QR CodeQR Code

شیریں مزاری کا حقیقت پسندانہ بیان اور فرانسیسی وزیر خارجہ کا منافقانہ ردعمل

23 Nov 2020 18:12

اسلام ٹائمز: وزیر انسانی حقوق نے ایک نازک وقت میں حقیقت پر مبنی سوالات اٹھائے ہیں، مسلمان دانشوروں، حکمرانوں اور میڈیا کیلئے ضروری ہے کہ اس ایشو کو زیادہ توانائی اور جرات کیساتھ اٹھائیں۔ وزیراعظم عمران خان کیجانب سے بار بار اسکا اظہار کیا گیا ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی دل آزادی اور مقدس ہستیوں کی توہین کیخلاف قانون سازی کی ضرورت ہے، نہ صرف موجودہ حکومت بلکہ اس معاملے کو عالمی برداری کے سامنے ایک تحریک کی صورت میں پیش کرنے اور توہین آمیز حرکات کے حتمی طور پر خاتمے کیلئے مسلمان معاشروں کو زندہ ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔ ورنہ مغرب ان حرکتوں کے ذریعے نہ صرف عالم انسانیت کو گمراہ کریگا بلکہ مسلمانوں کے درمیان شدت پسندی کو ہوا دینے میں کامیابی کیلیے بھی ان سازشوں کو بروئے کار لاتا رہیگا۔


رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

استعمار اور استکبار انسانیت سوز رویوں کی وجہ سے ظالمانہ پالیسیوں کی مخالفت برداشت نہیں کرتے۔ گذشتہ کئی عشروں سے مغربی طاقتیں مسلمانوں کو مسلسل ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ جمہوریت کو انسانی اقدار کے طور پر پیش کرنیوالے مغربی ممالک نے عالمی میڈیا، معاشی اداروں اور سیاسی طاقت کے مراکز کو قبضے میں رکھا ہوا ہے۔ کئی صدیوں سے عالم انسانیت کو استحصال کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جہاں سے بھی ان مظالم کیخلاف آواز بلند ہوتی ہے، پورا عالم کفر ایکا کرکے انہیں کچلنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے شرف انسانی کو بلندیوں اور کمال پر فائز انبیائے کرام علہھم السلام کے پیروکاروں کو بھٹکانے والے یہود کو پوری دنیا میں صرف محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین اور آپؑ کے آخری فرزند مہدی آخرالزمان علیہ السلام کے منتظرین سے خطرہ ہے۔

گذشتہ دنوں جب وزیراعظم پاکستان نے مغربی میڈیا سے گفتگو کی تو انہوں نے کہا کہ جب سے اسلامی جمہوریہ ایران میں انقلاب آیا ہے، اس وقت سے مغرب نے عالم اسلام کو کمزور بنانے اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازی کیلئے مختلف حربے اور سازشیں شروع کر رکھی ہیں۔ حال ہی میں فرانس کے اسکول میں مغرب کی اپنی تعریف کردہ جمہوری اقدار کیخلاف ورزی کرتے ہوئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توہین آمیز خاکے دکھائے گئے، ان پر جب احتجاج ہوا تو فرانسیسی صدر نے استاد کے قتل کیخلاف قانونی چارہ جوئی کی بجائے سرکاری سرپرستی میں یہ توہین آمیز خاکے جلی طور پر شائع کروائے۔ یہ دراصل مغربی شیطانی تہذیب کی شیطنیت کا مظہر ہے۔ عالم اسلام میں اس کے خلاف ردعمل فطری تھا، لیکن فرانسیسی صدر نے معافی نہیں مانگی۔

یہ نہ صرف حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے قرآن شریف میں بیان کردہ کافروں اور مشرکوں کے دلوں میں آپؑ کی ذات سے شیطانی نفرت کی دلیل ہے بلکہ عالم اسلام کے امن و سکون کو تہہ و بالا کرنیکی سازش بھی ہے۔ اس کے بعد سے ہر مسلمان کا دل زخمی ہے۔ حالانکہ مغرب میں یہودیوں سے متعلق کہانیوں کی اشاعت پر قانونی پابندی ہے۔ یہ ایک دوغلا معیار ہے۔ جس سے مغرب کی منافقت عیاں ہوتی ہے۔ ہولوکاسٹ سے انکار پر سزا مغربی تہذیب کی حیوانیت کو آشکار کرنے کیلئے کافی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نفرت کا اظہار حقیقت میں انبیائے کرام علیہم السلام کی تعلیمات سے دشمنی ہے، کیونکہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ دین ہی انسانیت کو شیطانی طاقتوں کی شناخت عطا کرتا ہے اور انسان ایمان اور توکل کی بنیاد پر ان کے مظالم کو آشکار بھی کرتا ہے اور ان کے مقابل سینہ سپر بھی ہوسکتا ہے۔

مجموعی طور پر عالم اسلام بالخصوص عرب حکمران مکمل خاموشی کا شکار ہیں۔ اس دوران وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی طرف سے سماجی رابطوں کی سائیٹ پر چند جملوں نے ہل چل مچا دی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ مغرب آزادی اظہار رائے کے نام پر منافقت اور تکبر سے کام لے رہا ہے، فرانسیسی صدر کے بارے میں ٹوئٹ پر انہیں توہین محسوس ہوتی ہے جبکہ پیغمبر اسلامﷺ پر توہین آمیز حملوں کو اظہار رائے کی آزادی کہا جاتا ہے۔ عرب نیوز ویب سائٹ اردو نیوز کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ ہم آزادی اظہار رائے کا احترام کریں گے تو فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون سے متعلق بیان کے وقت آزادی اظہار رائے کہاں چلا گیا۔؟ یہ ستم ظریفی اور منافقت ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ مغرب کا تکبر ہے۔

اس سے قبل بھی فرانس میں مسلمان بچوں کے لیے خصوصی طور پر شناختی نمبر الاٹ کرنے کے اقدام سے متعلق ایک خبر پر انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے کہا تھا کہ ایمانوئیل میکرون مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں، جو نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ کیا، جس میں نازی جرمنی میں یہودیوں کو بھی شناخت کے لیے اپنے لباس پر پیلے رنگ کا ستارہ پہننے پر مجبور کیا گیا تھا۔ بعدازاں فرانس کے وزیر خارجہ ایگنس وان ڈیر محل نے شیریں مزاری کے بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ نفرت انگیز الفاظ صریح جھوٹ پر مبنی ہیں، نفرت اور تشدد کے نظریات سے دوچار ہیں۔ چنانچہ ایک ٹوئٹ میں شیریں مزاری نے بتایا کہ فرانسسی سفیر نے مجھے پیغام بھیجا ہے کہ جس مضمون کا حوالہ دے کر آپ نے نازیوں اور یہودیوں والی بات کہی، دراصل اس آرٹیکل میں معلومات غلط تھیں، اس لیے میں اپنی پہلی والی ٹوئٹ حذف کرتی ہوں۔

مذکورہ تنازع کے حوالے سے وفاقی وزیر نے کہا کہ میں نے جس آرٹیکل سے خبر پڑھی، جب اس سورس نے معافی مانگ لی اور کہا کہ خبر غلط تھی تو مجھے اپنی ٹوئٹ ڈیلیٹ کرنی پڑی، لیکن انہوں نے واضح کیا کہ نہ میں نے فرانس سے معافی مانگی ہے اور نہ میرا ارادہ ہے، جبکہ معافی مانگنے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے، میں نے خبر پڑھ کر اس پر اپنا تجزیہ دیا تھا، جب وہ خبر واپس ہوگئی تو میں نے ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دی، جبکہ فرانس اور دیگر کئی جگہ پر کہا جا رہا ہے کہ فرانس نے معافی قبول کر لی، فرانسیسی صدر کو توہین محسوس ہوئی ہے، کیونکہ میں نے ان کا موازنہ نازیوں سے کیا، ہاں یہ حساس معاملہ ہے، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو توہین محسوس نہیں ہوتی، جب وہ ہمارے پیغمبرﷺ پر حملہ کرتے ہیں، ان کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، قرآن کو نذر آتش کرتے ہیں تو ہمیں غصہ نہ آئے۔؟

شیریں مزاری نے کہا کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ آئی ہے کہ فرانس میں آزادی اظہار رائے محدود ہے، وہ جو یہ بات کہتے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی ہے، اس پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں نے ایک مسئلہ یہ بھی اٹھایا تھا کہ آپ کی نن (راہبائیں) اپنا مذہبی لباس ہر جگہ پہنتی ہیں، عوامی مقامات پر، بینکوں میں اسی لباس میں جاتی ہیں جبکہ مسلمان عورت کو عوامی مقامات پر حجاب پہننے پر جرمانہ کیا جاتا ہے، یہ کون سی آزادی ہے۔؟ کیا یہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہے؟، فرانس میں ایک اور قانون بنایا گیا ہے، جس کا نوٹس میڈیا نے نہیں لیا، اس قانون کے تحت کسی شہری کی جانب سے جنس کی بنیاد پر ڈاکٹر سے علاج کرانے سے انکار کرنا جرم ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ قانون مسلمان خواتین کے خلاف ہے، کیونکہ مسلمان خواتین مرد ڈاکٹرز کے ساتھ اچھا محسوس نہیں کرتیں، خاص طور گائنی کے حوالے سے یہ حساس معاملہ ہے، لہٰذا اس پر غور کرنا چاہیے کہ ایسا قانون بنانے کی کیا وجہ تھی کہ جس میں خاص طور پر مسلمان خواتین ہدف بنیں۔ وزیر انسانی حقوق نے ایک نازک وقت میں حقیقت پر مبنی سوالات اٹھائے ہیں، مسلمان دانشوروں، حکمرانوں اور میڈیا کیلئے ضروری ہے کہ اس ایشو کو زیادہ توانائی اور جرات کیساتھ اٹھائیں۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بار بار اس کا اظہار کیا گیا ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی دل آزادی اور مقدس ہستیوں کی توہین کیخلاف قانون سازی کی ضرورت ہے، نہ صرف موجودہ حکومت بلکہ اس معاملے کو عالمی برداری کے سامنے ایک تحریک کی صورت میں پیش کرنے اور توہین آمیز حرکات کے حتمی طور پر خاتمے کیلئے مسلمان معاشروں کو زندہ ہونے کا ثبوت دینا چاہیئے۔ ورنہ مغرب ان حرکتوں کے ذریعے نہ صرف عالم انسانیت کو گمراہ کریگا بلکہ مسلمانوں کے درمیان شدت پسندی کو ہوا دینے میں کامیابی کیلیے بھی ان سازشوں کو بروئے کار لاتا رہیگا۔


خبر کا کوڈ: 899503

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/899503/شیریں-مزاری-کا-حقیقت-پسندانہ-بیان-اور-فرانسیسی-وزیر-خارجہ-منافقانہ-ردعمل

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org