QR CodeQR Code

پاراچنار، ایف سی اہلکار کا حیرت انگیز قتل یا علاقے کیلئے نئی سازش

22 Nov 2020 19:23

اسلام ٹائمز: اگر کیس بروقت حقیقت تک نہ پہنچتا تو اسکا الزام اہلیان نستی کوٹ اور کنج علیزئی ہی پر لگتا۔ پھر پتہ نہیں کہ انہیں اہلیان پیواڑ کی طرح کیا کیا اذیتیں اٹھانا پڑتیں۔ جنہیں ایک ناکردہ گناہ کے تحت دو سالوں سے پابند سلاسل کیا گیا ہے، جبکہ اس کیس میں مقتولہ گل سکینہ کے وارثان سے زیادہ دلچسپی کرنل جاوید الیاس لے رہے ہیں۔ پتہ نہیں وہ اس سے کیا کیش کرنا چاہتا ہے کہ اس کیس کا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہے۔


تحریر: عبد الحسین دستغیب

ہفتہ قبل سرحدی علاقہ نستی کوٹ کنڈہ میں ایف سی کی گاڑی میں قتل کی ایک واردات ہوئی، جو شروع میں علاقے کیلئے نہایت تشویش کا باعث بنی۔ میڈیا پر خبر آتے ہی عوام کی اکثریت کو شک پڑ گیا کہ کسی مقامی سر پھرے ہی نے یہ واردات کی ہوگی۔ مگر رفتہ رفتہ پتہ چل ہی گیا کہ ایف سی کے دو اہلکاروں کے مابین گھریلو مسائل، نیز موبائل میں موجود مواد چوری کئے جانے پر چپقلش پیدا ہوگئی تھی، جو بالآخر قتل پر منتج ہوئی۔ خیال رہے کہ آفتاب احمد نامی ایف سی اہلکار نے فائرنگ کرکے اپنے ہی ساتھی اہلکار لانس نائیک مختیار جان کو قتل کر دیا۔ آفتاب احمد کا تعلق بھٹانی قبیلے جبکہ مقتول مختیار جان ولد نور حسن کا تعلق چارسدہ کے علاقے عمر زئی سے تھا۔ مبینہ طور پر مقتول مختیار جان نے موقع پاکر آفتاب احمد کے موبائل سے گھریلو نوعیت کی متعدد تصاویر اور دیگر حساس قسم کا ڈیٹا کاپی کرکے چوری کیا تھا۔ جس کا علم ہونے پر قاتل نے ڈیٹا واپس کرنے کی بار بار درخواست کی تھی۔

مگر مقتول نہ صرف انکار کرتا رہا بلکہ قاتل کو مزید ٹیڑھی نظروں سے دیکھتا رہا۔ وقوعہ کے دن آفتاب بھٹانی اور مختیار عمرزئی کے مابین چلتی گاڑی میں ایک بار پھر سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا تو آفتاب نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چلتی گاڑی ہی میں فائرنگ کرکے مخیتار کا کام تمام کر دیا۔ علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ کھیتوں میں کام کر رہے تھے کہ اس دوران دبی سی فائرنگ ہوئی۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد ہوائی فائرنگ ہوئی۔ اس دوران کھیتوں کی طرف بھی فائرنگ ہوئی۔ تفتیش کے لئے جب دیگر اہلکار پہنچے تو انہوں نے پہلے تو یہ دعویٰ کیا کہ فائرنگ کھیتوں سے ہوئی ہے۔ جب مقامی لوگوں نے ان پر واضح کیا کہ تم لوگوں کے پاس اسلحہ تھا، اگر کسی شخص نے گاڑی، موٹر سائیکل یا پیدل چلتے ہوئے فائرنگ کی ہے تو تم لوگوں نے اسے نشانہ کیوں نہیں بنایا اور انکا پیچھا کیوں نہیں کیا۔

ان کے پاس اس بات کا جواب نہیں تھا، لہذا کچھ حقیقت پسندوں نے اعتراف کر لیا کہ قتل گاڑی کے اندر فائرنگ کے نتیجے میں ہوا ہے، جبکہ مقامی عوام کا اس سلسلے میں کوئی جرم نہیں۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کیس بروقت حقیقت تک نہ پہنچتا تو اس کا الزام اہلیان نستی کوٹ اور کنج علیزئی ہی پر لگتا۔ پھر پتہ نہیں کہ انہیں اہلیان پیواڑ کی طرح کیا کیا اذیتیں اٹھانا پڑتیں۔ جنہیں ایک ناکردہ گناہ کے تحت دو سالوں سے پابند سلاسل کیا گیا ہے، جبکہ اس کیس میں مقتولہ گل سکینہ کے وارثان سے زیادہ دلچسپی کرنل جاوید الیاس کی ہے۔ پتہ نہیں وہ اس سے کیا کیش کرنا چاہتا ہیں کہ اس کیس کا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہے۔ نستی کوٹ کنڈہ کیس کے حوالے سے ذمہ دار قومی اداروں خصوصاً انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سرکار سے اس بابت استفسار کرے کہ ایک ذاتی کیس کو یہاں کیوں لایا گیا۔ پھر شروع میں الزام مقامی لوگوں پر کیوں لگایا گیا، جس کا نتیجہ کچھ بھی ہوسکتا تھا اور اگر آئندہ ایسا کیس رونما ہوا تو کیا نتیجہ نکلے گا۔

انہیں یہ بھی گوش گزار کرانا چاہیئے کہ ایسی صورت میں کیا عوام کو یہ حق حاصل نہیں کہ ایف سی کو اپنے علاقے سے گزرنے ہی نہ دیں۔ جن کے ہاتھ پہلے ہی سے طوری بنگش قبائل کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ جنہوں نے متعدد مواقع پر طوری بنگش قبائل کے سینکڑوں افراد کو گولیاں مار کر قتل کیا ہے۔ جنہوں نے طوریوں کے بیسیوں افراد کو ناجائز مقدمات میں پھنسایا ہوا ہے، جن کے ہاتھوں سے مقدسات تک محفوظ نہیں رہے۔ جنہوں نے شورکی میں اپنی ایک گاڑی پر خود ساختہ بم حملہ کروا کر مقامی باشندوں پر مقدمہ درج کروایا اور چار سال گزرنے کے باوجود ملزمان کو رہائی نہیں مل رہی، اور جنہوں نے شورکی ہی میں امام بارگاہ کو بم سے اڑا کر مقامی بانشندوں کو یہاں سے بے دخل کرنے کی اپنی سے ناکام کوشش بھی کی۔ مگر طوری بنگش قبائل، قومی و مذہبی اداروں کی بروقت مداخلت اور ان کے براہ راست اقدام کے نتیجے میں ان کی یہ گھناونی کوشش ناکام ہوگئی۔ فوراً امام بارگاہ کی از سرنو تعمیر شروع ہوگئی اور پہلے سے کئی گنا بڑا اور خوبصورت امام باڑہ دو ماہ کے اندر اندر تیار ہوگیا۔

کرم کے حوالے سے بعض اداروں کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ لوئر اضلاع سے آئس کریم، حلوہ اور دیگر سامان بیچنے کے نام پر ایک بہت بڑا لاؤ لشکر جمع کرکے کرم میں تعینات کیا گیا ہے۔ جو علاقے میں آزادانہ گھوم پھیر رہا ہے۔ حالانکہ یہاں کوئی مقامی شخص بھی بغیر شناختی کارڈ کے گھوم پھر نہیں سکتا، جبکہ یہ لوگ گاؤں گاؤں میں آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں۔ یہی نہیں، ناشناس مسلح لوگ گھوڑوں پر سوار ہوکر گلی کوچوں میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ حساس علاقہ ہونے کے ناطے پاراچنار تک سبزی اور دیگر سامان پہنچنے میں دو دن لگتے ہیں۔ جس کے باعث پاراچنار میں ہر چیز کے نرخ دیگر مقامات کی نسبت کافی زیادہ ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ جس علاقے میں سبزی کو آسانی سے نہیں چھوڑا جاتا، اس علاقے میں ناشناس لوگ مسلح ہوکر کیسے گھومتے پھرتے ہیں۔ واضح ہوتا ہے کہ علاقے کے حوالے سے پھر سے کوئی خطرناک حکمت عملی تیار ہو رہی ہے۔


خبر کا کوڈ: 899342

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/899342/پاراچنار-ایف-سی-اہلکار-کا-حیرت-انگیز-قتل-یا-علاقے-کیلئے-نئی-سازش

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org