QR CodeQR Code

ایرانی سائنسدان کی شہادت، اسرائیلی مقاصد کیا ہیں؟

29 Nov 2020 14:12

اسلام ٹائمز: یہ بھی اطلاعات ہیں کہ نیوم میں ہونیوالی سعودیہ اسرائیلی حکام کی ملاقات امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کروائی تھی۔ جس میں صرف ایران کو ہی موضوع بحث رکھا گیا تھا۔ اطلاعات ہیں کہ ٹرمپ جاتے جاتے بھی ایران کو مشتعل کرکے خانہ جنگی میں دھکیلنے کیلئے سرگرم ہے، مگر ایران کی جانب سے "ہم بدلہ لیں گے مگر تحمل کیساتھ" کہہ کرکے امریکی عزائم خاک میں ملا دیئے ہیں۔


تحریر: تصور حسین شہزاد

امریکہ میں صدر کی تبدیلی سے جہاں اسرائیل کو شکست ہوئی ہے، وہیں سب سے زیادہ متاثر ہونیوالا دوسرا ملک سعودی عرب ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ کی شکست دراصل اسرائیل کی شکست ہے اور اسرائیل کی شکست کو سعودی عرب کی شکست  بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ جب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی عوام نے مسترد کرکے جو بائیڈن کو منتخب کیا ہے، تب سے اسرائیلی اور سعودی حکمرانوں کی نیندیں اُڑی ہوئی ہیں۔ اسرائیل ٹرمپ کے بعد خود کو غیر محفوظ تصور کر رہا ہے، جبکہ جو بائیڈن کے آنے سے سعودی امریکہ تعلقات میں بھی واضح سرد مہری کا خدشہ ہے جبکہ اس کے برعکس ایران امریکہ تعلقات میں بہتری کا امکان سمجھا جا رہا ہے۔

ایران نے اس تاثر کو مسترد کیا ہے کہ امریکہ کی حکومت تبدیل ہونے سے ایران کے حوالے سے امریکہ کی پالیسی بھی تبدیل ہوگی، تاہم ایران نے ساتھ بہتر تعلقات کیلئے مشروط آمادگی کا اظہار کرکے ثابت کیا ہے کہ وہ خطے سمیت دنیا میں امن کا خواہاں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست سے جن ممالک کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور جن حکمرانوں کا اقتدار خطرے میں آچکا ہے، وہ اب ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادہ کی شہادت کیساتھ  ہی ایران نے فوری اس واقعہ کا ذمہ دار اسرائیل کو قرار دیا ہے۔ محسن فخری زادہ جہاں ایٹمی سائنسدان تھے، وہیں وہ کورونا وائرس کے تدارک کیلئے ویکسین بھی تیار کرنے کے آخری مرحلے میں پہنچ چکے تھے۔ لیکن اس صورتحال میں یہ شہادت کی کڑیاں زیادہ تر اسرائیل کی طرف اس لئے جاتی ہیں کہ اس وقت اسرائیل اور سعودی عرب دونوں شدید پریشانی کا شکار ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم تیتن یاہو گذشتہ اتوار سعودی عرب کا دورہ بھی کرچکے ہیں اور اسرائیل میڈیا نے اس دورے کو خصوصی کوریج بھی دی ہے، جبکہ سعودی میڈیا چونکہ آزاد نہیں، اس لئے سعودی میڈیا نے اسے خاطر خواہ رپورٹ نہیں کیا۔ خطے میں تبدیل ہوتی صورتحال کے پیش نظر ہی ممکن ہے کہ اس قتل کا منصوبہ سعودی عرب میں ہی تیار کیا گیا ہو؟ اسرائیلی وزیراعظم کا اس طرح فوری دورہ کرنا اور خطے کی صورتحال کے حوالے سے سعودی حکام سے ملاقاتیں کرنا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ایک طرف سعودی حکمران اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے بظاہر تیل کی دھار دیکھ رہے ہیں، دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم کے دورے ہو رہے ہیں۔ سعودیوں کا یہ دوہرا معیار یقیناً قابل غور ہے۔

جو بائیڈن نے تو اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی یہ اعلان کر دیا تھا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو ایران کیساتھ جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل ہو جائیں گے، جو 2015ء میں صدر اوباما نے کیا تھا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو 2018ء میں ختم کر دیا تھا۔ اب جو بائیڈن کی اس پالیسی سے خطے کے ممالک کو پریشانی لاحق ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ گذشتہ اتوار کو نیوم میں محمد بن سلمان اور نیتن یاہو کی ملاقات ہوئی اور سوموار کو یمن سے سعودی شہر جدہ میں تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنا کر یہ واضح پیغام دیا گیا کہ ہم غافل نہیں بلکہ سب جانتے ہیں۔ یہ ایک اسٹریٹیجک اقدام تھا، جو موجودہ صورتحال میں انتہائی ضروری تھا۔ کیونکہ یہ پیغام دینا ضروری تھا کہ خطے میں سعودی عرب سردار نہیں بلکہ اگر کوئی غلط فیصلہ کیا گیا تو نتائج بھی خطرناک ہوسکتے ہیں۔

یہ بھی اطلاعات ہیں کہ نیوم میں ہونیوالی سعودیہ اسرائیلی حکام کی ملاقات امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کروائی تھی۔ جس میں صرف ایران کو ہی موضوع بحث رکھا گیا تھا۔ اطلاعات ہیں کہ ٹرمپ جاتے جاتے بھی ایران کو مشتعل کرکے خانہ جنگی میں دھکیلنے کیلئے سرگرم ہے، مگر ایران کی جانب سے "ہم بدلہ لیں گے مگر تحمل کیساتھ" کہہ کرکے امریکی عزائم خاک میں ملا دیئے ہیں۔ اب ایران ٹرمپ کے جانے کا انتظار کرے گا اور امریکی اقتدار تبدیل ہوتے ہی اس کا سخت انتقام لیا جائے گا۔ محسن فخری زادہ اسرائیل کا بہت پہلے سے ہدف تھے۔ اسرائیلی وزیراعظم ماضی میں فخری زادہ کا نام لے کر اظہار کرچکے ہیں کہ ان کا نام یاد رکھا جائے۔ ایران میں اس حوالے سے انتہائی ذمہ دارانہ انداز میں سوچا جا رہا ہے۔ ایرانی خطے کی صورتحال کو ملحوظ خاطر رکھ کر ہی پالیسیاں بناتے ہیں اور اس حوالے سے جہاں سکیورٹی کی خامیاں دور کی جا رہی ہیں، وہیں انتقام کے حوالے سے بھی ایک منظم اور سوچ سمجھ کر پالیسی تیار کی جا رہی ہے، جو یقیناً اسرائیل کیلئے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔

ایرانی صدر نے محسن فخری زادہ کی شہادت پر کہا کہ وہ اس کا مناسب وقت پر جواب دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایرانی قوم اتنی بہادر ہے کہ وہ اس کا جواب دیئے بغیر چین سے نہیں بیٹھے گی۔ ساتھ ہی ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ اسرائیل اس حملے سے افراتفری پھیلانا چاہتا ہے، لیکن دانشمند ایرانی قوم کسی جال میں نہیں آئے گی۔ دوسری جانب رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کے عسکری مشیر حسین دیغان نے کہا کہ وہ اس کا بدلہ طوفان کی صورت میں لیں گے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے بھی اس حملے کو ریاستی دہشت گردی قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ حملہ کرنیوالے جنگ کیلئے کتنے بے تاب ہیں، مگر ہم جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔

جو قوم شہادتوں پر رونے دھونے کے بجائے ایک دوسرے کو مبارکباد دے، شہادت کا رتبہ ملنے کا اظہار مسرت کرے، اس قوم کو کوئی بھلا کیسے شکست دے سکتا ہے۔ یقیناً شکست اسلام دشمن قوتوں کا مقدر ہے، خواہ وہ کھلے دشمن ہوں یا انہوں نے مسلمانیت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہو۔ حق پرستوں سے ذلت دور ہے، جبکہ دشمنان اسلام کا مقدر ہی ذلت و رسوائی ہے۔ اسرائیل اپنے مقاصد میں ناکام ہوگیا ہے۔ وہ ایران کو اشتعال دلانا چاہتا تھا، مگر ایرانی قیادت نے انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے دشمن کا ناپاک منصوبہ اس کے منہ پر دے مارا ہے، اب کہا جا رہا ہے کہ دشمن سخت انتقام کیلئے تیار رہے۔ ایران کا انتقام کیسا ہوتا ہے، یہ بہت جلد سامنے آجائے گا۔


خبر کا کوڈ: 900647

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/900647/ایرانی-سائنسدان-کی-شہادت-اسرائیلی-مقاصد-کیا-ہیں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org