0
Monday 16 Nov 2020 11:52

مجھے جینے دو!

مجھے جینے دو!
تحریر: سویرا بتول

بیٹیاں رب کا عظیم تحفہ ہیں۔ اب وہ دور گیا، جب بیٹیوں کی پیدائش پر ناگواری کا اظہار کیا جاتا تھا۔ جب خدا کسی شخص کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہے تو اُس کے ہاں پہلی پیدائش بیٹی کی ہوتی ہے۔ اسلام نے عورت کو معاشرے میں واقعی حیثیت دی اور اسے عزت و توقیر بخشی۔ اسلام نے تعلیم کے حصول کو مرد کے ساتھ ساتھ عورت کے لیے بھی لازم قرار دیا۔ اپنے اپنے دائرہ کار میں الگ الگ۔۔ عورت تعلیم بھی حاصل کرے اور اس تعلیم کو اپنی اور دوسروں کی فلاح کا ذریعہ بنائے۔ مگر جس سماج میں ننھی کلیاں بے دردی سے مسلی جائیں، وہاں والدین اپنی بچیوں کو جامعات بھیجنے سے ڈرتے ہیں۔

ایک جنگ میں نبی کریمﷺ کے سامنے طے قبیلہ کی ایک لڑکی قید ہو کر آئی۔ اس کے پاؤں میں زنجیر تھی اور وہ بے پردہ تھی۔ آپﷺ نے جب اُس لڑکی کو بے پردہ دیکھا تو آگے بڑھ کر اپنی چادر مبارک سے اس کے چہرہ کو ڈھانپ دیا۔ کیونکہ بیٹی کسی بھی قوم کی ہو قابلِ تکریم ہے۔ بقول شاعر:
بیٹیاں ہر قوم کی صدق و صفا کے پھول ہیں
ہم نشین ماہ پرویں ہیں، حیا کے پھول ہیں

بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں، لگتا ہے یہ پرانے وقتوں کی باتیں ہیں، جب دوسروں کی بہو، بیٹیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، حتی کہ اگر دشمن کی بیٹی بھی دروازے پر آجاتی تو بڑی بڑی لڑائیاں ختم کر دی جاتی تھیں۔ مگر اب میری بیٹی صرف میری بیٹی ہے، کسی اور کے لیے وہ گوشت کی دکان ہے۔ جس کو ہر کوئی للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا ہے اور جیسے ہی موقع ملتا ہے، اُس کو نوچ کر، اپنی بھوک مٹا کر، کاٹ کر پھنیک دیتا ہے۔ کب کون کسے اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا دے، نہیں معلوم۔

حالیہ دنوں میں علیشا زیادتی کیس نے ہر باضمیر شخص کو اندر تک ہلا کر رکھ دیا۔ یہ کوئی پہلا کیس نہیں گذشتہ پانچ برسوں میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 22 ہزار واقعات درج ہوئے، جس میں سے فقط 0.3 فی صد کیسز میں ملزمان کو سزا ملی۔ اول تو ایسے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور اگر بدقسمتی سے رپورٹ ہو بھی جائیں تو ہماری عدالتی اداروں کی نااہلی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ننھے کپڑوں میں فحاشی تھی یا سماج کی آنکھ میں فحاشی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اوسطاً روزانہ تقریباً سات بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔ بعض اوقات ایسے بچے بچیوں کو قتل بھی کر دیا جاتا ہے، مگر آج بھی ہمارے معاشرے میں اس موضوع کو زیر بحث لانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔

"اگر میں اپنے بچے کے ساتھ جنسی زیادتی اور اسے قتل کرنے والے مجرم کو جلا کر اس کا جسم خاک بھی بنا ڈالوں، تو بھی میری روح کو سکون نہیں ملے گا۔ میں اسے کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی۔" یہ کہنا تھا گذشتہ برس ایک آٹھ سالہ بچے کی والدہ کا۔ اس خاتون کے بیٹے کو پہلے ریپ کیا گیا تھا اور پھر اسے قتل بھی کر دیا گیا۔ کسی بچے کی موت اس کے والدین کے لیے یقینی طور پر بہت بڑا المیہ ہوتا ہے، لیکن ان والدین کو کیسے سکون آئے، جن کے معصوم سے بیٹے بیٹیوں کے ساتھ مجرم پہلے جنسی زیادتیاں کرتے ہیں اور پھر انہیں قتل بھی کر دیتے ہیں۔ دو سال قبل پنجاب کے شہر قصور میں چھ سالہ زینب کے اغوا، جنسی زیادتی اور قتل کے بعد زینب الرٹ بل منظور کیا گیا، جو کسی اور کو کیا انصاف دلا پاتا، خود اُس علاقے کے بچوں کو انصاف نہ دلا سکا۔

کسی بھی جنسی حملہ کا نشانہ بننے والا انسان شدید ذہنی جسمانی اور جذباتی دباؤ سے گزرتا ہے اور اگر بر وقت نفسیاتی مشاورت نہ کی جائے تو سال ہا سال اس کے اثرات ختم نہیں ہوتے اور شخصیت پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے حوس کے پجاریوں اور درندوں کو عبرت کا نشان بنانے کی بجائے جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا جاتا ہے۔ جو یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمارا عدلیہ کا نظام کس قدر پست ہے۔ عدل کی ضد ظلم ہے۔ عدل کے قیام کے ذریعے ظلم سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ غیر منصفانہ نظام اس قسم کی معاشرتی برائیوں کو ہوا دیتا ہے۔ وہ معاشرے جہاں انصاف کی عدم دستیابی ہے، وہاں اس طرح کی واقعات روز ہوتے رہیں گے اور کچھ دنوں کے واویلا کے بعد باسانی دبا دیئے جائیں گے۔ بقول امام علیؑ: "کفر کی حکومت تو چل سکتی ہے ظلم کی نہیں۔" ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے درندہ صفت حیوانوں کو عبرت کا نشان بنایا جائے۔
خبر کا کوڈ : 898173
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش