0
Friday 27 Nov 2020 18:48

تحفظ بنیاد اسلام بل، کیا کہتے ہیں اہل علم(3)

تحفظ بنیاد اسلام بل، کیا کہتے ہیں اہل علم(3)
رپورٹ: آئی اے خان

مجموعی طور پہ دیوبندی اور اہل حدیث علماء نے اس بل کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے اپنے فرقہ کی فتح قرار دیا ہے۔ اس پر باقاعدہ مٹھائیاں بھی بانٹی گئیں۔ بریلوی مکتب فکر تقسیم جبکہ اہل تشیع نے مکمل طور پر اس بل کو رد کیا اور اسے مکتب اہلبیت پر پابندی کا بل قرار دیتے ہوئے اسے کسی بھی صورت میں ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ ایک بات واضح ہے کہ جب پاکستان کشمیر کا مقدمہ لڑ رہا تھا اور انڈیا سے بہت کشیدگی کے حالات ہیں، اس بل نے پاکستان کو سخت مسلکی اختلاف کی راہ پر لا کھڑا کیا اور اس بل کو پاکستان کے خلاف ایک بھیانک سازش کے ضمن میں بھی محسوس کیا گیا۔ ایک معروف سنی عالم نے اسے درود والوں پر بارود والوں کا ناکام خودکش حملہ قرار دیا جبکہ اہل تشیع کی دونوں بڑی جماعتوں نے اسے مکتب اہلبیت پر پابندی عائد کرنے کی کوشش قرار دیا۔

مفتی گلزار نعیمی نے 26 جولائی کے اپنے بیان میں کہا کہ چوہدری پرویز الہیٰ اپنے والد چوہدری ظہور الہیٰ کے برعکس ہمیشہ مظلوموں کے خلاف اور ظالموں کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ اہل بیت رسول (ص) پر نماز میں درود واجب ہے۔ انہیں زبردستی رضی اللہ عنہ لکھا جا رہا ہے، توہین کے قوانین موجود ہیں، مزید قوانین کی ضرورت نہیں ہے،  پرویز الہیٰ محض وزارت کے لیے یہ کھیل کھیل رہے ہیں۔ شیعہ علماء کونسل کے جنرل سیکرٹری علامہ عارف حسین واحدی نے بل کو مکمل طور پر رد کیا اور اس کے نام فکر اور تکفیری سوچ پر مشتمل ایک دستاویز سپیکر پنجاب اسمبلی کو دی۔ بی بی سی اردو نے 27 جولائی کو یہ ڈاکومنٹ مکمل تجزیئے کے ساتھ شائع کیا ہے۔ مفتی منیب الرحمان نے 29 جولائی کی پریس کانفرنس میں کہا کہ ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ بعض داخلی و خارجی قوتیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ملک کو فرقہ وارانہ تصادم کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ قومی سلامتی کے ادارے صورتحال کا ادراک کریں، ورنہ ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ خلفاء راشدین کا اعلانیہ انکار کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے۔

17 اگست کو "امت واحدہ" کے زیراہتمام ایک آن لائن کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پیر غلام رسول اویسی نے کہا کہ فرقہ واریت نے پاکستان کو ناقابل تلافی جانی اور معاشی نقصان پہنچایا ہے۔ یہ جن 15 سال بعد قابو میں آیا تھا مگر اب اس بل کے ذریعے سے جان بوجھ کر دوبارہ فرقہ واریت پھیلانے کی باقاعدہ پلاننگ کی گئی ہے۔ 17 اگست کو "امت واحدہ" کے زیراہتمام  آن لائن کانفرنس سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا امین شہیدی نے کہا کہ جب سے کرونا کی صورتحال پیدا ہوئی ہے، پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے کی حکومتی سطح پر کوششیں ہو رہی ہیں۔ پاکستان کی شیعہ، سنی، اہل حدیث اور دیوبندی سب کو مل کر حفاظت کرنی چاہیئے۔ پاکستان ہمارا گھر اور ہماری شناخت ہے۔ ایک عرصہ تک ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں دہشت گردی کی آگ لگی اور ان پالیسیوں کے نتیجے میں چھوٹے چھوٹے دہشتگرد گروہ بنائے گئے۔

پھر ایک دن ان گروہوں نے اپنے ہی بنانے والے کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ گذشتہ آٹھ ماہ سے مسلسل اہل تشیع کے خلاف غلیظ پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور ریاستی ادارے اس کی سرپرستی کر رہے ہیں، کبھی آپ نے سنا ہے کہ کسی بھی شیعہ اکثریتی علاقے مثلاً بلتستان یا گلگت میں کسی اہل حدیث دیوبندی یا کسی دیگر مسلک کی مسجد پر کسی نے پتھر بھی پھینکا ہو؟ جھوٹے پروپیگنڈے کا ہمیں مل کر امن و اتحاد سے جواب دینا ہوگا۔ مسلم سکالرز کی عالمی تنظیم کے سیکرٹری جنرل علی القاراداغی نے کہا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کے معاہدے اسلام کو نیچا دکھانے اور کمزور کرنے کے سلسلے کی کڑی ہیں۔

وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چار عشروں سے پاکستان کو لسانی، مذہبی، مسلکی، علاقائی بنیادوں پر عدم استحکام کا شکار کرنے کی سازش ناکام ہوچکی، اب آخری کوشش اہل تشیع، سنی، بریلوی، دیوبندی، سلفی کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے کی سازش ہو رہی ہے۔ نورالحق قادری نے انکشاف کیا کہ "اسرائیل میں موساد کی ایک خاتون رکن جعلی اکاونٹ سے فرقہ وارانہ مواد پھیلا رہی ہے، یہ خاتون عائشہ کا نام استعمال کر رہی ہے۔ یہ خاتون بہت اچھی عربی بولتی ہے، یہ خاتون فرقہ وارانہ مواد سوشل میڈیا پر بھیج دیتی ہے اور پھر اہل تشیع اور سنی مکتبہ فکر کے لوگ خود سے اسے پھیلاتے ہیں۔ وزیر مذہبی امور کا کہنا تھا کہ کچھ سال پہلے مکہ مکرمہ میں آٹھ فرقوں کو "اعلان مکہ" میں امت تسلیم کیا گیا، اختلاف رائے رحمت ہے، جبکہ اختلاف پیدا کرنا زحمت ہے۔

علماء بورڈ کے سربراہ اور وزیراعظم کے مشیر مولانا طاہر اشرفی نے مصالحت کی بجائے مسلکی راستہ اپنایا اور ویڈیو بیان میں اہل تشیع کی تکفیر کا حیران کن اعلان کر دیا، جبکہ وہ اکثر شیعہ علماء سے شیر و شکر دکھائی دیتے ہیں۔ شیعہ علماء کونسل شمالی پنجاب کے صدر مولانا سبطین سبزواری نے ان کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔ جے یو پی نیازی کے صدر اور معروف پیر معصوم نقوی نے بل پر گہری تشویش کا اظہارکرتے ہوئے اسے غیر ضروری قرار دیا۔ جمعیت کی مرکزی مجلس عاملہ نے بل کو مسترد کرتے ہوئے گورنر پنجاب سے اس پر دستخط نہ کرنے اور اسے اسمبلی کو واپس بھجوانے کی اپیل کی۔ اجلاس میں واضح کیا گیا کہ تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ کو اعتماد میں لئے بغیر بل منظور کرانا ملک کو فرقہ واریت کی آگ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ امن، اتحاد اور ترقی کا واحد فارمولا یہ ہے کہ اپنا مسلک چھوڑو نہیں اور کسی کا مسلک چھیڑو نہیں، ملکی سطح پر مشاورت کے بغیر ایسا کوئی شوشہ نہیں چھوڑنا چاہیئے۔

مولانا ابتسام الہیٰ ظہیر جمیعت اہلحدیث کے رہنماء نے کہا کہ اتنا عظیم بل پیش کرنے پر ہم چوہدری پرویز الہیٰ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں، یہ ان کا عظیم کارنامہ ہے۔ ڈاکٹر محمد حسین اکبر نے کہا کہ یہ بل قرآن و سنت کے خلاف اور دہشتگردوں کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے، اس کی منسوخی تک ہم احتجاج جاری رکھیں گے۔ مولانا اسرار مدنی نے اپنے فیس بک  پیج پر لکھا کہ آئین پاکستان کی رو سے مسلمان سے مراد ایسا شخص ہے، جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی توحید، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اللہ کے آخری پیغمبر ہیں، کے خاتم النبین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان رکھتا ہو اور کسی بھی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم نہیں کرتا، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی بھی مفہوم میں یا کسی بھی قسم کے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہو یا دعویٰ کیا ہو۔

غیر مسلم سے مراد ایسا شخص ہے، جو مسلم نہ ہو اور اس میں عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ یا پارسی فرقہ سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص، قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ جو خود کو احمدی یا کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں، کا کوئی شخص یا کوئی بہائی اور جدولی ذاتوں میں سے کسی سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص شامل ہیں۔ مذکورہ بالا تعریف کے مطابق پاکستان میں مسلمانوں کے تمام فرقے مسلمان ہیں۔ مسلمان کی اس تعریف پر تمام مسالک (دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ) کے اکابرین علماء متفق ہیں اور آئین پاکستان پر ان کے دستخط موجود ہیں۔
1952ء کی متحدہ علماء کمیٹی، متحدہ مجلس عمل، ملی یکجہتی کونسل، اتحاد تنظیمات مدارس اور دیگر اتحاد میں تمام مسالک کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا، اس بات کی علامت ہے کہ ہر مسلک دوسرے مسلک کو مسلمان سمجھتا ہے۔

مسلمانوں کے یہ فرقے اسلام کے بنیادی اعتقادات جیسے توحید و رسالت، وحی، آسمانی کتابوں کے نزول، آخرت، ملائکہ کے وجود، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاتمیت، تقدیر اور بنیادی ارکان جیسے نماز، روزہ، زکواۃ اور حج کی فرضیت پر یقین اور ایمان رکھتے ہیں۔ آئین پاکستان میں بیان کردہ مسلم اور غیر مسلم کی تعریف کے علاوہ کسی مسلمان فرقے کو کافر قرار دینا اور سمجھنا آئین پاکستان کی صریحا توہین ہے۔ اس لیے ایک مسلمان ریاست میں رہتے ہوئے اس طرح کا تکفیری منہج یا تکفیری طرز عمل انتہائی غلط ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کے رہنما مولانا عبدالخالق اسدی اور مولانا مختار امامی نے اس بل کو فرقہ وارانہ بل قرار دیا اور فی الفور اس کی تمام شقوں کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے وارث ہیں، کسی نے قاید اعظم کے مکتب پر پابندی لگانے کی جسارت کی تو فیصلہ سڑکوں پر کریں گے، قائداعظم کے پاکستان کو مسلکی پاکستان نہ بنایا جائے۔

تحفظ بنیاد اسلام بل پہ رائے دیتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضیٰ نے کہا کہ وہ بھی قواعد و ضوابط کی سٹینڈنگ کمیٹی کے رکن ہیں، مگر انھیں یاد نہیں پڑتا کہ یہ بل قائمہ کمیٹی کی منظوری کے لیے کبھی پیش کیا گیا ہو۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان HRCP کے چیرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ طاقت کو کتاب سے ڈر لگ رہا ہے، ایسے اقدامات بے حد خطرناک ہیں۔ معروف مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی نے علمی استدلال کی جگہ پنجاب اسمبلی کی قانون سازی کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ ان کی اس حوالے سے انتہائی مفید اور قابلِ استفادہ گفتگو یوٹیوب پر موجود ہے۔ شخصیات کے علاوہ معروف اداروں نے بھی اس بل پہ اپنی رائے دی۔ 15 اگست کو جامعہ عروہ الوثقیٰ لاہور میں بل کے حوالے سے پروگرام منعقد ہوا۔ معروف اہلسنت عالم دین مولانا شیرانی نے صدارت کے فرائض انجام دیئے؛ شرکاء میں مفتی نعیمی، لیاقت بلوچ، مولانا شاہد نقوی، پروفیسر ظفراللہ شفیق، مولانا سید چراغ الدین شاہ، مولانا نعمان حامد، ڈاکٹر عبدالغفور راشد، سید ظفر گیلانی، ڈاکٹر فیاض رانجھا، پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمن، خرم نواز گنڈا پور اور علامہ سید جواد نقوی و دیگر علما شامل تھے۔

پروگرام میں ذیل اہم نکات بیان کئے گئے۔ پنجاب اسمبلی میں پیش ہونے والا تحفظ بنیاد اسلام متنازعہ بل ہے۔ اسلام کی کس بنیاد کا ذکر ہے اس بل میں؟ کون سی بنیاد اسلام منہدم کی جا رہی تھی، جس کے تحفظ کیلئے یہ بل پیش کیا گیا۔؟ ملک عزیز پاکستان کو دوبارہ فرقہ وارایت کی آگ میں دھکیلنے کی سازش ہو رہی ہے۔ دوسروں کے مقدسات کا احترام دین نے سکھایا ہے۔ 1800 علماء کے دستخط سے تیار ہونے والا فتویٰ "پیغام پاکستان" میں کیا کمی تھی کہ یہ متنازعہ بل لایا گیا؟ مقدس ہستیوں کے القابات کی کیا شرعی حیثیت ہے کہ ان پر قانون سازی کی جائے؟ اس بل کے بعد صحیح بخاری، صحیح مسلم کو کیسے چھاپہ جائے گا۔؟ قرآن کا نیا ایڈیشن کیسے چھپے گا۔؟ جمعیت علمائے پاکستان کے صدر اور متحدہ مجلس عمل کے نائب صدر پیر اعجاز ہاشمی نے کہا کہ سنی شیعہ دونوں مل کر ہی اسلام کی حفاظت کرسکتے ہیں، امریکہ اور اسرائیل کبھی سعودی عرب کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ ایران نے کبھی سعودی عرب کو دھمکی نہیں دی، پاکستان تمام فرقوں نے مل کر بنایا تھا۔

17 اگست کو فلیٹیز ہوٹل میں خواجہ محمد یار ٹرسٹ اور نیشنل مشائخ کونسل پاکستان کے زیراہتمام "میثاق امن کانفرنس" کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ اہل سنت اور اہل تشیع میں 1300 سال سے نظریات کا فرق پایا جاتا ہے۔ اہل سنت کے مزید تین طبقات ہیں، یعنی اہلحدیث، دیوبندی اور بریلوی۔ قرآن کریم نے بھی دو دریاوں کا ذکر کیا ہے، جو ایک دوسرے میں مدغم ہوئے بغیر بہتے ہیں، پاکستان کے قیام میں شیعہ اور سنی دونوں فرقوں نے حصہ لیا اور آج پاکستان کی بقا میں یہ دونوں شریک ہیں۔ دونوں فرقے ایک دوسرے کا وجود مانتے ہیں اور اس کا فرق بھی جانتے ہیں۔ سوشل میڈیا نفرت پھیلا رہا ہے، شیعہ سنی میں 90 فیصد مشترکات اور دس فیصد اختلافات ہیں، ہمیں نجی اور حکومتی سطح پر چاہیئے کہ مشترکہ شرکت پر بات کریں اور اختلافات پر بات مت کریں، علماء کو بھی یہی کام کرنا چاہیئے۔ 

اسلام آباد میں ہفتہ وار بریفنگ کے دوران پاکستان میں فرقہ واریت میں بھارت کے ملوث ہونے کے حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ ہمارے پاس اس بات کے ٹھوس شواہد ہیں کہ بھارت، پاکستان میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کے پیچھے ہے، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے بھارت سرگرم ہے اور اس کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، تاہم فرقہ واریت کے خلاف پوری پاکستانی قوم متحد ہے۔ 29 ستمبر 2020ء  کو لاہور میں ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا مرکزی مشاورتی اجلاس متحدہ جمعیت اہل حدیث کی میزبانی میں منعقد ہوا۔ اجلاس کی صدارت کونسل کے صدر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر نے کی۔ اجلاس میں کونسل کی 15 رکن جماعتوں اور تین اداروں نے شرکت کی۔ اجلاس میں پاکستان کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ تمام قائدین نے اس امر پر زور دیا کہ پاکستان میں فرقہ واریت کی موجودہ لہر کے پیچھے اسلام دشمن قوتیں کارفرما ہیں۔ امریکہ، اسرائیل اور بھارت جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں، انھیں پاکستان کی جوہری اور اسلامی حیثیت بہت کھٹکتی ہے۔

اجلاس کی صدارت کونسل کے صدر اور جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی امیر صاحبزادہ ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر نے کی۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت فرقہ واریت پھیلانے والوں کا ایجنڈا یہ ہے کہ سی پیک کو سست روی کا شکار کر دیا جائے، کشمیر کا موضوع پس پشت ڈال دیا جائے اور مذہبی تعلیم کو تباہ کر دیا جائے۔ اب جب اشتعال بڑھ گیا ہے تو ادارے اسے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پہلے بھی ایسے واقعات ہوچکے ہیں۔ اسی اور نوے کی دہائی میں جو لوگ قتل و غارت میں ملوث رہے ہیں، ان کا پھر سے فعال ہو جانا تشویشناک ہے۔ ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ شیعہ اور سنی کا باہم مل بیٹھنا مشکل ہو جائے۔ انھوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ مختلف ریلیوں میں قائدین کی موجودگی میں اشتعال انگیز تقاریر کی گئیں۔ قائدین نے اگرچہ خود منفی باتیں نہ کی ہوں، تاہم ان کے سامنے دوسروں کو گالیاں دی گئیں، جنھیں روکنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

مرکزی علماء اہلسنت پاکستان اور ادارہ فہم القرآن لاہور کے ناظم نے کہا کہ یہ بل بنیاد اسلام نہیں بلکہ بنیاد خارجیت بل ہے، ملک کی سب سے بڑی اکثریت بریلوی مسلک کے عقائد کی نفی ہے اور اولیاء کرام سے محبت و عقیدت کے اظہار پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ پیغام عمان میں متفقہ طور پر مسلمانوں کے آٹھ فقہی مذاہب کو اسلام کی تسلیم شدہ قانونی تعبیرات شمار کیا گیا، ان میں ''حنفی، مالکی، شافی، حنبلی، جعفری، زیدیہ، ظاہری اور اباضی شامل ہیں، اسی طرح اشعری، ماتریدی صوفی اور سلفی کو بھی مسلمانوں کے مستند گروہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ان کی تکفیر نہیں ہوسکتی۔ اسلامی نظریاتی کونسل ''پیغام عمان'' کا صرف خیر مقدم ہی نہ کرے بلکہ اسے پاکستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا بیانیہ قرار دے۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ چند برس قبل عمان میں دنیا بھر سے آئے علماء اور اہل علم کی ایک مجلس کے بعد جو "پیغام عمان" جاری ہوا تھا، اس سے رہنمائی لی جائے۔ اسلامی کانفرنس کی تنظیم نے بھی ''پیغام عمان'' کو ہی مسلمانوں کے باہمی جھگڑوں کا حل قرار دیتے ہوئے اسے اپنانے کا اعلان کیا تھا۔ چیئرمین "اسلامی نظریاتی کونسل" ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) جہاں جہاں سے گزرتا ہے، وہاں وہاں فرقہ وارانہ، لسانی، علاقائی اور حقوق کی آڑ میں فسادات کی سازش ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ علمائے کرام اس عالمی سازش کو ناکام بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں، 10 نکاتی اعلامیہ میں کہا گیا کہ عوام مسلکی بحثوں سے اجتناب کریں۔ وحدت کا واحد فارمولا یہ ہے کہ اپنا مسلک چھوڑو مت اور دوسرے کا مسلک چھیڑو مت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 900292
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش