QR CodeQR Code

عربوں کی بدمعاشی کے مقابلے میں ہمارے حکمرانوں کی بے حسی(1)

27 Nov 2020 11:56

اسلام ٹائمز: بڑے افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہی اسلامی سپر پاور ملک عربوں کی نہایت چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے مقابلے میں بالکل موم ہے۔ بے چارے کی حالت یہ ہے کہ مکڑی کے جالے سے نازک ابوظہبی جیسے نہایت کمزور ملک کا جواب بھی نہیں دے سکتا، جبکہ سعودی عرب جیسے بڑے ملک کی تو بات ہی علیحدہ ہے، ہر ملک کا یہ آئینی اور سیاسی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو مناسب روزگار فراہم نیز انکے حقوق کا خیال رکھے۔ انہیں ہر طرح کی مذہبی اور سیاسی آزادی فراہم کرے۔ کسی بھی ملک کے اندر اگر اسکے کسی شہری کو کوئی مشکل پیش آئے تو اسکی فورا خبر لے۔ مگر پاکستان اس حوالے سے دنیا کا انوکھا اور واحد ملک ہے، جسکے شہریوں کو اگر کسی چھوٹے سے ملک میں زندہ جلایا جائے تو بھی یہ اپنے ملک میں موجود اس ملک کے سفیر سے احتجاج تک نہیں کرسکتا۔


تحریر: روح اللہ حسینی

عرب ممالک کی اسلامی حمیت، غیرت اور استقامت کے حوالے سے ہر کس و ناکس بخوبی جانتا ہے کہ اسلامی دنیا کے اتحاد خصوصاً مسئلہ فلسطین کے حوالے سے سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کی خوشنودی میں وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں شرم تک محسوس نہیں کرتے اور اپنے آقاؤں کے مفادات نیز ان کی اسلحہ مارکیٹ گرم رکھنے کی خاطر وہ جگہ جگہ اپنوں ہی کے مابین جنگ کی آگ بھڑکانے کی گرانقدر خدمات انجام دینے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ اسرائیل جیسی ایک نہایت چھوٹی سی ریاست کا نام سن کر ان کے ایمان کا فیوز فوراً اڑ جاتا ہے اور وہ منٹوں کے اندر اندر اس کے سامنے سرنڈر کر لیتے ہیں۔ مگر لیبیا، یمن، شام، عراق، بحرین، افغانستان، مصر اور دیگر اسلامی ممالک میں جب کوئی مسئلہ اور تنازعہ پیش آتا ہے تو یہی عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور مصر وغیرہ جنگ کا حصہ نیز ہیرو بننے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہیں۔

یہ چار عرب ممالک اور ساتھ ہی ترکی مسلمانوں کے مابین مزید آگ بھڑکا کر ایک فریق کے مقابلے میں دوسرے کے حلیف بن جاتے ہیں اور وہاں خون کے دریا بہانے پر مبنی گرانقدر خدمات انجام دینے میں یہ سب اپنی مثال آپ ہیں۔ جس کی واضح مثال یمن، شام، عراق، بحرین، نائجیریا، افغانستان اور لیبیا کی اندرونی لڑائی ہے۔ عربوں کی بے غیرتی اور بزدلی کی داستانوں سے ویسے تو تاریخ اور میڈیا کے اوراق بھرے پڑے ہیں، جن کی تفصیل میں پڑنا نہیں چاہتے۔ آتے ہیں اصل مقصد کی جانب۔ وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک ایٹمی اور طاقتور اسلامی مملکت ہے اور ایسے چند ہی ممالک میں شمار ہوتا ہے کہ جو امریکہ اور اسرائیل کی آنکھوں میں خصوصی طور پر کھٹکتے ہیں۔ پاک فوج بلکہ اس کی رضاکار فورس کے بہادری و دلیری کے قصے چار دانگ عالم میں معروف ہیں۔ پاکستان اپنے سے سات تا دس گنا بڑے ملک کو ناکوں چنے چبوانے کی نہ فقط صلاحیت رکھتا ہے، بلکہ اسے متعدد بار عملی میدان میں کرکے بھی دکھایا ہے۔

مگر۔۔۔۔۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہی اسلامی سپر پاور ملک عربوں کی نہایت چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے مقابلے میں بالکل موم ہے۔ بے چارے کی حالت یہ ہے کہ مکڑی کے جالے سے نازک ابوظہبی جیسے نہایت کمزور ملک کا جواب بھی نہیں دے سکتا، جبکہ سعودی عرب جیسے بڑے ملک کی تو بات ہی علیحدہ ہے، اس کا تو یہاں راج ہے۔ اس کے کہنے پر تو فیصلے ہوتے بھی ہیں اور بدلتے بھی ہیں۔ پاکستان میں عرب شہزادوں کی من مانیوں کے قصے کہانیاں تو آپ پہلے ہی سن چکے ہیں کہ بلوچستان، سندھ، پنجاب اور کے پی کے ممنوعہ علاقوں میں کھلے عام شکار کرتے ہیں اور انہیں کسی لائسنس کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ خصوصاً تلور کے شکار کے موقع پر عرب شہزادوں کے لئے ان ممنوعہ علاقوں کو خصوصی طور پر خالی کرایا جاتا ہے، تاکہ معزز مہمانوں کے لئے کوئی مشکل پیش نہ آئے۔

ہر ملک کا یہ آئینی اور سیاسی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو مناسب روزگار فراہم نیز ان کے حقوق کا خیال رکھے۔ انہیں ہر طرح کی مذہبی اور سیاسی آزادی فراہم کرے۔ کسی بھی ملک کے اندر اگر اس کے کسی شہری کو کوئی مشکل پیش آئے تو اس کی فوراً خبر لے، مگر پاکستان اس حوالے سے دنیا کا انوکھا اور واحد ملک ہے، جس کے شہریوں کو اگر کسی چھوٹے سے ملک میں زندہ جلایا جائے تو بھی یہ اپنے ملک میں موجود اس ملک کے سفیر سے احتجاج تک نہیں کرسکتا۔ پاکستان کے شہریوں سے پوری دنیا میں کیا کیا سلوک ہوا کرتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے حوالے سے تو کچھ کہنا، خاکم بدھن، ہم اپنے اقتدار کی بھیک پاکستان ہی سے مانگنے والے چھوٹے چھوٹے عرب ممالک سے بھی احتجاج کی پوزیشن میں نہیں۔ آپ نے کبھی یہ نہیں سنا ہوگا کہ پاکستان نے اپنے شہریوں کی مظلومیت کے خلاف سفارتی سطح پر کوئی احتجاج کیا ہو۔

دس سال پہلے ابوظہبی، فجیرہ، عجمان اور راس الخیمہ میں پاکستانی شہریوں کے ساتھ کیا ہوا۔ انہیں نہایت ظالمانہ طریقے سے نکالا گیا۔ مگر پاکستان نے ان سے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ آج دس سال بعد وہی سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا ہے۔ اس مرتبہ مذکورہ ریاستوں کے علاوہ دوبئی نے بھی اسرائیل اور ہندوستان کے اشارے پر پاکستان کے شہریوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ اور ناروا سلوک شروع کر دیا ہے کہ جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ دس سال پہلے ناپسندیدہ پاکستانیوں کو نوٹس جاری کیا جاتا تھا اور انہیں تین دن سے لیکر ایک ہفتہ تک اپنا حساب کلیئر کرنے کا کہا جاتا اور پھر انہیں ملک بدر کیا جاتا۔ اس مرتبہ مسئلہ کچھ یوں ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بغیر کسی جرم و گناہ کے گرفتار کیا جاتا ہے اور پھر انہیں مہینوں تک لاپتہ کرایا جاتا ہے۔ اس دوران انہیں نہایت ذلیل اور خوار کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان یا کسی بھی ملک میں موجود ان کے پاکستانی خانوادوں کو نفسیاتی طور پر خوب ٹارچر کرایا جاتا ہے۔ مہینوں اپنے پیاروں کے انتظار میں بیٹھے پاکستانی خانوادوں پر اس دوران کیا گزر رہی ہوگی، یہ پتہ تو انہی کو ہوگا۔

ایسے درجنوں خانوادوں اور حال ہی میں در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد امارات سے لوٹنے والوں سے بندہ کی ملاقاتیں ہوئیں۔ انہوں نے اپنا ماجرا بیان تو کیا، مگر اس شرط پر کہ اسے میڈیا پر نہ لایا جائے، یا کم از کم ان کا نام ذکر نہ کیا جائے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ اکثر ایسے ہیں کہ ان کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار ابھی تک وہاں موجود ہے۔ چنانچہ انہی کے خوف سے انہوں نے اپنے ہونٹ سی لئے ہیں۔ اسلام آباد میں رہائش پذیر پشاور کے ایک مظلوم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سواری اٹھا کر روبمنزل رواں تھا کہ کال آئی۔ بتایا گیا کہ پولیس اسٹیشن پہنچ جائیں۔ دل میں شک ہوا کہ پروردگارا! ابھی تک کوئی خلاف ورزی تو نہیں کی ہے، کیا ہوا۔ پولیس پہنچی، گاڑی سے اتارا گیا۔ آنکھوں پر پٹی، ہاتھوں میں ہتھ کڑیاں اور پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر دوسری گاڑی میں بٹھایا گیا۔ گاڑی کافی دیر چلتی رہی، کسی مقام پر اس گاڑی سے اسے ایک بڑی گاڑی میں تبدیل کیا گیا۔ اس میں پہلے ہی سے کچھ افراد بیٹھے تھے۔

یہ گاڑی بھی چل پڑی تو آگے کئی مقامات پر روکوا کر مزید کئی افراد کو ہمارے ساتھ بٹھایا گیا۔ جن کا ہمیں آواز سے پتہ چلتا تھا۔ پھر گھنٹہ بھر سفر کے بعد ایک پولیس اسٹیشن پہنچا کر لفٹ کے ذریعے مطلوبہ منزل پر پہنچایا گیا۔ علیحدہ کمرے میں کئی دن رکھا گیا۔ اس دوران موبائل اور سب کچھ چھین کر ہماری چیکنگ ہوئی اور کئی مرتبہ ہماری تفتیش بھی کی گئی۔ پانچ چھ دن کے بعد ہمیں کسی اور جگہ منتقل کیا گیا۔ جہاں ہمیں دوسرے لوگوں کے ساتھ رکھا گیا۔ تاہم کسی سے رابطہ اور بات کرنے کا کوئی موقع میسر نہ ہوا۔ اس دوران کئی ایسے افراد کی زیارت بھی ہوئی، جنہیں ہم پہلے ہی سے جانتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ دس دن تک یہاں رکھنے کے بعد خالی ہاتھ پشاور ائر پورٹ پر اتارا گیا۔ جہاں اس کے پاس رکشے کے پیسے تھے، نہ ہی کسی سے رابطہ کرنے کا وسیلہ۔ کئی افراد سے خواہش ظاہر کی ہمارا گھر والوں کے ساتھ رابطہ کراوائیں، مگر ناکامی ہوئی۔ بالآخر باہر روڈ پر آکر ایک رکشے ڈرائیور نے رابطہ بھی کرایا اور ماجرا سن کر پشاور صدر تک مفت پہنچا بھی دیا۔ گھر والوں نے دوستوں کے توسط سے بندوبست کرایا اور یوں گھر پہنچ گیا۔

ایسے ہی متاثرین میں سے ایک اور کا کہنا تھا کہ اپنی دکان سے مالک کے پیسے لیکر بنیک جا رہا تھا کہ راستے میں پولیس نے روک کر گرفتار کر لیا اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر نامعلوم مقام پر پہنچا دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس سے بہت التجا کی کہ آگے جو کرنا ہے کر لیں، مگر کفیل کے ساتھ اپنا حساب کتاب تو کرنے دیں۔ جس کے جواب میں مار کھانی پڑی۔ کوئی بات نہیں سنی گئی۔ جیل میں کھانا تو ملتا تھا، تاہم نماز اور واش روم تک رسائی کی اجازت لینی پڑتی تھی۔ کرم کے علاقے پاڑہ چمکنی کے ایک اور بندہ خدا نے کہا کہ اپنی قیام گاہ سے باہر آکر ڈیوٹی پر جاتے ہوئے اسے اٹھایا گیا اور گاڑی میں ڈال کر نامعلوم مقام پر پہنچایا گیا۔ وہاں اس کے ساتھ انتہائی برا سلوک کیا گیا۔ گالی گلوچ کھانے پڑے اور کہا کہ تم پٹھان لوگ سب کے سب دہشتگرد ہو۔ انہوں نے جواباً کہا کہ ہم غریب لوگ ہیں، اپنے بال بچوں کے لئے مزدوری کرتے ہیں۔ ہمارا ایسے لوگوں سے کیا واسطہ؟ مگر وہ برابر گالم گلوچ کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی روز تک زیر حراست رہنے کے بعد جب اسے جہاز میں بٹھایا گیا تو اسکے پاس گاؤں تک کرایہ تو کیا رکشے کا کرایہ بھی نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ جہاز میں سوار پاراچنار کے دیگر متاثرہ ساتھیوں نے مجھے اپنے ساتھ بٹھا کر صدہ میں اتار دیا۔

ٹل سے تعلق رکھنے والے میرے ایک دوست ظہیر کے کزن نے کہا کہ کمپنی میں کام کرنے کے بعد اپنی قیام گاہ آرہا تھا، اپنی قیام گاہ کے ساتھ سٹیشن میں اتر کر آگے بڑھا تو شرطہ نے بطاقہ چیک کیا اور پھر گاڑی میں بٹھا کر پولیس سٹیشن اور وہاں سے جیل پہنچا دیا۔ انہوں نے کہا کہ کئی دن تک الگ کمرے میں رکھا گیا۔ جہاں دن اور رات کا کوئی پتہ نہیں چلتا تھا۔ واش روم جانے کیلئے دروازہ کھٹکٹانا پڑتا اور دو تین منٹ کے اندر اندر رفع حاجت اور طہارت کرنا پڑتی۔ تاہم کھانا ٹھیک طرح سے ملتا تھا۔
کرم کے ایک اور شخص نے بتایا کہ اس کا اپنا کاروبار تھا۔ ظہر کے وقت اسے اپنے دفتر سے اٹھا لیا گیا اور نہایت ذلالت کے ساتھ اسے جیل منتقل کیا گیا۔ اپنا حساب کتاب کلیئر کرنے کی بہت منت سماجت کی، مگر جواباً مکے اور تھپڑ کھانے پڑے۔ کئی ہفتے تنہائی میں رکھ کر پوچھ گچھ کی گئی، موبائل کا پورا ڈیٹا چیک کیا گیا۔

پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں موجود بعض رشتہ داروں کے نمبرز کو خصوصی طور پر چیک کیا گیا۔ اس حوالے سے تمام ڈیٹیل پوچھی گئیں کہ یہ بندہ وہاں کیا کرتا ہے۔ ہم نے سچائی کے ساتھ تمام اصل حقائق انہیں بتا دیئے۔ پھر کئی ہفتے بعد اسے اپنے کپڑوں تک رسائی نہیں دی گئی اور پینٹ شرٹ ہی میں کراچی بھیج دیا گیا۔ کراچی میں اس کا کوئی جاننے والا، نہ ہی کوئی دوست و رشتہ دار، وہاں بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ جس ذلت اور شرمندگی کا سامنا اسے کراچی میں کرنا پڑا ہے، اسے عمر بھر یاد رکھوں گا۔ انہوں نے اپنی ملکی قیادت سے مطالبہ کیا کہ اماراتی حکومت پر دباؤ ڈال کر یہ سلسلہ بند کرائے اور متاثرین کے بند اثاثوں کو لوٹانے کا فوری طور پر بندوبست کرائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 900239

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/900239/عربوں-کی-بدمعاشی-کے-مقابلے-میں-ہمارے-حکمرانوں-بے-حسی-1

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org