0
Thursday 19 Nov 2020 00:08

تحفظ بنیاد اسلام بل، کیا کہتے ہیں اہل علم(1)

تحفظ بنیاد اسلام بل، کیا کہتے ہیں اہل علم(1)
رپورٹ: آئی اے خان

سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ نے ایک مرتبہ پھر مطالبہ کیا ہے کہ تحفظ اسلام بل کو فوری طور پر وزیراعلیٰ ہاؤس سے نکال کر گورنر کے پاس منظوری کیلئے بھیجا جائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنی رہائشگاہ پہ علماء کرام کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران کیا۔ ملاقات کرنیوالوں میں شیعہ علماء کونسل کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ عارف واحدی، علامہ محمد افضل حیدری، جماعت اہلحدیث کے علامہ ابتسام الہیٰ ظہیر اور عبدالغفور راشد سمیت دیگر شامل تھے۔ اس سوال کو تشنہ چھوڑ کر کہ موقع پر موجود علماء نے اس پہ فوری ردعمل کا اظہار کیوں نہیں کیا۔؟ چوہدری پرویز الہیٰ کا کہنا تھا کہ ہفتہ شانِ رحمت اللعالمین(ص) منانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تحفظ اسلام بل کو فوری طور پر وزیراعلیٰ ہاوس سے نکال کر گورنر کے پاس منظوری کیلئے بھیجا جائے۔ یہ تحفظ بنیاد اسلام بل، اسلام کی بنیاد ہے یا اس کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کا منصوبہ، اس کا فیصلہ قارئین خود کریں۔

ذیل میں اسی ''تحفظ بنیاد اسلام بل'' سے متعلق ایک رپورٹ پیش خدمت ہے، جو کہ ادارہ میڈیا واچ نے مرتب کی ہے۔ میڈیا واچ ایک غیر جانبدار، آزاد ادارہ ہے، جو کہ دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والی رپورٹنگ کی خصوصی مانٹیرنگ کرتا ہے اور نہ صرف میڈیا میں ہونے والی درست اور غلط رپورٹنگ کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ کسی اہم موضوع پہ آنے والی مختلف آراء کی موضوعاتی تدوین بھی کرتا ہے۔ میڈیا واچ پاکستان سمیت بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہونے والے آرٹیکلز، رپورٹس پر بھی خاص نظر رکھتا ہے اور ان میں موجود خوبیوں یا نقائص کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ میڈیا واچ نے تحفظ بنیاد اسلام بل اور اس کے اثرات سے متعلق ایک غیر جانبدرانہ رپورٹ مرتب کی۔ اس رپورٹ میں معروف قومی اخبارات کے معروف کالم نگاروں، علماء کرام، مذہبی اسکالرز اور اہم اداروں کے موقف کو شامل کیا گیا ہے۔ تحفظ بنیاد اسلام بل پر 22 جولائی سے 13 اکتوبر تک آنے والی آراء کو اس رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں معروف لکھاری عمر دراز ننگیانہ کے بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر 25 جولائی کو شائع ہونے والے کالم کا حوالہ موجود ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ بل مذہبی فرقوں اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے لایا گیا ہے۔ ڈی جی پی آر کو دے گئے اختیارات ناقابل قبول ہیں۔ اسی طرح بی بی سی پر ہی معروف صحافی و تجزیہ کار وسعت اللہ خان اپنی 26 جولائی کی تحریر میں لکھتے ہیں کہ ''اس بل سے کتاب لکھنے پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو بہت خطرناک ہے۔ انہوں نے  اپنے 9 اگست کے کالم میں اس بل کو پنجاب اسمبلی کا "دستی بم" قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ حکمران پی ٹی آئی کے رکنِ اسمبلی اور پبلک اکانٹس کمیٹی کے سربراہ یاور عباس بخاری نے بل کے حق میں ووٹ دینے پر ایوان سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ ہمیں اندھیرے میں رکھا گیا۔ اس بل میں جس طرح ایک فرقے کے بنیادی عقائد کو چیلنج کیا گیا ہے، وہ ایک سنگین مذاق ہے۔ اگر یہ بل سرکار نے پیش کیا تو اسے قواعد کے مطابق کابینہ کے کس اجلاس میں منظور کیا گیا؟ اگر یہ نجی بل ہے تو ایوان کی کس کمیٹی نے عام ووٹنگ سے پہلے اس کی چھان پھٹک کی؟ اس کے متعلق ہمیں بتایا جائے۔

معروف صحافی، لکھاری اور دانشور اوریا مقبول جان روزنامہ دنیا میں لکھتے ہیں کہ پاکستان میں نفاذ اسلام کی طرف یہ بل اہم قدم ہے۔ اگست کو پرڈیوسر اور سینیئر صحافی رضوان جرال کو یو ٹیوب پر دیئے جانے انٹرویو میں کہا ہے کہ ایران کے سی پیک میں آنے اور چاہ بہار کے سی پیک میں شامل ہونے سے وہ قوتیں کافی متحرک ہوگئی ہیں، جو پاکستان میں بدامنی چاہتی ہیں، پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کی بڑی سازش تیار کی گئی ہے، جسے ناکام بنانے کے لئے سنجیدہ علماء کو آگے بڑھنا ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں امریکہ اور اسرائیلی فنڈنگ بڑی اہم ہے، پاکستان اور ایران واحد دو ملک ایسے بچ گئے ہیں، جہاں اس قسم کے فسادات ابھی تک نہیں ہوئے، ایران میں جتنے سنی ہیں، پاکستان میں اتنے شیعہ ہیں، دونوں پڑوسی ملک ہیں اور ان دونوں ممالک کے لوگ ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے ہیں، جتنے قافلے پاکستان سے ایران جاتے ہیں، اتنے ہی لوگ ایران سے پاکستان آتے ہیں۔

پاکستان کے معروف اینکر، صحافی اور تجزیہ کار خورشید ندیم نے روزنامہ دنیا میں 27 جولائی، 30 جولائی، 15 اگست، 7 ستمبر چار کالم اس موضوع پر لکھے ہیں، اپنے 27 جولائی کے کالم میں لکھتے ہیں کہ ہر فرقہ دوسرے تمام فرقوں کو کافر خیال کرتا ہے، اب ایسا لگ رہا ہے کہ تمام فرقے اکٹھے ہو کر ایک فرقے کو کافر یا گمراہ قرار دیں گے اور پھر اگلے "شکار" کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ اگر مولانا مودودی کے متعلق دیوبندی مسلک کی کتب پڑھ لیں تو اس مسئلے کی سنگینی کا احساس ہوگا۔ یہ بل انسانی آزادی اور بنیادی اسلامی اقدار پر پابندی کا بل ہے۔ آئین پاکستان میں ریاست کو کوئی حق نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے عقائد میں مداخلت کرے۔ توہین اور تنقید میں بہت فرق ہے، حکومت توہین مذہب اور توہین ریاست دونوں کو بطور ڈھال استعمال کر رہی ہے اور 30 جولائی کے کالم میں انہوں نے اس بل کو "ذہنی پولیو" قرار دیا۔

خورشید ندیم اپنے 15 اگست کے کالم میں لکھتے ہیں کہ ماہ محرم آتے ہی دعائیں نکلنے لگتی ہیں کہ سب خیریت رہے، ہمیں وحدت، رواداری اور برداشت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ستمبر کو روزنامہ دنیا میں اپنے کالم میں لکھا کہ چند سال پہلے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست نے پھر کروٹ لی۔ یمن میں خانہ جنگی کی آگ بھڑک اٹھی، جس پر تیل ڈالنے میں خطے کے سب مسلمان ممالک حسبِ توفیق شریک تھے۔ پاکستان پھر ان ممالک کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ ایک ملک نے چاہا کہ پاکستان اس کی حمایت میں یمن میں اپنی فوج اتار دے۔ وزیراعظم نواز شریف نے مزاحمت کی تو دوستوں کا غصہ بھڑک اٹھا۔ نواز شریف کے کاشانہ اقتدار تک بھی اس کی تپش پہنچی۔ اس بار وزیراعظم عمران خان نے بھی ایک جسارت کر ڈالی اور ترکی کے گلے میں بانہیں ڈال دیں، جو خطے کی قیادت کا نیا امیدوار ہے۔ اس پر بھی غصہ آیا اور اس کا اظہار ہوا۔ جب حکومتوں پر بس نہ چلے تو دوست اپنے محبان کو متحرک کرتے ہیں۔ یہ رضاکار لڑتے ہیں، ساتھ ہی حکومت کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس طرح یہ لڑائی ریاستی سطح سے سماجی سطح تک پھیل جاتی ہے۔ تحفظِ بنیادِ اسلام بل کی غیر ضروری منظوری کی کوئی دلیل مجھے نہیں مل سکی۔ میں یہ بھی نہیں جان سکا کہ کراچی کے ایک مذہبی اجتماع میں کیوں ایسی حرکت کی گئی، جس کے نتائج معلوم تھے۔؟ اسلام آباد کے قرب میں ایک مقرر نے کیوں ایک مقدس ہستی کو ہدف بنایا؟ کیا یہ لوگ واقف نہیں تھے کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں یہ سب کچھ وائرل ہوگا اور اس کا ردعمل سامنے آئے گا؟ دوسری طرف سے ان دو واقعات کو ایسے پیش کیا گیا جیسے ایک طبقہ اجتماعی حیثیت میں اس کا ذمہ دار ہے، حالانکہ اس طبقے میں بہت سے لوگ موجود تھے، جو خود ایسے افراد کے خلاف مقدمات درج کرا رہے تھے۔ کیا یہ سب اتفاقیہ ہو رہا ہے؟ میرے لیے تو ان سب واقعات اور اس اشتعال کو مشرقِ وسطیٰ کی سیاست سے الگ کرکے سمجھنا مشکل ہے۔ فرقہ واریت ہمارا مقامی مسئلہ نہیں تھا۔ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک، ہماری سیاست فرقہ واریت سے پاک رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
خبر کا کوڈ : 898644
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش