0
Tuesday 24 Nov 2020 17:35

پاکستان اسرائیل سفارتی تعلقات، آخر کیا ہونیوالا ہے؟

پاکستان اسرائیل سفارتی تعلقات، آخر کیا ہونیوالا ہے؟
رپورٹ: ایم رضا

اس وقت انٹرنیشنل میڈیا میں اسرائیلی وزیراعظم کے خفیہ دورہ سعودیہ کی دھوم ہے، ہر طرف سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ کہیں سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے تو کہیں پر نئے مواقع کے حوالے سے بات کی جا رہی ہے، تاہم اب پاکستان میں بھی اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے اچانک بحث کا آغاز ہوا ہے۔ نامور پاکستانی صحافی کامران خان نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعے پاکستانی حکومت کو اسرائیل سے قربت بڑھانے کی ترغیب دی ہے جبکہ مبشر لقمان نے اسرائیلی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ دوسری جانب سینیئر سیاستدان مشاہد حسیس سید نے اس معاملے میں پاکستان کے مؤقف کی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ اگر پاکستان فلسطین کاز سے پیچھے ہٹے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرے تو اس کا نقصان اسے کشمیر ایشو میں نقصان کی صورت میں اٹھانا پڑے گا، کیونکہ اسرائیل کی جارحیت کو تسلیم کرنے کے بعد پاکستان کسی بھی طرح کشمیر میں ہندوستانی جارحیت کیخلاف آواز بلند کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے گا۔ اسلام ٹائمز نے مبشر لقمان، کامران خان اور مشاہد حسین سید کا مؤقف اپنے قارئین کیلئے پیش کیا ہے۔

کامران خان:
معروف اینکر پرسن کامران خان نے پاکستان کی اسرائیل سے متعلق پالیسی میں نظرثانی کا مطالبہ کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور اسرائیلی وزیراعظم کی ملاقات پر ردعمل دیتے ہوئے کامران خان نے کہا ہے کہ اسرائیلی میڈیا نے تاریخی خبر دی ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات کی ہے، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی اس ملاقات میں موجود تھے، اب بس سعودی عرب کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا رسمی اعلان ہونا باقی ہے۔ کامران خان نے کہا کہ پاکستان کو بھی اسرائیل سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ خادم الحرمین و الشریفین اور عرب بھائیوں کی جانب سے پاکستانیوں کے لئے پیغام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قوموں کے مستقل دشمن یا دوست نہیں ہوتے، صرف مفادات کو دیکھا جاتا ہے، پاکستان اس حوالے سے اپنے آپشنز استعمال کرنے سے کیوں شرما رہا ہے۔

مبشر لقمان:
سینیئر اینکرپرسن مبشر لقمان  ایک اسرائیلی ٹی وی پر جلوہ افروز ہوئے ہیں اور وہاں انہوں نے اسرائیل کی تعریفیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل ایک عظیم ملک ہے اور اسرائیلی ایک اہم قوم ہے، وہ سروائیورز ہیں، اسی طرح پاکستان بھی عظیم ملک ہے اور پاکستانی بہت ہی مضبوط اور عظیم قوم ییں، اس لئے یہ دونوں کے فائدے میں ہے کہ یہ اپنے تعلقات قائم کریں۔ اس پر میزبان کے سوال پر کہ کیا یہ سب پاکستانی حکومت و ریاست کے لئے کرنا آسان ہوگا؟ ان کا کہنا تھا کہ یہ ستر سالوں کی دشمنی کی داستان ہے، جو کہ پلک جھپکتے میں نہیں ختم ہوگی، پاکستانی اسرائیل کے بارے میں سوائے منفی باتوں کے کچھ نہیں جانتے، نہ ہی اسرائیلی پاکستان کے بارے میں کچھ اور جانتے ہیں، ہمیں عوام کو شعور دینا ہوگا، انہیں اس معاملے کا دوسرا تعارف دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور اسرائیل جب بھی ہاتھ ملائیں، انہیں یہ براہ راست کرنا چاہیئے، کسی تیسری ریاست کو بیچ میں نہیں پڑنا چاہیئے۔

مشاہد حسین سید:
سینیئر سیاستدان مشاہد حسین سید نے کہا کہ عمران خان نے اسرائیل کے حوالے سے جو مؤقف اپنایا ہے، وہ پاکستان کا دیرینہ مؤقف ہے، جو مؤقف پاکستان کا فلسطین کے حوالے سے ہے، اس کا عرب لیگ یا او آئی سی سے کوئی تعلق نہیں ہے، 1947ء میں قائداعظم محمد علی جناح نے جو پوزیشن اسرائیل کے حواالے سے لی تھی، ہم آج بھی اس پر قائم ہیں، 1940ء میں دو قراردادیں آئی تھیں، ایک قرارداد پاکستان اور دوسری قراردار فلسطین، ہمارا جو مؤقف ہے کشمیر پر، اگر ہم فلسطینی مؤقف سے پیچھے ہٹتے ہیں اور اسرائیل کو قبول کرتے ہیں تو ہمیں ہندوستان کے کشمیر پر قبضے کو قانونی طور قبول کرنا پڑے گا، دونوں ایشوز یکساں ہیں، ایک مشرق وسطیٰ میں دوسرا جنوبی ایشیاء میں، اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطلب ہے کشمیر پر جو ہمارا مؤقف ہے اس کو ہم خیرباد کہہ دیں گے، تو یہ ہم نہیں کرسکتے، یہ ہماری اسٹیٹ پالیسی کا حصہ ہے۔

سب جانتے ہیں، یہ پوزیشن نواز شریف نے بھی لی تھی، بینیظیر کے دور میں بھی یہی پالیسی تھی، ذوالفقار علی بھٹو نے تو اسرائیل کیخلاف اپنی فوج بھیجی تھی، دنیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے کہ جس نے دونوں عرب اسرائیل جنگوں میں عرب نہ ہونے کے باوجود بھی حصہ لیا، ہم تو اس حد تک گئے، جہاں تک کوئی مسلمان ملک نہیں جاسکا، ہماری بڑی کاوشیں اور قربانیان ہیں فلسطین کاز کیلئے۔ نیتن یاہو اور بن سلمان کی ملاقات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت واضح بات ہے کہ ملاقات ہوئی ہے اور تین افراد کے درمیان ہوئی ہے، نیتن یاہو موساد چیف کے ہمراہ سعودی عرب آئے تھے، وہاں سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو بھی موجود تھے اور شہزادہ محمد بن سلمان موجود تھے۔ واشنگٹن پوسٹ، یروشلم پوسٹ اور ٹائمز آف اسرائیل نے اس ملاقات کی پوری تفصیلات دنیا کے سامنے پیش کردی ہیں، حتیٰ فلائٹ نمبر بھی شائع ہوا ہے۔

یہ ملاقات کوئی سرپرائز نہیں ہے، کیونکہ امریکی الیکشن جو ہوا ہے، جس میں بائیڈن اب امریکی صدر بن رہے ہیں، وہ سعودیہ کیلئے بڑا دھچکا ہے، ٹرمپ کے جانے کے بعد سعودیوں کو نئے دوستوں اور حلیفوں کی ضرورت ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ واشنگٹن کا راستہ بذریعہ تل ابیب ہے، ہر ریاست کا حق ہے کہ وہ جس طرح چاہے کہ اپنے قومی مفاد کو آگے بڑھائے، لیکن یہ بھی واضح ہے کہ اس وقت جو عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں، وہ کمزوری کی پوزیشن سے کررہے ہیں، کیونکہ اس وقت عرب دنیا کی پوزیشن تقسیم بھی ہے، کمزور بھی ہے، اسی لئے انہوں نے ترکی سے بھی ہاتھ بڑھایا ہے صلح کا اور اسرائیل کی طرف بھی ہاتھ بڑھایا ہے دوستی کا۔
خبر کا کوڈ : 899671
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش