0
Saturday 28 Nov 2020 11:15

یہ نشان کیا ہے اور اس سے جڑے مفاہیم

یہ نشان کیا ہے اور اس سے جڑے مفاہیم
تحریر: سید اسد عباس

یہ نشان آئی آف پراویڈینس ہے۔ مسیحی عبادت گاہوں، فری میسنز اور الومیناٹی کی یادگار عمارتوں پر یہ نشان دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح امریکہ کے ایک ڈالر کے نوٹ کی پچھلی طرف بھی یہی علامت موجود ہے اور تو اور یہ امریکہ کی سیل پر بھی کندہ ہے۔ یہ سیل امریکہ کی اہم دستاویزات، پاسپورٹ، جھنڈوں، امریکی صدر کی سیل پر بھی موجود ہوتا ہے۔ آنکھ کو ایک علامت کے طور پر استعمال کرنے کا سلسلہ قدیم تہذیبوں میں موجود رہا ہے، ان میں ہندو تہذیب میں تیسری آنکھ والی مورتیاں، مصری تہذیب میں ہورس کی آنکھ، رے کی آنکھ شامل ہیں۔ ہورس کی آنکھ تحفظ، شاہی طاقت اور اچھی صحت کی علامت کے طور پر پیش کی جاتی تھی۔ ہورس بنیادی طور پر ایک مصری خدا تھا، جسے ایک باز کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ یہ آنکھ اسی خدا سے مخصوص ہے۔ یہ آنکھ مصری تہذیب کے نوادرات پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔  

را بھی مصری تہذیب میں سورج دیوتا کی اہلیہ کی علامت ہے، جو قوت کی علامت ہے، جو سورج دیوتا کے دشمنوں کا خاتمہ کرتی ہے۔ مصری تہذیب کے برعکس ہندو تہذیب میں تیسری آنکھ انسانی بصیرت کا دروازہ ہے۔ تقریباً سبھی انسانی معاشروں میں آنکھ کا ایک اور تصور نظر بد کے عنوان سے موجود ہے اور اسے سے بچنے کے لیے مختلف معاشروں میں مختلف طرح کے طلسمات اور تعویذات رائج ہیں۔ یہودیوں کے ہاں نظر بند سے بچنے کے لیے جو تعویذات بنائے جاتے ہیں، اس میں یہ آنکھ کندہ ہوتی ہے۔ آئی آف پراویڈینس کا ایک مسیحی نشان کے طور پر استعمال پندھرویں اور سولہویں صدی عیسویں میں سامنے آیا۔ اس نشان کا کلیدی ماخذ ایک کتاب تھی، جسے آئکنولوجی کہا جاتا ہے۔ یہ کتاب سب سے پہلے سنہ 1593ء میں شائع ہوئی تھی۔ کتاب کے بعد میں آنے والے ایڈیشنز میں آئی آف پراویڈینس کو خدا کے احسان کی صفت کے اظہار کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔

اس علامت کا نام اور اس کے ابتدائی استعمال سے پتہ چلتا ہے کہ یہ انسانیت پر خدا کی شفقت کے اظہار کی نشانی کے طور پر استعمال ہوئی تھی۔ تاہم کوئی بھی حتمی طور پر یہ نہیں بتا سکتا کہ اصل میں اس علامت کی ایجاد کس نے کی تھی، مگر ایسا جس نے بھی کیا تھا، اس کے زیر نظر وہ مذہبی علامتیں اور نشانیاں ہوں گی، جو اس وقت مستعمل تھیں۔ مثلاً مثلث باپ، بیٹے اور روح القدس کی مسیحی کی ایک پرانی علامت تھی۔ ماضی بعید میں بھی خدا کو ایک مثلث کے ہالے کے ساتھ دکھایا جاتا رہا ہے۔ روشنی کی کرنیں جو اکثر اس مثلث سے پھوٹتی دکھائی دیتی ہیں، وہ بھی مسیحی نقش نگاری میں خدا کے نور کی علامت ہیں۔ مگر اس مثلث پر موجود اس حیران کر دینے والی آنکھ کی اصلیت کیا ہے؟ خدا کو اس سے پہلے متعدد خفیہ طریقوں سے دکھایا گیا تھا، جیسے بادل سے نکلا ہوا ایک ہاتھ، مگر آنکھ کے نشان کے ذریعے خدا کا اظہار کبھی نہیں ہوا تھا۔

پونٹورمو کی سنہ 1525ء کی ایک پینٹنگ سوپر ایٹ ایموسس میں بھی یہ آنکھ دیکھی جاسکتی ہے۔ اگرچہ پینٹنگ میں موجود آنکھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اس پینٹنگ میں غالباً سنہ 1600ء میں شامل گئی، یعنی ابتدائی پینٹنگ میں یہ موجود نہ تھی بلکہ بعد میں اسے اس کا حصہ بنایا گیا۔ ایک بدنام زمانہ انٹی کرائسٹ یعنی مسیح مخالف تنظیم فری میسنری جس کا آغاز چودھویں اور پندھرویں صدی میں ہوا تھا، اس نے بھی اسی طرح کے ایک نشان کو اپنایا تھا۔ یہ نشان اس امر کی علامت کے طور پر رکھا گیا کہ خدا ہر کام کو دیکھ رہا ہے۔ اس کے بعد یہ نشان آہستہ آہستہ عیسائی مذہبی عمارات، سکوں، کتابوں اور دستاویزات پر ابھرنا شروع ہوگیا۔ الومیناٹی نامی تنظیم جو سنہ 1776ء میں باویریا میں قائم ہوئی اور 1787ء میں اس پر پابندی لگی، اس کے گرجوں اور عمارات پر بھی آنکھ کے نشان کو استعمال کیا گیا۔ الومیناٹی تنظیم فی میسنری سے ہی ٹوٹنے والے افراد پر مشتمل ایک تنظیم تھی، جس پر یورپ میں پابندی لگ گئی۔

انقلابِ فرانس کے بعد سنہ 1789ء میں جین جیکس کے انسانوں اور شہری حقوق کے اعلامیے میں لکھے گئے نئے متن کے اوپر آئی آف پراویڈینس بنائی گئی۔ برطانیہ میں سنہ 1794ء میں جیریمی بینتھم نے معمار (آرکیٹیکٹ) وللی رویلے کو پینوپٹیکون (ایک ایسی نئی جیل جہاں موجود تمام قیدیوں کے سیلز پر نظر رکھی جا سکے) کے لیے ایک لوگو ڈیزائن کرنے کا کام دیا اور آرکیٹیکٹ کی جانب سے جب جیل کے لوگو کا نیا ڈیزائن سامنے آیا تو اس پر نمایاں طور پر آئی آف پراویڈینس کا نشان شامل کیا گیا تھا۔ اگرچہ عبارت مختلف تھی۔ سنہ 1782ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی گریٹر سیل کا نقشہ سامنے لایا گیا تھا۔ تھامس جیفرسن، بینجمن فرینکلن اور جان ایڈمز نے اس ڈیزائن کے لیے سفارشات تجویز کیں تھیں، مگر درحقیقت یہ کانگریس کے سیکرٹری چارلس تھامسن تھے، جنھوں نے اس مہر میں اہرام اور آئی آف پراویڈینس شامل کرنے کی تجویز دی۔ چارلس تھامسن نے اس معاملے میں ایک نوجوان وکیل اور فنکار ولیم بارٹن کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔ نامکمل اہرام کا مقصد طاقت اور مدت کی علامت کا اظہار تھا۔ اس میں موجود 13 فلورز امریکہ کی 13 بنیادی ریاستوں کی نمائندگی کرتے تھے۔ اس نشان میں Annuit Coeptis کا لفظ لاطینی الفاظ annuo اور coeptum سے ماخوذ ہے، جس سے مراد بالترتیب سر ہلانا اور حلف کے ہیں۔ دونوں الفاظ سے مراد ہے کہ ’’وہ ہمارے حلف کو قبول کرتا ہے۔‘‘ Novus ordo seclorum جو اہرام کے نیچے ہے، اس سے مراد ہے نیو آرڈر آف ایجز۔ MDCCLXXVI رومن الفاظ میں (1776) کا مخفف ہے۔

اگر امریکی ڈالر اور اہم دستاویزات پر موجود اس نشان کو دیکھا جائے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ گہرے مطالب کو بیان کرنے کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کے جملے کے حوالے سے اکثر احباب کا کہنا ہے کہ امریکہ کی تشکیل کرنے والوں میں فری میسنز اور الومیناٹی کا گہرا کردار ہے۔ اگرچہ اس بات کی ہمیشہ تردید کی گئی ہے اور ایسے تاریخی حوالے بھی پیش کیے گئے ہیں کہ یہ سیل بنانے والوں کا میسنری سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اسی طرح امریکی سیل میں موجود اہرام کی سب سے نچلی سیڑھی پر MDCCLXXVI کی عبارت جسے 1776 قرار دیا گیا ہے، اس کے بارے بعض افراد کا خیال ہے کہ اس کا مطلب فقط 1776 نہیں ہے۔ اگر فقط 1776 لکھنا مقصود تھا تو اسے سب سے اوپری سیڑھی پر لمبائی میں بھی لکھا جاسکتا تھا، تاہم اسے خاص نسبت سے اہرام کے درمیان میں نچلی سیڑھی پر لکھا گیا، جو فری میسن سے جڑی ہوئی کوئی حقیقت ہے۔ نظریہ پردازوں کا خیال ہے کہ یہ فری میسن کے زمانہ فرعون میں تشکیل کی تاریخ کی نشاندہی کرتا ہے۔ بہرحال دنیا میں مختلف مقامات، کرنسیوں، دستاویزات پر ابھرنے والا یہ نشان عام نہیں ہے۔ ایک وہ معنی ہے، جسے اسے تجویز کرنے والوں نے پیش کیا ہے اور اس کا دوسرا معنی بھی یقیناً موجود ہے، جو فقط ایک مخصوص گروہ کے علم میں ہے۔
خبر کا کوڈ : 900423
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش