1
0
Tuesday 24 Nov 2020 15:10

مبشر لقمان اور اسرائیل کی عظیم قوم

مبشر لقمان اور اسرائیل کی عظیم قوم
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان

حالیہ دنوں اسرائیلی ٹی وی چینل آئی 24 پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے ایک مشہور و معروف صحافی مبشر لقمان نے اسرائیل کی قوم کو ایک عظیم قوم قرار دیا اور یہ کوشش کی کہ پاکستان اور اسرائیل کے مابین تعلقات کی راہ ہموار کی جائے۔ بہرحال یہ ان کی اپنی ذاتی رائے تو ہوسکتی ہے لیکن پاکستان میں بسنے والے بیس کروڑ سے زائد نفوس اس بات سے بالکل متفق نہیں ہیں۔ ان بیس کروڑ لوگوں کا متفق نہ ہونا بھی دلائل اور حقائق کی روشنی میں سمجھ آتا ہے لیکن مبشر لقمان جیسے ایک صحافی کی زبان سے اسرائیل جیسی خونخوار اور غاصب ریاست کے لئے قصیدے سن کرحیرت کے ساتھ ساتھ افسوس بھی ہوا۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ بھی احساس ہوا ہے کہ پاکستان میں کالی بھیڑیں کہاں کہاں اور کس کس لبادے میں موجود ہیں۔

مبشر لقمان نے اسرائیل کی قوم کو ایک عظیم قوم قرار دیتے ہوئے اسرائیلی نیوز چینل پر گفتگو کو جاری رکھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومیں کب اور کیسے عظیم ہوتی ہیں، کیا ایسی قوم عظیم ہوسکتی ہے کہ جس نے دوسروں کے گھر میں ڈاکہ ڈالا ہو، کیا ایسی قوم عظیم ہوسکتی ہے کہ جس نے دوسروں کی زمین پر ناجائز قبضہ کیا ہو، کیا ایسی قوم کو عظیم قرار دیا جا سکتا ہے کہ جس کا بچہ بچہ نسل پرستی کے بھوت پر سوار ہو کر دوسرے انسانوں کے قتل کو جائز سمجھتا ہو۔ اسرائیل میں بسنے والی صہیونی قوم جو فلسطین پر غاصب ہے، اس کے بارے میں اس طرح کے سیکڑوں سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ اس بات کا بھی یقین ہے کہ ان سوالات میں سے شاید مبشر لقمان اور ان جیسے دیگر افراد ایک سوال کا بھی مناسب جواب نہ دے پائیں۔

اب بات کرتے ہیں اسی انٹرویو میں پاکستان اور اسرائیل کے مابین تعلقات سے متعلق بات کی۔ جیسا کہ مبشر لقمان نے اس انٹرویو میں یہ تاثر پیدا کیا ہے کہ پاکستان اور اسرائیل باہم تعلقات قائم کر لیں اور ایک دوسرے سے ان کو سیکھنا چاہئیے تو یہاں بھی ذی شعور انسانوں اور بالخصوص ہر اس پاکستانی کے لئے سوال پیدا ہوتے ہیں کہ جو قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنا رہنماء مانتا ہے۔ مبشر لقمان نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اسرائیلی نیوز چینل کو انٹرویو دیا اور پھر اس انٹرویو میں ایسے سوالات کو اٹھایا کہ جن کے ذریعہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کی بحث کو جنم دیا جا سکے۔ یہ سب کچھ انہوں نے ایسے وقت میں انجام دیا کہ جب دوسری طرف غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا وزیراعظم سرزمین مقدس حجاز پر سعودی حکمرانوں سے ملاقات کر رہا تھا۔ اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ مبشر لقمان نے باقاعدہ طور پر حکومت پاکستان کے خلاف ایک بین الاقوامی سازش کا حصہ بنتے ہوئے حکومت پاکستان کو دبائو کا شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔

حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ حکومت پاکستان پہلے ہی امریکہ اور عرب ممالک کے دبائو کا سامنا کر رہی ہے اور اس بات کا اظہار خود وزیراعظم پاکستان عمران خان کرچکے ہیں۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اس تمام تر دبائو کے باجود بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ اب سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر کامران خان، غریدہ فاروقی اور مبشر لقمان کی طرح دیگر افراد مسلسل پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اس موقع پر سینیٹر مشاہد حسین سید نے کامران خان کے ٹی وی شو میں ان کی اس سازش کو بہترین انداز سے ناکام بنایا ہے۔ مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ صیہونی ریاست کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے جو مؤقف وزیراعظم عمران خان نے اپنایا ہے، وہ پاکستان کا دیرینہ مؤقف ہے، جس کا عرب لیگ یا او آئی سی سے کوئی تعلق نہیں۔

ان تمام صحافیوں اور دانشوروں کے لئے صرف یہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ وہ پہلے قیام پاکستان کے مقاصد پڑھ لیں۔ اسرائیل کے حوالے سے قائد اعظم محمد علی جناح نے 1940ء میں دو قراردادیں پیش کی تھیں، جس میں ایک قرارداد پاکستان تھی، دوسری قرارداد فلسطین تھی، پاکستان وہ واحد غیر عرب ملک ہے، جس نے اسرائیل کے خلاف دو جنگیں لڑی ہیں۔ جس میں 1967ء میں اردن کی جانب سے جبکہ دوسری 1973ء میں شام کی طرف سے۔ پاکستان تو اسرائیل کے خلاف اس حد تک گیا ہے، جتنا کوئی دوسرا ملک نہیں گیا۔ پاکستان کی فلسطین کے حوالے سے بڑی قربانیاں ہیں۔ ہم اپنے دیرینہ مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔

ان تمام عناصر سے سوال ہے کہ بتایئے جن ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے، ان کو کیا فوائد حاصل ہوئے ہیں اور وہ فوائد پاکستان حاصل نہیں کر پایا۔ مصر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اسی طرح ترکی کی صورتحال بھی ہمارے سامنے ہے۔ اب اگر متحدہ عرب امارات اور بحرین نے تسلیم کیا ہے تو وہ کون سے ایسے فوائد حاصل کر رہے ہیں کہ جو پاکستان کو حاصل نہیں ہیں۔ ان تمام سوالات کے جواب شاید مبشر لقمان اور کامران خان سمیت غریدہ فاروقی جیسے صحافیوں کے پاس موجود نہ ہوں گے، کیونکہ انہوں نے اسرائیل کو ایک ایسی عینک سے دیکھنا شروع کیا ہے، شاید کسی اور کے پاس دنیا میں موجود نہیں ہے اور شاید یہ شخصیات بانیان پاکستان سے زیادہ عقل و فہم اور فراست رکھتے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کی عظیم قوم عالمی استعمار، اس کے ایجنٹوں اور بالخصوص صہیونیوں کی پاکستان کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کی خواہش کو کبھی پورا نہیں ہونے دیں گے۔ چاہے ماضی کے حکمران ہوں یا موجودہ حکمران ہوں، سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ دوستی اور تعلقات کا مطلب ہے کہ حکومت کا خاتمہ اور اقتدار سے علیحدگی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نابود ہو رہا ہے اور ایسے حالات میں اسرائیل کو عرب دنیا کے کمزور سہارے زیادہ دیر تک آکسیجن فراہم نہیں کرسکیں گے۔ اسرائیل ایک غاصب اور جعلی ریاست ہے، جس کے ساتھ تعلقات بنانا پاکستان کے لئے کشمیر موقف سے دستبرداری پر انجام پذیر ہوگا۔ جو موقف پاکستان کا مقبوضہ کشمیر پر ہے، وہی موقف مقبوضہ فلسطین پر ہے۔ اگر ہم فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کرتے ہیں تو یہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے قبضے کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔

دونوں علاقوں کا مسئلہ ایک سا ہے، ایک مشرق وسطیٰ میں ہے تو دوسرا جنوبی ایشیاء میں، اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مقصد ہے کہ پاکستان کشمیر پر اپنے درینہ موقف کو بھی خیرباد کہہ دے اور یہ ہم کر نہیں سکتے۔ یہ ہماری قومی پالیسی ہے، فلسطین ہمارے لئے بہت مقدس ہے تو کشمیر بھی ہمارے لئے بہت اہم ہے۔ ہمیں من حیث القوم ہر اس عنصر کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی، جو پاکستان کی پالیسی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے مبشر لقمان جیسے انٹرویو اور بیانات دیتا ہے۔ ہمیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کے اسرائیل نامنظور موقف کی حمایت جاری رکھنا ہوگی۔ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے اور اسرائیل ایک جعلی ریاست ہے۔
خبر کا کوڈ : 899686
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بانو
Italy
بہت بڑا غدار ہے صحافی بشیر لقمان، گھانا طرف گیا ہے اور انکی جیب میں بڑا لفافہ آگیا ہے۔ ایمان بیچنے کی رقم، شرم اور انصاف بیچنے کے رقم مل گئی انکو اور جو جو اسرائیل کو تسلیم کرے، اللہ فیصلہ کر لے گا، اسکی لاٹھی بے آواز ہے۔ ان شاء اللہ
ہماری پیشکش