0
Friday 20 Nov 2020 16:51

تحفظ بنیاد اسلام بل، کیا کہتے ہیں اہل علم(2)

تحفظ بنیاد اسلام بل، کیا کہتے ہیں اہل علم(2)
رپورٹ: آئی اے خان

تحفظ بنیاد اسلام بل سے متعلق میڈیا واچ پاکستان ڈیسک کی جاری کردہ رپورٹ میں پاکستان کے شہرت یافتہ تجزیہ کار ایاز امیر کے کالم کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں انہوں نے اس بل کو دھوکہ قرار دیا ہے۔ یہ کالم روزنامہ دنیا میں 29 جولائی کو شائع ہوا۔ ایاز امیر لکھتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی ہے۔ لوگوں کی آزاری سلب کرنے کو بنیاد اسلام کا نام دینا دھوکہ دہی ہے۔ 29 جولائی کے ہی روزنامہ دنیا میں ہی معروف تجزیہ کار شاہد صدیقی لکھتے ہیں کہ نام نہاد بنیاد اسلام بل کے نام پر علم، ادب، اسلام، اجتھاد، حتی کہ بولنے پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی گئی ہے، یہ بل بنیاد اسلام پر حملہ ہے۔ بی بی سی اردو پہ 30 جولائی کو محمد حنیف لکھتے ہیں کہ پرویز الہیٰ اس بل کے ذریعے فرقہ واریت پھیلا کر گویا جنت کی ٹکٹیں بانٹ رہے ہیں۔

روزنامہ مشرق میں 10 اگست کو سینیئر تجزیہ کار و صحافی حیدر جاوید سید کہتے ہیں کہ قوم کو چوہدری پرویز الہیٰ کی سازشوں سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ وہ فسادات کے ذریعے اپنی سیاست چمکانے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، کتاب پر پابندی کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ اسی طرح کئی صحافتی تنظیموں کے رہنماء اور منجھے ہوئے شہرت یافتہ لکھاری اسلم خان نے اس بل سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔ ''شیعہ سنی قوت کے باہمی ٹکراو سے جو مقاصد اب تک حاصل کئے گئے، ان کا مجموعی حساب لگایا جائے تو اسلامی دنیا کیلئے نقصان ناقابل تلافی ہے، لیکن آج اس قوت کا یکجا ہونا نہ صرف امت اسلامیہ کیلئے نیک فال ہے بلکہ یہ پاکستان جیسے ملک کیلئے بھی ایک سبق ہے۔ شیعہ اور سنی ملت کے وجود کے دو بازو بن کر ایک دوسرے کو کاٹنے کے بجائے اگر اتحاد سے رہیں تو یہ دشمن کے خلاف بذات خود ایک خطرہ بن جاتے ہیں۔ یہ اتحاد آج کے عہد ستم کی ایک ناگزیر ضرورت ہے، ورنہ وجود امت کا حال بھی خشوگی جیسا ہوگا۔''

روزنامہ جنگ میں سلیم صافی لکھتے ہیں کہ فرقہ واریت کی آگ خاموش مگر بڑے منظم طریقے سے بھڑکائی جا رہی ہے اور خدانخواستہ اس کے شعلے کسی بھی وقت اس ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں کیوں ہو رہا ہے، جو اسلام کے نام پر بنا ہے، جہاں نماز، روزے، حج اور عمرے کی شرح سب سے زیادہ ہے، جہاں سینکڑوں کی تعداد میں مذہبی جماعتیں سرگرم عمل ہیں، جہاں تبلیغ کا کام دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہو رہا ہے، جہاں انفاق فی سبیل اللہ کا رجحان بھی دیگر اسلامی ممالک کی نسبت زیادہ ہے، جس کی فوج دنیا کی بڑی اور منظم ترین فوجوں میں شمار ہوتی ہے اور جہاں کی خفیہ ایجنسیاں دنیا کی طاقتور ترین ایجنسیاں سمجھی جاتی ہیں۔؟

سلیم صافی جیو نیوز کی سائٹ پر اپنے بلاگ میں لکھتے ہیں کہ اس وقت ریاست کے وجود کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ان خطرات میں سے آج صرف ایک کا ذکر کر رہا ہوں۔ یہ خطرہ فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکانے اور شیعہ سنی کو لڑانے کی منظم سازش کا ہے۔ لگتا ہے کہ انڈیا جیسے پاکستان کے ازلی دشمنوں اور دیگر بیرونی طاقتوں نے اس کے لئے طویل اور منظم منصوبہ بندی کی ہوئی ہے۔ اگرچہ اہلِ تشیع کے اکابر علماء اور مستند تنظیمیں یا پھر اہلِ سنت کے اکابر اور جماعتیں اس عمل کا حصہ نہیں اور پہلی مرتبہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر آگ بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن کچھ ایسے عناصر سامنے آئے ہیں کہ جو اپنی نازیبا حرکتوں سے جذبات کو بھڑکا رہے ہیں۔ اسی طرح 30 ستمبر 2020ء کو سلیم صافی لکھتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ فرقہ واریت اور ٹی ٹی پی جیسے مسائل سے نمٹنے کیلئے سیفٹی والو کی حیثیت مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کو حاصل ہے۔ پی ٹی ایم جیسے ایشوز کے بارے میں سیفٹی والو کی حیثیت اسفند یار ولی خان اور محمود خان اچکزئی یا ان کی جماعتوں کو حاصل ہے۔

تحفظ بنیاد اسلام بل کے پیرائے میں ہی مفتی گلزار نعیمی اہل حرم نامی ویب سائیٹ پہ اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ''استعمار نے عین اس وقت مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش کی، جب عرب ریاستیں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں کی شکل میں اسرائیل کی حاکمیت کو ایک ایک کرکے تسلیم کر رہی ہیں۔ اگر ایسے موقع پر پاکستان کے حالات پرامن ہوتے تو ظاہر ہے کہ اہل مذہب نے اسی طرح عربوں کی مخالفت میں ریلیاں اور کانفرنسز منعقد کرنی تھیں، جیسے وہ ایک دوسرے کو کافر ثابت کرنے کے لیے اب ریلیاں نکال رہے ہیں۔ صیہونیت اور استعمار نے بڑی گہری منصوبہ بندی کرکے پاکستان کے مذہبی طبقہ کو باہم اختلاف میں الجھا دیا ہے۔ ایسے نفرت انگیز نعرے لگوائے جا رہے ہیں، جو کبھی سننے کو نہیں ملے تھے۔ یزید کو امام عالی مقام کے برابر لا کھڑا کر دیا گیا ہے۔ 

روزنامہ نوائے وقت میں قیوم نظامی لکھتے ہیں کہ خفیہ ایجنسیوں کی تازہ اطلاعات کے مطابق ہندوستان اور کچھ دوسرے پاکستان دشمن ملکوں نے پاکستان کے اندر مذہب کے نام پر فرقہ وارانہ دہشتگردی کا منصوبہ بنایا ہے۔ گلگت بلتستان کو فرقہ وارانہ دہشت گردی کا مرکز بنانے کا منصوبہ ہے، اس منصوبے کے تحت پاکستان میں شیعہ سنی فساد کرانے کی کوشش کی جائے گی اور لسانی بنیادوں پر بھی پاکستان میں دہشت اور انتشار کی فضا پیدا کی جائے گی۔ دنیا کے مختلف حصوں میں انتہائی مقبولیت حاصل کرنے والی نیوز ویب سائٹ اسلام ٹائمز پر شائع ہونے والے ایک کالم میں شہرت یافتہ مذہبی اسکالر اور کئی کتابوں کے مصنف ثاقب اکبر لکھتے ہیں کہ ''یہ بات تو دشمنوں نے بھی سرعام کہہ دی ہے کہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے سب سے آسان اور سستا ہتھیار فرقہ واریت ہے اور فرقہ واریت کی آگ تکفیریت کے تیل سے مزید شعلہ ور ہوتی ہے۔ پاکستان میں ایک مرتبہ پھر فرقہ واریت کا دیو بوتل سے باہر آگیا، آگیا نہیں لایا گیا ہے، لیکن عاشقان دین مصطفیٰ (ص) اتحاد امت کے داعی، جو یہ کام اللہ اور اس کے رسول (ص) کی منشا کے لیے کرتے ہیں، انھوں نے یہ میدان خالی نہیں چھوڑا۔ انھوں نے امت کو ان شر انگیزیوں کی حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے نئے سرے سے جدوجہد کا آغاز کر دیا ہے۔

معروف لکھاری اور صحافی عائشہ صدیقہ ایم این نیوز سائٹ پہ جاری اپنے کالم میں لکھتی ہیں کہ ''متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے کے خلاف شیعوں کو ایران کی حمایت میں آواز اٹھانے سے روکنے کے لئے خوف کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ سرحدی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان دوبارہ وجود میں آگیا ہے، اسی طرح لشکر جھنگوی کا ملک اسحاق گروپ بھی دوبارہ سامنے آگیا ہے اور زور و شور سے فرقہ وارانہ ایجنڈے پر کام کر رہا ہے، پاکستان کے قریب افغانستان کے علاقوں میں داعش کی موجودگی بھی ایران کے لئے ایک چیلنج کا باعث بن سکتی ہے۔ اس سے یقینی طور پر چین کے تعاون سے ایران کے ترقیاتی منصوبوں کی سلامتی کے متعلق سوال اٹھیں گے۔

پاکستان کے قومی اخبارات روزنامہ جنگ، روزنامہ دنیا، ڈان و دیگر میں صف اول کے تجزیہ کاروں نے اپنی رائے کچھ یوں دی ہے۔ محمد بلال غوری لکھتے ہیں کہ تازہ قدم اٹھاتے ہوئے تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ منظور کیا گیا ہے۔ تکلف برطرف، یہ مملکت خداداد جہاں 97 فیصد مسلمان آباد ہیں، اگر وہاں اسلام کی بنیادیں لرز چکی ہیں اور اب اسے بچانے کیلئے یہ قانون لانا ضروری تھا تو پھر صلح ہی کر لیں تو بہتر ہے۔ ایوارڈ یافتہ مظہر برلاس لکھتے ہیں کہ حکومت اس بل کے ذریعے کتاب لکھنے پر پابندی عائد کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس بل میں گریڈ 18 کے افسر کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے اختیارات دیئے گئے ہیں۔ سینیئر صحافی مظہر برلاس جو کہ وزیراعظم کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے اس بل کو قطعاً ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ حکومت یکساں نظام تعلیم کے نام پر عوام سے دھوکہ دہی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ کالجز اور یونیورسٹیوں میں تفسیر قرآن کے نام پر ایک مسلک کو مسلط کیا جائے گا۔ ایسا ظلم ضیاء الحق کے دور میں بھی نہیں ہوا۔

سینیئر صحافی رئوف کلاسرا کا کہنا تھا کہ ایک دم سے پرویز الہیٰ کو یہ مذہبی کارڈ یاد آگیا، ویسے وہ ایک لبرل سیاست دان کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، پورا خاندان کرپشن اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہے، اربوں کی کرپشن کی داستانیں نیب نے کھول کر سامنے رکھ دی ہیں؛ وہ مذہب سے متصادم نہیں ہیں اور کیا کرپشن کرتے ہوئے مذہب یاد نہیں آتا؟؟ عامر متین کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے، یہاں یہ نعرہ لگنا بند ہونا چاہیئے، الحمداللہ 98 فیصد پاکستانی مسلمان ہیں، ہمارا ملک بہت حد تک فرقوں کی آگ سے بچا ہوا ہے، مگر یہ جو بل لایا گیا ہے، وہ بھی بغیر کسی مشاورت کے لایا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس کے پیچھے اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہیٰ صاحب کا ہاتھ ہے۔ وہ اسمبلی میں اپنی 3، 4 سیٹوں کے بعد ایسے اقدامات سے اپنی شہرت بنانا چاہتے ہیں، مذہبی مسائل بہت حساس اور سنجیدہ ہوتے ہیں، ملکی سطح پر مشاورت کے بغیر ایسا کوئی شوشہ نہیں چھوڑنا چاہیئے۔ بی بی سی کی کالم نگار عاصمہ شیرازی نے طنز کیا کہ اسلام بچاو بل کے محرکات کا وزیراعلیٰ کو بھی علم نہیں ہے۔ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ گل زہراء نے 24 جولائی کو بل کا تجزیہ پیش کیا اور اسے ملک و قوم کی سلامتی کیلئے انتہائی مضر قرار دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 898946
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش