0
Monday 30 Nov 2020 14:29

عربوں کی بدمعاشی کے مقابلے میں ہمارے حکمرانوں کی بے حسی(2)

عربوں کی بدمعاشی کے مقابلے میں ہمارے حکمرانوں کی بے حسی(2)
تحریر: روح اللہ حسینی

گذشتہ سے پیوستہ
مصدق نامی ایک شخص نے اپنی دیگر تفصیلات خفیہ رکھنے کی التجا کے ساتھ کہا کہ وہ اپنے مالک کی امانت بینک لے جا رہا تھا، بینک پہنچتے ہی اسے باہر گیٹ سے گرفتار کر لیا گیا۔ آنکھوں پر پٹی، نیز ہتھکڑیوں کے ساتھ پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر گاڑی میں ڈال دیا گیا۔ دو ہفتے پولیس کی تحویل میں رکھا گیا۔ پولیس نے موبائل میں موجود ڈیٹا نیز فون نمبرز کے حوالے سے تفصیلات کے علاوہ دینی معاملات اور عقائد کے حوالے سے بھی الٹے سیدھے سولات کئے۔ کسی سوال کا ہم حقیقی جواب دیتے تو دھمکی دی جاتی۔ انہوں نے بتایا کہ ان دو ہفتوں میں ہر ایک کو اپنا سر نیچے اور نظریں پاؤں پر رکھنا لازمی تھا۔ کوئی خلاف ورزی کرتا تو مزید سزا بھگتنا پڑتی۔ انہوں نے کہا کہ نماز کے لئے جانماز اور تلاوت کے لئے قرآن مجید فراہم تھا۔ تاہم نماز کے ٹائم اور قبلے کا کوئی پتہ نہیں چلتا تھا۔ نہ کوئی پوچھ سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اندازے سے نماز ادا کرنا پڑتی تھی۔

روزانہ صبح کا ناشتہ اور دو وقت کا کھانا ملتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ دو ہفتے پولیس کی تحویل میں رہنے کے بعد تیسرے ہفتے فوج کے حوالے کیا گیا۔ جہاں سلوک نسبتاً اچھا تھا۔ وہاں ان کے کفیل کو بلایا گیا اور اس کی تقریباً 40 ہزار درہم امانت جسے بینک جاتے وقت قبضے میں لیا گیا تھا، وہ اسے واپس کر دی گئی۔ اپنے موبائل سمیت جیب میں موجود سارا سامان مجھے واپس کیا گیا، تاہم اپنی نقد رقم جو کہ دو ہزار درہم کے لگ بھگ تھی، واپس نہ مل سکی۔ اس کے ٹکٹ کی رقم اسکے کفیل سے حاصل کی جاچکی تھی۔ تقریباً تین ہفتوں کے بعد رہا کرکے اسے فلائٹ کے ذریعے کراچی پہنچا دیا گیا۔ کراچی میں اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا، حتی کہ اپنے مقامی کپڑے بھی نہیں تھے، بلکہ عربی لباس میں رخصت کیا گیا تھا۔ ساتھی کے موبائل سے گھر فون کرکے کمک کی استدعا کی۔ جنہوں نے چار ہزار روپے کا بندوبست کرکے پشاور کے لئے کوچ کا ٹکٹ دلوایا۔ پشاور پہنچ کر اپنا علاقائی لباس خرید لیا اور گھر روانہ ہوگیا۔

ایک اور متاثر نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی کال پر پولیس سٹیشن پہنچا۔ اس کا خیال تھا کہ عدالتی مقدمے کے لئے بلایا ہوگا، کیونکہ انہوں نے اپنے کفیل سے اپنا حق مانگنے کے لئے کورٹ میں اپیل کی تھی۔ مگر پولیس اسٹیشن پہنچتے ہی اس پر حقیقت آشکار ہوئی کہ معاملہ کچھ اور ہے۔ آنکھوں پر پٹی، ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا کر گاڑی میں ڈالا گیا اور گاڑی کو موڑ موڑ کر چلاتا گیا۔ جس کی وجہ سے وہ گاڑی میں گیند کی طرح لڑھکتا رہا۔ گھنٹہ بھر گاڑی میں یہ سلوک کیا گیا۔ ایک مقام پر پہنچ کر دوسری گاڑی میں شفٹ کیا گیا۔ جس میں کچھ اور قیدی بھی پہلے سے بٹھائے گئے تھے۔ یہاں سے روانہ کرکے راستے میں مزید قیدی بٹھائے گئے۔ پھر کافی دیر تک گاڑی چلتی رہی اور بالآخر منزل مقصود پر پہنچ گئی۔ وہاں لفٹ میں بٹھا کر اوپر چڑھایا گیا اور رہنے کو ایک الگ کمرہ دیا گیا۔ جس میں جائے نماز نیز قرآن مجید بھی پہلے سے رکھا گیا تھا۔ کھانا پینا باقاعدگی سے ملتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تقریباً پانچویں روز اسے تفتیش کے لئے ایک جگہ لے جایا گیا، جہاں پر موجود افسر نے قمیص اتارنے کا حکم دیا۔

قمیص اتارنے کے بعد جب اسے شلوار اتارنے کو کہا گیا تو بہت تکلیف ہوئی۔ بڑی منت سماجت کی۔ جب خود اتارنے کی ہمت نہ کی تو انہوں نے چاقو سے میری شلوار پھاڑ دی اور ننگا کر دیا۔ اس دوران میری کوئی پوچھ گچھ بھی نہیں ہوئی اور یہی کوئی آدھا گھنٹہ ننگا کھڑا رکھ کر واپس کر دیا گیا۔ اس کے بعد پوچھ گچھ کا سلسلہ شروع ہوا۔ نظریں ہمیشہ نیچے رکھنا پڑتی تھیں۔ خلاف ورزی کی صورت میں انہیں سی سی کیمروں سے پتہ چلتا تھا اور سزا بھگتنا پڑتی تھی۔ دو تین بار خلاف ورزی پر مجھے سزا بھی ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ ائرکنڈیشن کی وجہ سے سخت سردی تھی۔ جس کی وجہ سے انسان سردی سے مر جاتا تھا۔ ایک دو دفعہ اے سی کم کرنے کی التجا کی، تاہم جواباً ڈانٹ پڑگئی۔ ایک دفعہ سردی سے بدحال ہوکر پاس پڑے ایک شاپر کو اپنے ایک پاؤں میں ڈال لیا، تاکہ سردی سے کچھ راحت ہو جائے، مگر فوراً ایک اہلکار نے زور سے جھٹکا دے کر پلاسٹک چھین لیا۔ اوپر سے دو تھپڑ بھی رسید کئے۔ اس مظلوم قیدی کی کہانی کافی طولانی ہے۔ مگر کچھ حصوں کی تشہیر کی وہ اجازت نہیں دے رہے اور اسے صیغہ راز میں رکھنا چاہتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ سترہ دن بعد پولیس سٹیشن سے فوجی ادارے میں شفٹ ہونے پر سکھ کا سانس لیا۔ کہا کہ کئی روز تک سر نیچے رکھنے کے تو وہ عادی ہوچکے تھے۔ چنانچہ فوج کے سامنے بھی وہ ایسا ہی کر لیتے۔ جب انہوں نے وجہ پوچھی تو سابقہ ریکارڈ انہیں گوش گزار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں یہاں کچھ بھی نہیں۔ انہوں نے کہا، اس کا اپنے کفیل کے ساتھ کئی ملین روپے کا حساب کتاب تھا اور اس حوالے سے کورٹ میں کیس چل رہا تھا۔ مگر روانگی سے ایک دن پہلے اس کے کفیل اور وکیل کو بلایا گیا اور انکے سامنے اس سے زبردستی دستخط لئے گئے کہ اس کا کوئی حق نہیں۔ دستخط پر وہ مجبور تھا، کیونکہ دھمکی دی گئی کہ اگر دستخط نہ کئے تو رہائی نہیں ملی گی اور شاید ہی کبھی گھر اور خانوادے کی زیارت کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے اپنے کپڑے تو پھٹ چکے تھے۔ تاہم سوات سے تعلق رکھنے والے جیل کے ایک ہمدرد ساتھی نے اپنے کپڑے فراہم کئے۔ انہی کپڑوں میں اسے کراچی کی فلائٹ پر روانہ کیا گیا۔

کچھ نقد رقم بھی اسی سواتی قیدی نے دی۔ کراچی آتے ہوئے جہاز میں سوار ایک مسافر ساتھی کو اپنی روئیداد سنائی تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ چنانچہ کراچی اتر کر انہوں نے اسلام آباد کی ٹکٹ کے علاوہ پانچ ہزار روپے نقد بھی دیئے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے یہ خیال رہتا تھا کہ امت مسلمہ میں پاکستان جتنا طاقتور ملک کوئی بھی نہیں۔ مگر جب پاکستانیوں کی حالت زار امارات میں دیکھی تو اپنے ملک کی مظلومیت پر رحم آگیا۔ انہوں نے اپنے ملک کے ذمہ داروں سے اپیل کی کہ امارات میں اپنے ہم وطنوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے، نیز وہاں سے نکالے جانے والے پاکستانیوں کے بقایا جات سفارتی سطح پر وصول کروائے۔

مردان سے تعلق رکھنے والے سکندر نامی ایک شخص کا کہنا تھا کہ ٹیکسی میں موجود تھا کہ اسے کال آئی۔ کال کرنے والا اس کی کمپنی کا بندہ تھا۔ کہا کہ فوراً فلاں پولیس اسٹیشن پر پہنچ جاو۔ وہاں پہنچ کر اسے گرفتار کیا گیا اور جیل بھیجا گیا۔ جیل میں اسے نہایت ذلالت کے ساتھ رکھا گیا۔ دوستوں کے تفصیلی کوائف مانگے گئے۔ بعض کے کوائف کا پتہ نہیں تھا تو اس پر بہت تکلیف اٹھانی پڑی کہ کیوں نہیں پتہ۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی سیاسی وابستگی کا بھی پوچھا گیا کہ کس پارٹی سے ہمدردی ہے۔ کہا کہ جب عمران خان کا کہا تو بہت مذاق اڑایا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور پاکستانیوں کے حوالے سے عربوں کے افکار نہایت منفی تھے۔ سبب کا پتہ نہیں چلتا تھا کہ ایسا کیوں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ روانگی کے وقت اس کے پاس ٹکہ تک نہیں تھا۔ کپڑے پھٹ چکے تھے۔ ان سے التجا کی کہ اپنے ساتھیوں سے رابطہ کروا دیں، تاکہ کپڑے اور راستے کے لئے کرائے کے لئے کچھ رقم لاسکیں۔ مگر اسے مسخرہ سمجھا گیا۔

چنانچہ وہاں سے خالی ہاتھ کراچی پہنچا دیا گیا۔ کراچی میں ایک پرانا دوست تھا۔ اس کے ساتھ یو ای سے اکثر رابطہ ہوا کرتا تھا۔ نمبر اس کا یاد تھا۔ خیال رہے کہ اس کے موبائل کے تمام نمبرز سمیت پورا ڈیٹا ڈیلیٹ کیا گیا تھا۔ تاہم گھر سمیت کچھ دوستوں کے نمبر یاد تھے۔ چنانچہ کراچی والے دوست سے رابطہ کرکے تعاون حاصل کیا گیا۔ انہوں نے گھر تک پہنچنے کے تمام انتظامات کئے۔ ایسے سینکڑوں افراد اور بھی ہیں، جن کا لب لباب تقریباً ایک جیسا ہی ہے۔ تاہم اصل جو بات ہے، وہ پاکستان کی حاکمیت اعلٰی کی ہے۔ اس کے شہریوں کے ساتھ ایسا ناروا سلوک اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ کسی پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوا۔ فقط یہی کہ ان سب کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھے۔ کیا پاکستانی ہونا کوئی جرم ہے اور کیا پاکستانی حکمران اتنے بے حس اور بے غیرت ہوچکے ہیں کہ اس کے شہریوں کے ساتھ اس طرح سلوک کیا جائے اور وہ خاموشی سے اپنے شہریوں کی حالت زار پر بغلیں بجاتے رہیں یا خاموش رہیں۔
خبر کا کوڈ : 900821
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش