1
Sunday 29 Nov 2020 13:36
مولانا کلب صادق کے مختصر حالات زندگی

جانے والے تجھے روئے گا زمانہ برسوں!

جانے والے تجھے روئے گا زمانہ برسوں!
تحریر: عظمت علی

لکھنؤ کو علم و ادب کا گہوارہ کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ علمائے کرام اور نوابین اودھ کا وجود تھا۔ وہاں قدیم زمانہ سے خاندان اجتہاد کا علمی سکہ چلتا آرہا ہے اور ہر دور میں اس خاندان نے قوم و ملت کو ایسے گہر دیئے ہیں، جو وقت کی ضرورت قرار پائے۔ حکیم امت مولانا سید کلب صادق نقوی نے اسی خاندان اجتہاد میں 22 جون 1939ء کو آنکھ کھولی۔ ان کے دادا قدوۃ العلماء مولانا سید آقا حسن اپنے زمانہ کے مجتہد عالم دین تھے۔ ان کے والد مولانا سید کلب حسین بھی ایک عظیم عالم دین تھے۔ ابتدائی تعلیم گھر میں اپنے والد گرامی سے حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ سلطانیہ سلطان المدارس کا رخ کیا۔ وہاں سے صدر الافاضل کی سند حاصل کی، ساتھ ہی عصری تعلیم میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ اس کے بعد عربی زبان و ادب میں اسی یونیورسٹی سے ایم اے کی سند بھی حاصل کی اور پھر ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کرلی۔

چونکہ ان کا تعلق ایک علمی اور دینی گھرانہ سے تھا، اس لیے ذہنی طور پر وہ بھی دین کی جانب مائل تھے۔ انہوں نے اپنے والد گرامی کے دور میں ہی ذاکری اور خدمت دین کا آغاز کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنی مجالس میں قرآنی آیات اور احادیث و تاریخ کے ساتھ ساتھ عصری مسائل اور سائنس و ٹیکنالوجی کو بھی شامل کرلیا اور یوں خود کو دوسروں سے ممتاز کرلیا۔ ان کا یہ طرز بیان نہایت پسند کیا گیا۔ خاص طور سے بیرون ممالک میں، جہاں دین کے ساتھ سائنس کے مسائل کو نہایت دلچسپی سے سنا جاتا تھا۔ مولانا کلب صادق نے ہمیشہ ہی لوگوں کو علم حاصل کرنے اور علمی میدان میں ترقی کرنے کی تاکید کی ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ خود بھی تعلیم حاصل کرو اور اپنے بچوں کو بھی بہتر سے بہتر تعلیم دلاؤ، کیونکہ جہالت ہماری سب سے بڑی دشمن ہے۔

اسی لیے انہوں نے اپنے آبائی وطن لکھنؤ میں توحیدالمسلمین ٹرسٹ نامی ادارہ کھولا، تاکہ اس تنظیم کے ذریعے ضرورت مند طالب علموں کی مدد کی جاسکے۔ اس کے علاوہ یونٹی کالج، یونٹی مشن اسکول اور مدینۃ العلوم وغیرہ بھی قائم کیا۔ انہوں نے اپنے بیان میں اتحاد بین المسلمین پر ہمیشہ زور دیا ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ یہ جہالت ہے جو ہمیں لڑاتی ہے، ورنہ نہ تو شیعہ سنی کا دشمن ہے اور نہ ہی سنی، شیعہ کا۔ وہ وقت کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ مجالس اور دیگر پروگرامز کو بالکل اپنے وقت پر شروع کر دیتے۔ چاہے سامعین کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح سماج میں ناسور بنی رسم جہیز اور شادی بیاہ میں آرائش و زینت کے بھی مخالف تھے۔

اپنے برادر بزرگ مولانا سید کلب عابد صاحب کے 1986ء میں انتقال کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر منتخب ہوگئے اور عمر کے آخری لمحات تک مسلمانوں کے مسائل کو حل فرماتے رہے۔ لکھنؤ کی عزاداری کے سلسلے میں بھی کوشاں رہے۔ وقف کی حفاظت کے سلسلے میں بھی کامیاب اقدام بھی کئے۔ اس کے علاوہ ایراز میڈیکل کالج بھی ان کی خدمات کا نمایاں حصہ ہے۔ مولانا کلب صادق صاحب ایک زمانہ سے بیمار تھے اور ان کو ایراز میڈیکل میں ایڈمٹ کرایا گیا تھا۔ وہاں ان کا علاج ہو رہا تھا، لیکن یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے، جوی ہاں آیا ہے، اسے ایک دن جانا ہے۔ اللہ کی مرضی کے آگے کس کا بس چلا ہے۔ ہم اسی کی طرف سے آئے ہیں اور پھر اسی کی جانب جانا ہے۔ افسوس۔۔۔! حکیم امت 8 ربیع الثانی 1442 مطابق 24 نومبر 2020ء کو ہم سے جدا ہوگئے۔
خبر کا کوڈ : 900667
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش