1
0
Sunday 22 Nov 2020 10:20

سعد رضوی، بنیاد پرست جماعت کا روشن خیال امیر

سعد رضوی، بنیاد پرست جماعت کا روشن خیال امیر
تحریر: تصور حسین شہزاد

پاکستان کی سیاست میں کسی جماعت کو اتنی تیزی سے وہ مقبولیت نہیں ملی، جو "تحریک لبیک پاکستان" کو ملی۔ یہ جماعت ستمبر 2017ء میں معرض وجود میں آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے شہرت کی بلندی پر پہنچ گئی۔ تحریک نے اسی برس 2017ء میں ضمنی الیکشن میں حصہ لے کر 7 ہزار ووٹ حاصل کرکے سب کو حیران کر دیا۔ اس کی مقبولیت میں سب سے زیادہ کردار مرحوم خادم حسین رضوی کا تھا۔ خادم حسین رضوی اپنی شعلہ بیانی کے باعث مشہور تھے۔ وہ شائد پہلے عالم دین تھے، جو اپنے خطاب میں باقاعدہ ایسی باتیں کر جاتے جنہیں معاشرے میں گالیاں سمجھا جاتا ہے، اس کے باوجود مرحوم کے پیروکار ان گالیوں پر بھی بے مزہ نہیں ہوتے تھے۔ خادم حسین رضوی کی اچانک وفات پر تحریک لبیک کے کارکن ہنوز صدمے میں ہیں۔

خادم حسین رضوی کی نماز جنازہ سے قبل تحریک لبیک کی 18 رکنی مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں نئے امیر کیلئے تین ناموں پر غور کیا گیا، ایک نام علامہ شفیق امینی کا تھا، دوسرا نام علامہ فاروق الحسن کا تھا جبکہ تیسرا نام سعد حسین رضوی کا تھا۔ شوریٰ کی پہلی نشست میں علامہ فاروق حسن کا نام گونج رہا تھا مگر دوسری نشست میں قرعہ سعد حسین رضوی کے نام نکل آیا اور یوں تحریک لبیک کی امارت کا تاج سعد حسین رضوی کے سر سجا دیا گیا ہے۔ سعد رضوی کی امارت کا اعلان گریٹر اقبال پارک میں جنازے سے قبل مرکزی نائب امیر سید ظہیر الحسن شاہ نے کیا۔ سعد رضوی جامعہ ابوذر غفاری میں درس نظامی کے طالبعلم ہیں۔ گو کہ تحریک لبیک کی شناخت ایک سخت گیر جماعت کی ہے لیکن اس کے برعکس سعد حسین رضوی نرم مزاج اور فعال رہنماء ہیں۔ دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق وہ سوشل میڈیا سے بھی مربوط ہیں اور خادم حسین رضوی کی وفات سے قبل تحریک لبیک کا سوشل میڈیا سیل وہی چلا رہے تھے۔ انہوں نے مختلف پیجز بھی بنا رکھے ہیں، جن کے ذریعے تحریک لبیک کے موقف کو وہ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے کارکنوں تک پہنچاتے ہیں۔

خادم رضوی کی موجودگی میں تحریک لبیک کی پالیسی سخت گیر تھی، مگر اب توقع کی جا سکتی ہے کہ سعد رضوی اس تاثر کو تبدیل کریں گے۔ سعد رضوی کے نوجوانوں کیساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔ وہ یونیورسٹیز اور کالجز کے طلباء کیساتھ بھی رابطے میں رہتے ہیں۔ اپنے دوستوں کیساتھ مشاورت بھی کرتے ہیں اور خادم رضوی کو بھی مشورے دیا کرتے تھے۔ تحریکی معاملات پہلے دن سے ہی سعد رضوی کے ہاتھ میں تھے۔ انہیں اس حوالے سے اچھا خاصا تجربہ ہے۔ سعد رضوی کو اپنے والد کی طرح شاعری سے بھی اچھا خاصا شغف ہے۔ خادم حسین رضوی کے جنازے میں لوگوں کی شرکت سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ حرمت رسول (ص) کیلئے باہر نکلتے ہیں۔ اُمت مسلمہ میں واحد نقطہ حرمت رسول ہی ہے، جس پر پوری امت متحد ہو جاتی ہے اور اس جنازے میں اس کا عملی ثبوت دکھائی بھی دیا کہ تمام جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی، حتیٰ ان سے ناراض رہنماء آصف اشرف جلالی بھی نماز جنازہ میں شریک ہوئے جبکہ کراچی میں سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری بھی خصوصی طور پر لاہور آئے۔

سعد رضوی کو قائد بنانے کی ایک اور منطق بھی ہے اور وہ یہ کہ تحریک لبیک کی اس مقبولیت کو قائم رکھا جا سکے، جو خادم رضوی نے قائم کی تھی۔ اب لوگ اس لئے بھی تحریک لبیک سے وابستہ رہیں گے کہ تحریک کو خادم رضوی کا بیٹا چلا رہے۔ دوسری جانب بریلوی مکتب فکر کی نمائندگی جمعیت علمائے پاکستان کر رہی ہے۔ جے یو پی نے فرقہ واریت سے بھی اپنا دامن بچایا ہوا ہے اور وحدت امت کے حوالے سے شاہ اویس نورانی کا کردار مصالحانہ ہی رہا ہے۔ اس کے برعکس تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی کا رویہ مخالفین کیلئے بہت سخت گیر تھا۔ حتیٰ کہ وہ وہابیوں کی اذان کو بھی اذان تسلیم نہیں کرتے تھے اور اہل تشیع پر بھی کڑی تنقید کیا کرتے تھے۔ اب اگر سعد رضوی بھی وہی رویئے اپناتے ہیں اور والد کی طرح سخت گیر رہتے ہیں تو ممکن ہے تحریک لبیک زیادہ دیر نہ چل سکے۔

دوسری جانب آصف اشرف جلالی 4 ماہ قید رہنے کے بعد رہا ہوچکے ہیں۔ وہ بھی تحریک لبیک کے الگ ہونیوالے ایک دھڑے کے سربراہ ہیں۔ ان کے اختلافات خادم حسین رضوی سے تھے، اب ممکن ہے کہ وہ اس خلا کو دیکھتے ہوئے زیادہ فعالیت کا مظاہرہ کرکے خود کو اس مقام پر لے جانے کی کوشش کریں، اس حوالے سے سعد رضوی کو زیادہ فعالیت دکھانا ہوگی۔ دوسری جانب تحریک لبیک کے ذرائع کہتے ہیں کہ سعد رضوی کو عارضی طور پر امیر بنایا گیا ہے، حتمی فیصلہ تحریک کی مجلس شوریٰ بعد میں کرے گی۔ خادم رضوی کی وفات کے بعد جہاں تک تحریک کی بقاء کی بات ہے تو پاکستان میں وہ تنظیمیں اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائیں یا فعال نہیں رہیں، جن کی قیادت قتل کر دی گئی یا اس کا انتقال ہوگیا۔ مثال کے طور پر سنی تحریک سلیم قادری کی سربراہی میں قائم ہوئی، کراچی میں دہشت گردی کے ایک واقعہ میں سلیم قادری کو مار دیا گیا۔ جس کے بعد سنی تحریک وہ فعالیت نہیں دکھا پائی، جو سلیم قادری کے دور میں تھی۔ اسی طرح شاہ احمد نورانی کی جمعیت علمائے پاکستان بھی ان کے بعد اتنی فعال نہیں، شاہ اویس نورانی بس برائے نام اسے فعال رکھے ہوئے ہیں۔

سپاہ صحابہ بھی حق نواز جھنگوی کے بعد ڈاون ہوتی گئی، کچھ عرصہ مولانا ایثار القاسمی نے سنبھالا مگر ان کے بعد مولانا اعظم طارق اسے اس انداز میں قائم نہ رکھ سکے، جس طرز سے حق نواز جھنگوی نے مقبولیت دی تھی۔ اب سپاہ صحابہ کی قیادت مولانا احمد لدھیانوی کے پاس ہے مگر کالعدم ہونے کے باعث اس کی فعالیت انتہائی محدود ہے۔ اسی طرح ایم کیو ایم بھی الطاف حسین پر مکمل پابندی کے بعد غیر فعال ہوگئی۔ تو جماعتوں کی قیادت اگر نیا ویژن نہ دے تو جماعتوں کے وجود کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے یا وہ صرف ڈرائنگ روم تک محدود ہو جاتی ہیں۔ اس حوالے سے یہ سعد رضوی کیلئے ایک امتحان ہوگا کہ وہ اپنی جماعت کو خادم رضوی کے "مشن" پر رکھتے ہیں یا نیا ویژن دیتے ہیں۔ اگر خادم رضوی کے مشن پر رہے تو ممکن ہے تحریک لبیک زیادہ فعال نہ رہ سکے اور اگر انہوں نے جماعت میں نئی روح پھونکی تو ممکن ہے کہ تحریک لبیک اپنی اس ساکھ کو قائم رکھنے میں کامیاب ہو جائے۔
خبر کا کوڈ : 899272
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید نثار ترمزی
Pakistan
جب ڈاکٹر اسرار کی جانشینی کا فیصلہ کیا تو بھی بیٹے کے حق میں ہی کیا گیا۔
ہماری پیشکش