کھلاڑیوں کے کردار کو تفصیل سے واضح کیا ہے۔ اس سے اور کچھ ہو، نہ ہو، محترم خادم رضوی صاحب کو یہ پتہ چل گیا کہ ریاست کی کمزور رگ کونسی ہے اور اسے کس طرح اپنے حق میں استعمال کرنا ہے۔؟

2018ء کے الیکشن میں تحریکِ لبیک نے حیران کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور مجموعی طور پر 22 لاکھ ووٹ حاصل کیے۔ صوبہ پنجاب میں ان کے ووٹوں کی تعداد 18 لاکھ کے لگ بھگ رہی۔ صوبہ سندھ سے ان کی جماعت نے 4 لاکھ سے زائد ووٹ اور ان کے دو امیدوار سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ قومی اسمبلی کے لیاری کے حلقے سے تحریک لبیک کے امیدوار نے پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے  زیادہ ووٹ لیے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے فقط دہی پنجاب میں ہی نہیں شہری علاقوں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ ووٹوں کی یہ تعداد متحدہ مجلس عمل کے مجموعی ووٹوں سے زیادہ ہے، جس میں اکثر بڑی مذہبی جماعتیں شامل ہیں۔ ختم نبوت کے جذباتی نعرے، ممتاز قادری کو غازی علم دین شہید قرار دینے اور ان کا وارث بننے کے دعوے کے جذباتی نعرے سے مذہبی ووٹر کی بڑی تعداد کو متاثر کرنے میں کامیاب رہی۔ خود اگرچہ نہ جیتی مگر پنجاب میں کئی جماعتوں کو ہرانے میں اس نے بنیادی کردار ادا کیا۔

رضوی صاحب گرفتار ہوئے تو بہت سے لوگوں نے خوشیاں منائیں اور کہا کہ اب ان کا سافٹ وئیر اپڈیٹ ہوگیا ہے اور اب وہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گے، جس سے تناو کی کیفیت پیدا ہو۔ یہ سب خواب و خیال ہی ثابت ہوا اور وہ اسی سج دھج کے ساتھ میدان میں موجود ہیں۔ ان کی آواز میں وہی للکار ہے، ان کے الفاظ میں وہی کاٹ ہے اور ان کی آنکھوں میں وہی خون ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ کل کے سرد موسم اور بارش کے برسنے سے تحریک کے کارکن جمع ہوں گے، نعرے لگائیں گے اور چلے جائیں گے مگر ایسا نہ ہوا۔ تحریک کے کارکن ساری رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے فیص آباد پہنچے اور جہاں وہ چاہتے تھے، وہاں پر ہی آکر رکے۔ راولپنڈی کی مٹی ہی ایسی ہے، یہاں نبی اکرمﷺ سے عشق کی فضا موجود ہے۔ لوگ نبی اکرمﷺ کے فداکار ہیں اور ان کے اس جذبے میں شک نہیں، کوئی اسے کیسے استعمال کرتا ہے، یہ الگ بات ہے، اس کی تاریخی بنیادیں موجود ہیں۔

موجودہ زمانے میں بارہ ربیع الاول کے جلوس پورے برصغیر کی پہچان بن چکے ہیں، جن میں کروڑوں لوگ شریک ہوتے ہیں، ان کا آغاز بھی راولپنڈی سے ہوا۔ معروف صحافی سجاد اظہر کی تحقیق کے مطابق راولپنڈی کے فسادات سے پہلے برصغیر میں میلاد کے جلوس نہیں نکلتے تھے۔ جب ڈپٹی کمشنر نے جامع مسجد کے فسادات پر کشیدگی کم کرنے کے لیے ہندو، سکھ اور مسلمان رہنماؤں کا اجلاس بلایا تو وہاں فیصلہ ہوا کہ جس طرح ہندو سکھ اپنے اپنے تہواروں کو منانے کی غرض سے مسجد کے سامنے سے گزرتے ہیں، اسی طرح مسلمان بھی جلوس نکالیں اور ہندؤوں اور سکھوں کے مندروں اور گوردواروں کے سامنے سے گزریں۔ اسی فیصلے کے بعد 1927ء کی 12 ربیع الاوّل کو عید میلاد کا پہلا جلوس راولپنڈی میں نکالا گیا، جس میں پورے پنجاب سے دس لاکھ مسلمانوں نے شرکت کی۔ اس کے بعد یہ روایت پورے برصغیر میں شروع ہوگئی۔ اس زمانے میں دس لاکھ لوگوں کا اجتماع یقیناً تاریخی اجتماع ہوگا، جس کی میزبانی راولپنڈی کے اہل عشق و عقیدت نے کی۔

آسیہ مسیح کو مقامی عدالت سے لے کر ہائیکورٹ تک نے سزائے موت دی، تحریک لبیک نے آواز اٹھائی کہ اسے سزائے موت دی جائے۔ مگر سپریم کورٹ نے اسے بری کر دیا اور رہائی کے بعد کچھ عرصہ تک وہ محفوظ مقام پر رہی اور ایک دن یہ خبر آئی کہ وہ فرانس پہنچ گئی ہے۔ آسیہ مسیح کی رہائی اور اس کو فرانس کی طرف سے ملنے والے پروٹوکول نے جہاں دیگر کئی اثرات مرتب کیے، وہیں تحریک لبیک کی خود ساختہ خوداری کو بھی زچ کیا، کیونکہ یہ جماعت چاہتی تھی کہ اسے ہر حال میں پھانسی پر لٹکایا جائے۔ کچھ عرصے سے فرانس میں نبی اکرمﷺ کے توہین آمیز خاکے بنائے جا رہے ہیں، کچھ لوگوں نے اس کے خلاف پرتشدد ردعمل دیا۔ اس پر فرانسیسی صدر سیخ پا ہو کر اسلام اور نبی اکرمﷺ کی توہین کرنے والوں کے دفاع کے لیے سامنے آئے۔ دنیا بھر کی آزاد قوموں نے اسے قبول نہیں کیا۔ یہ درست ہے کہ قتل و غارت کی اجازت نہیں دی جا سکتی، مگر یہ بھی درست ہے کہ آزادی اظہار کے نام پر مقدسات کی توہین کی بھی اجازت نہیں۔

اگر توہین ہوگی تو اس کا شدید ردعمل ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ریاستی سرپرستی میں کسی بھی طور پر مقدسات کی توہین نہ ہو اور ادب و احترام سے معاملات چلائے جانے چاہیئں۔ ان سب عوامل نے پاکستان میں عوامی رائے عامہ کو فرانس کے خلاف کر دیا۔ اس لیے اب رضوی صاحب میدان میں آئے ہیں کہ فرانس سے ہر قسم کے سفارتی تعلقات کو منقطع کیا جائے، اپنا سفیر واپس بلایا جائے اور ان کے سفیر کو واپس بھیجا جائے۔ سفارتی تعلقات کا انقطاع مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ یہ تعلقات ضروری ہوتے ہیں، تاکہ ان کے ذریعے اسلام مخالف حکومتوں پر دباو رکھا جا سکے۔ ہم فرانس کے اقدامات کے شدید خلاف ہیں اور ان کی مذمت کرتے ہیں اور عدالتی نظام کی بھی اصلاح کے حق میں ہیں۔ مگر یہاں نعرہ ختم نبوت اور تحفظ شان رسالت کا لگا کر جو مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور جو طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے، اس کے خلاف ہیں۔ اس طرح کا طرز عمل لوگوں کو اسلام سے دور کرکے سیکولرازم کی طرف لے جائے گا، جو کسی بھی طور پر مطلوب نہیں ہے۔

رضوی صاحب فرقہ ورانہ ذہن رکھتے ہیں، چند دن پہلے بھی اہل حدیث کی مسجد سے آنے والی اذان کی آواز پر ان کا ردعمل انتہائی فرقہ وارانہ ذہن کی عکاسی کرتا تھا۔ جو کسی بھی دوسرے مسلمان کا احترام کرنے سے عاری ہے اور اذان تو جو بھی دے رہا ہو، وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی حقانیت کی گواہی ہے۔ ان کا یہ پہلو  معاشرے کے لیے بہت خطرناک ہے۔ ان کے لوگ  لاہور کی ایک اہلحدیث مسجد پر باقاعدہ حملہ آور ہو کر نقصان پہنچا چکے ہیں۔ ان کی یہ فرقہ واریت ہی ان کو مین سٹریم قابل قبول مذہبی جماعت بننے میں مانع ہے۔ ختم نبوت، شان رسالت، دشمنان نبی اکرمﷺ سے بیزاری اور آپﷺ کے ذکر کی محافل ہمارے ایمان کا حصہ ہیں۔ ان مقدس نعروں کو استعمال کرکے اپنے خود ساختہ مطالبات کے لیے لمبے عرصے تک گزرگاہوں کو بند رکھنا اور ریاستی اداروں کے خلاف انتہائی سخت زبان استعمال کرنا درست رویہ نہیں ہے۔

ہر گستاخ کا آپ نے ہی سر قلم کرنا ہے تو عدالتیں بند کر دیتے ہیں؟ آپ ہی فیصلے کریں۔ جیسے قائد آباد کے واقعہ میں سکیورٹی گارڈ نے بنک مینجر کو قتل کر دیا، یا جیسے چنیوٹ میں تبلیغی جماعت کے لوگوں کو مار دیا گیا۔ خادم رضوی صاحب کے کارکن عین اسی جگہ براجماں ہوچکے ہیں، جہاں وہ نواز شریف کے دور میں براجماں ہوئے تھے۔ اس وقت انہیں آکسیجن فراہم کرکے قوت فراہم کی گئی۔ آج وہ اسی قوت کے بل بوتے پر آپ کے مقابل ہیں، جب بھی ایسے گروہ پیدا کیے جاتے ہیں تو وہ کسی نہ کسی روز خود سر ہو کر وبال جان بن ہی جاتے ہیں۔ جمیل مظہری نے کیا خوبصورت کہا تھا:
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی


خبر کا کوڈ: 898171

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/898171/خادم-رضوی-بار-کیا-لینے-ا-تے-ہیں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org