QR CodeQR Code

جامعۃ المصطفی العالمیہ پاکستان کے زیراہتمام

علامہ قاضی نیاز نقوی ؒ کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے آن لائن بین الاقوامی تعزیتی ریفرنس کا انعقاد

18 Nov 2020 15:37

اسلام ٹائمز: مولانا انیس الحسنین خان نے سب سے تعزیت پیش کی اور کہا کہ قاضی نیاز حسین مرحومؒ معزز خدمت گزار اور ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے، حوزہائے علمیہ میں آپکی کمی کو شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے اور انکے خلا کو پر نہیں کیا جا سکتا۔ آپ علمی شخصیت کے مالک تھے۔ دینی مدارس، وفاق المدارس اور تنظیمات المدارس میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ مختلف فورمز پر نمائندگی کرتے تھے، تقریب مذاہب کے مختلف پلیٹ فارمز میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ مدارس کی تاسیس میں محسن ملت کی تحریک کو آگے بڑھایا۔ تشیع کے مختلف گروہوں کے درمیان انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ انہوں نے کہا انکی گراں قدر تعلیمی و رفاہی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔


رپورٹ: جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ پاکستان

جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ پاکستان کے زیراہتمام علامہ قاضی نیاز حسین نقوی مرحومؒ  کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے آن لائن بین الاقوامی تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس ریفرنس سے نو ممالک کے علمائے کرام نے خطاب فرمایا اور قاضی نیاز حسین نقویؒ کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ اس تعزیتی ریفرنس کا آغاز تلاوت کلام مجید سے ہوا، جس کی سعادت قاری پاکستان قاری وجاہت رضا نے حاصل کی۔ تلاوت کے بعد خطبات کا سلسلہ شروع ہوا۔

آیۃ اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے فرمایا کہ قاضی صاحب بچپن سے ہی ذہین اور سمجھدار تھے، نو سال کی عمر میں جامعہ میں داخل ہوئے۔ پڑھائی میں بہت اچھے تھے، ہم نے انہیں کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔ میں نے خود انہیں قرآن پڑھایا، چھ سات دنوں کے بعد ہی مجھے سنانے لگے۔ مولانا سید یار شاہ نقوی ؒ  کے مدرسہ میں رہے۔ میری واپسی پر منتظر آئے، یہ ہمیشہ اپنی جماعت اور مدرسہ میں پہلی پوزیشن لیتے تھے۔ چیچہ وطنی مدرسے میں رہے، جتنی مدت رہے مدرسہ سے تنخواہ نہیں لی، جاتے ہوئے سارا سامان مدرسہ دے کر آئے۔ دوسروں کے فائدے کو دیکھتے تھے، اپنے فائدے کو نہیں دیکھتے تھے۔ شاہ کے زمانے میں پڑھنے کے لیے قم چلے گئے، بہت بہادر تھے، دوسرے طالب علموں کو بھی حوصلہ دیتے تھے۔ قضا کا کورس کیا اور انقلاب کے بعد ابتدائی زمانے میں ہی قاضی مقرر ہوئے۔ مشکل ترین حالات میں قضاوت کی، کبھی بھی ان کی شکایت نہیں ہوئی۔ قم جیسے صوبے کے قاضی رہے، ہمیشہ شریعت کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ محسن ملت مولانا صفدر  حسین نجفی فرمایا کرتا تھے کہ یہ نقوی ہمارے خاندان کا فخر ہے۔ رہبر معظم نے فرمایا کہ آقای نقوی افتخار ما است۔

مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی  نے فرمایا کہ قاضی صاحب کی وفات سے قوم و ملت اور علمی حلقوں میں جو خلا پیدا ہوا ہے، وہ ناقابل جبران ہے۔ آپ قومی ملی مسائل میں مکتب کی نمائندگی کرتے تھے۔ ہمارے مرکزی حوزہ، حوزہ علمیہ جامعۃ المنتظر میں تقدیر ساز کردار ادار کرتے تھے۔ قومی مسائل میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ ہمیں جامعۃ المنتظر پر فخر ہے۔ ہمارا تشخص اس مرکز سے ہے، یہ مرکز پاکستانی معاشرے میں جانا جاتا ہے۔ مسائل میں آپ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ وہ ہماری نمائندگی کرتے تھے، مطالبات پیش کرنے میں بھی آپ آگے ہوتے تھے۔ انتظامیہ کے سامنے اور بین المسالک علمی فضا میں آپ کا ایک مقام تھا۔ ہم حضرت آیت اللہ سید ریاض حسین نجفی کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہیں۔ پوری قوم متاثر ہوئی ہے، کیونکہ جامعہ قوم کا مرکز ہے، مرکز کے متاثر ہونے سے قوم متاثر ہوتی ہے۔

مولانا ڈاکٹر ابولخیز زبیر نے کہا کہ ہم ان کی کمی شدت سے محسوس کر رہے ہیں، بالخصوص ملی یکجہتی کونسل کے اہم قائدین میں سے تھے، ان کے مشورے اہمیت کے حامل ہوتے تھے، سلجھی ہوئی وقیع گفتگو کرتے تھے۔ ایسا کیوں نہ ہو، لمبا عرصہ ایران میں قاضی رہے ہوں اور رہبر اعلیٰ آنے کی اجازت نہ دیتے ہوں۔ اہم مسائل میں رائے دیتے اور مسائل کو حل کیا کرتے تھے۔ ملی یکجہتی کونسل کا ضابطہ اخلاق ملک کے اندر فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کی جائے، دشمن فرقہ ورایت کی آگ بھڑکانا چاہتے تھے، اس نصب العین کے حصول کے لیے مشکلات کا سامنا ہے۔ دشمن پیسہ لگا رہا ہے، وسائل لگا رہا ہے، علامہ قاضی  صاحب کا کردار سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ ہر سازش کو ناکام بنانے میں کردار ادا کیا۔ ہم آہنگی کے لیے جدوجہد کرتے تھے۔

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری  صاحب نے کہا کہ قاضی صاحب مرحوم معتدل شخصیت کے حامل تھے، لوگوں کو جوڑنے والے تھے، پاکستان کے سب علماء سے ان کا رابطہ تھا۔ وہ جامعۃ المنتظر کے مدیر تھے۔ اس کے علاوہ وفاق المدارس کے معاملات کے ساتھ ساتھ شیعہ قوم کے مسائل کو حل کرتے تھے۔ آپ نامور قاضی تھے، حساس دور میں انقلاب اسلامی کی خدمت کی۔ تکبر ان کے قریب سے بھی نہیں گزرا تھا۔ تمام حوالوں سے ان کا ایک نقش تھا، ان کا فقدان ایک بڑا نقصان ہے، حوزات علمیہ اور ملت کا نقصان تھا۔ انہوں نے ہر جگہ ملت تشیع کا دفاع کیا۔ قومی و بین الاقوامی مسائل کو بیان کرتے تھے، مقاومت کے ساتھی تھے۔ جوڑنے والی شخصیت تھے۔ سختیوں کا مسکرا کر سامنا کرتے تھے۔

علامہ عارف حسین واحدی نے فرمایا کہ ایسے پروگرام ہونے چاہیں۔ جامعۃ المصطفیٰ  العالمیہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ قاضی صاحب جہد مسلسل کا نام ہے۔  انقلاب اسلامی میں قاضی صاحب کی خدمات ہمارے لیے قابل فخر ہیں، یہ ہمارے علماء کے کردار کو بھی واضح کرتا ہے، انہیں عدالتی خدمات پر سراہا گیا۔ قاضی صاحب نے مدارس دینیہ کو بنایا اور طلاب کی تربیت کی۔ فرقہ واریت کے ماحول میں  تمام پلیٹ فارمز پر انہوں نے کردار ادا کیا۔ تمام علماء معترف ہیں کہ ان کا جانا پوری امت کا نقصان ہے۔ ملنسار اور سلجھی ہوئی گفتگو کرتے تھے، حق بات کرتے تھے، مسلکی اختلافات کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ وطن عزیز کا بڑا نقصان ہے، ایک معتدل شخصیت تھے اور مکتب کے حقوق کے حوالے سے پیش پیش رہتے تھے۔

قبلہ قاضی صاحب مرحوم کے بھائی مولانا سید مرید حسین نقوی نے ڈنمارک سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قاضی صاحب نے پوری زندگی علوم آل محمدؑ کی تحصیل و  ترویج اور اس مکتب اور اس ملت کی خدمت میں گزاری۔ آپ کی زندگی کے چھ ادوار ہیں ۔ آپ نے پاکستان میں علی پور سے تعلیم کا سفر شروع کیا، جو پاکستان میں ان کو لاہور لے آیا، اس کے بعد قم تشریف لائے۔ شاہ کے زمانے میں انہیں ایران سے بے دخل کر دیا گیا۔ اس زمانے میں انہوں نے چیچہ وطنی میں  دینی ادارے کی بنیاد رکھی، جس کی بڑی خدمات ہیں۔ آپ ایک عرصہ عدلیہ میں رہے، ایران کے کئی صوبوں میں خدمات سرانجام دیں۔

ثاقب اکبر صاحب نے فرمایا کہ قاضی صاحب مرحوم ؒ علمی خانوادے کے فرزند تھے، وہ بھائی کے قوت بازو تھے، وہ بیک وقت جامعۃ المنتظر کے مدیر تھے، تدریس کرتے اور اجتماعی امور میں بھی فعال تھے۔ وفاق المدارس میں انتظامی فعالیت بھی آپ فرماتے تھے اور ہر جگہ آپ ہی کرتے تھے۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں رہبر معظم سے لے کر تمام اداروں کے سربراہوں میں ان کا احترام تھا۔ وہ عالمی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرتے تھے۔ معارف اسلامی کی اشاعت میں ان کی خدمات لائق تحسین ہیں۔ وہ ملی یکجہتی کونسل کے مرکزی نائب صدر تھے، ان کی تعمیری تجاویز سے کونسل نے استفادہ کیا۔

مولانا ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی صاحب نے کہا کہ قاضی صاحب، صاحب رائے، فقاہت پر نظر رکھنے والے باکردار عالم ِباعمل تھے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی تین ہائیکورٹس کے چیف جسٹس رہے۔ امام خمینیؒ اور رہبر معظم کے معتمد خاص تھے۔ غریب پرور، یتیم نواز، بیوگان کے کفیل اور ہنس مکھ تھے، ہر وقت فکر میں ڈوبے ہوئے ہوتے۔ نماز شب کے پابند تھے، قرآن کی تلاوت ان کا شیوہ تھا۔ مولانا ڈاکٹر محمد اعجاز نگری نے جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کی مرکزی کونسل کے سرپرست اور مدارس دینیہ کے سربراہ حضرت آیۃ اللہ علی رضا اعرافی کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا، جس میں انہوں نے قاضی صاحب کی وفات پر شیعہ سنی علماء، اہل پاکستان اور خانوادہ کو تعزیت پیش کی۔ آپ مشہور عالم تھے، جنہوں نے پاکستان میں اسلام کی نورانی تعلیمات کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ نے وحدت امت کے لیے کام کیا۔ شیعہ سنی علماء میں یکساں مقبول تھے۔ اتحاد تنظیمات مدارس اور وفاق المدارس میں آپ کی خدمات یاد رکھی جائیں گی۔

جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ نمائندگی پاکستان کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا محسن داد سرشت تہرانی نے اپنے پیغام میں کہا کہ ان کی رحلت سے دلی صدمہ ہوا۔ مرحوم مخلص، محنتی، ہمدرد و خیر خواہ اور خدمت گزار عالم تھے۔ ان کی وفات پاکستانی عوام اور مدارس کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ آپ کی خدمات وحدت اور مدارس کی ترقی زندگی کا سنہری باب ہیں۔ ہم ان کے خانوادہ، مدارس دینہ، طلباء اور چاہنے والوں سے تعزیت کرتے ہیں۔ مولانا امیر مختار فائزی صاحب نے امریکہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ قاضی نیاز حسین نقویؒ مادر علمی جامعۃ المنتظر کے نامور فاضل تھے۔ وہ پاکستان کے علماء کے سب سے بڑے خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ قم جیسے فقہ و اجتہاد کے مرکز شہر کے قاضی رہے۔ رہبر معظم تک ان کی براہ راست رسائی تھی، طلبہ اور زائرین کے لیے بڑا سہارا تھا۔ وہ ایک متواضع اور منکسرالمزاج انسان تھے، انہیں القابات، شہرت و طمطراق اور نمائش و دکھاوے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ان کی خوبی ان کی میانہ روی تھی۔ وہ وعدوں میں محتاط تھے، وہ بڑا بول نہیں بولتے تھے۔ گروہ بندی سے خود کو بلند تر رکھتے تھے، ہر کسی سے بات کرتے تھے، جائز بات میں مخالف کی بھی تائید کرتے تھے۔ آپ کا اٹھ جانا بڑا نقصان ہے۔

مولانا سید ارتضیٰ عاطف شیرازی نے اٹلی سے خطاب کرتے ہوئے اٹلی کے مومنین کی طرف سے تعزیت کا پیغام دیا۔ انہوں نے کہا کہ قاضی مرحوم نے علوم اہلبیت ؑکی نشر و اشاعت میں وقت گزارا۔ بہت سے ایسے کام کیے جو منفرد تھے، آپ افتخار تشیع تھے، آپ نے دنیا بھر  میں دینی تعلیمی ادارے قائم کیے۔ ایران میں جج رہے، آپ کی پرورش علماء کے خاندان میں ہوئی، وہاں اپنا مقام لیاقت سے منوایا۔ آپ ہر کسی  کی بات سنتے تھے اور احسن طریقے سے جواب دیتے تھے۔ مولانا ذاکر حسین شگری نے سویڈن خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ہم زمین میں کمی کرتے ہیں، اس کی ایک تفسیر یہ ہے کہ علماء کا اٹھ جانا زمین میں کمی ہے۔ عالم کی کمی پوری نہیں ہوسکتی۔ عالم سے اسلام تقویت پاتا ہے اور ان کے جانے سے اس کا نقصان ہوتا ہے۔ علماء کی زحمات سے اسلام باقی اور طاقتور ہے۔ قاضی صاحب جید عالم، منتظم، قاضی اور قوم کے مسائل کو حل کرنے کی بصیرت رکھنے والی شخصیت تھے۔ آپ کا شمار محنتی اور ذہین طلباء میں ہوتا تھا۔ ان کے کارنامے یاد رکھے جائیں گے، ان کے جانے سے دنیا اداس ہے۔

مولانا عابد رضا نقوی نے کینڈا  سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ موت العالم موت العالم کے مصداق تھے، ان کے جانے سے پاکستان کے تشیع میں خلا پیدا ہوا۔ ان کا جانا بڑا صدمہ ہے، ان کے آثار باقی ہیں اور باقی رہیں گے۔ ہمارا انیس سو ستر سے تعلق تھا، جو آخر تک قائم رہا۔ ہم نے ان سے استفادہ بھی کیا، ان کی محبت ہمیشہ قائم رہی۔ ہر آنے والا دن ان کی ترقی کا دن ہوتا تھا، طالب علمی دور میں سب سے ذہین سب سے خلیق تھے، ہر ایک کے ساتھ ان کا رویہ شفقت کا ہوتا تھا۔ جونیر سے محبت کرتے اور سینیئر سے تکریم کا رشتہ ہوتا تھا۔ جامعۃ المنتظر اور اس کے متعلقین کے لیے یہ سال عام الحزن کا سال ہے، کیونکہ اس میں  قبلہ قاضی صاحب اور محسن ملت کے ساتھی سیٹھ نوازش صاحب اس دنیا سے چلے گئے، یہ دونوں شخصیات بہت اہم تھیں۔ ہم حافظ ریاض حسین نجفی کی خدمت تعزیت پیش کرتے ہیں، اللہ ان کو صبر دے۔

مولانا علی اصغر سیفی نے قم مقدسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ مرحوم و مغفور علامہ سید قاضی نیاز حسین نقوی کی برکات پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تھیں۔ قاضی صاحب محسن ملت کے مدارس کو سنبھال رہے تھے اور نئے مراکز قائم کر رہے تھے۔ اخلاص سے سارے امور کو سنبھالے ہوئے تھے۔ قم میں دینی ادارے قائم کیے، شیعہ جماعتوں کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ خوش اخلاق، محبت کرنے والے اور حوصلہ افزائی کرنے والے تھے، ہمیشہ ان کی یاد باقی رہے گی۔ مونا جعفر علی نجم نے انگلینڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم تعزیت پیش کرتے ہیں، مدارس اور ملت کے لیے ان کا جانا بڑا نقصان ہے۔ جامعۃ المصطفیٰ کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے قاضی صاحب مرحوم کو خراج تحسین کا موقع فراہم کیا۔ آپ نے ہمیشہ خلوص سے کام کیا اور اللہ کے راستے پر چلے، وہ پاکستان کے لیے فخر ہیں۔ ان کی اپنی زندگی بہت سادہ تھی، کھانے پینے میں کوئی فرمائش نہیں ہوتی تھی۔ ایران کے قاضی اور وکلا اعتراف کرتے ہیں کہ آپ نے بغیر لالچ کے فیصلے کیے۔ رہبر انقلاب اور انقلابی قیادت کے قابل اعتماد تھے۔

مولانا انیس الحسنین خان نے سب سے تعزیت پیش کی اور کہا کہ قاضی نیاز حسین مرحومؒ معزز خدمت گزار اور ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے، حوزہائے علمیہ میں آپ کی کمی کو شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے اور ان کے خلا کو پر نہیں کیا جا سکتا۔ آپ علمی شخصیت کے مالک تھے۔ دینی مدارس، وفاق المدارس اور تنظیمات المدارس میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ مختلف فورمز پر نمائندگی کرتے تھے، تقریب مذاہب کے مختلف پلیٹ فارمز میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ مدارس کی تاسیس میں محسن ملت کی تحریک کو آگے بڑھایا۔ تشیع کے مختلف گروہوں کے درمیان انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ انہوں نے کہا ان کی گراں قدر تعلیمی و رفاہی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے  دنیا کے مختلف ممالک سے قاضی صاحب ؒ مرحوم کو خراج تحسین پیش کرنے والے علمائے کرام کا وقت دینے پر شکریہ ادا کیا۔ پروگرام کو سوشل میڈیا پر لائیو دکھایا گیا، جسے دنیا بھر سے ہزاروں لوگوں نے دیکھا۔ پروگرام میں میزبانی کے فرائض ڈاکٹر ندیم عباس نے انجام دیئے۔


خبر کا کوڈ: 898595

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/898595/علامہ-قاضی-نیاز-نقوی-کو-خراج-تحسین-پیش-کرنے-کیلئے-ا-ن-لائن-بین-الاقوامی-تعزیتی-ریفرنس-کا-انعقاد

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org