1
Tuesday 1 Dec 2020 12:20

یمن عالمی طاقتوں کے حصار میں(2)

یمن عالمی طاقتوں کے حصار میں(2)
تحریر: شاہد عباس ہادی

گذشتہ سے پیوستہ
یمن کی اندرونی صورتحال پر نظر دوڑائیں تو ایک لمحے کیلئے دل خوفزدہ ہو جاتا ہے کہ دونوں اطراف مسلمان ممالک ہونے کے باوجود بھی یمن عالمی طاقتوں کے حصار میں کیوں ہے؟ آخر عالمی طاقتیں یمنی بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو نشانہ کیوں بنائے ہوئے ہیں؟ 2016ء میں UNICEF کی رپورٹ کے مطابق ہر 35 سیکنڈ بعد ایک یمنی بچہ ہیضہ کی بیماری میں مبتلا ہو جاتا تھا اور 2017ء میں یہ بیماری اتنی شدت اختیار کر جاتی ہے کہ ایک ہفتے میں 24000 کیسز رپورٹ ہوتے ہیں اور ہر دو دن بعد 35 بچے مر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پانی، بجلی، خوراک اور ادویات کی قلت انتہائی دردناک موضوع ہے۔ یمن کی ستر فیصد آبادی امداد پر زندہ ہے، جس کی ترسیل کا اہم راستہ الحدیدہ ہے، مگر اس وقت آل سعود اور اس کے اتحادیوں نے اس امداد کو بھی منقطع کرنے کیلئے الحدیدہ پر پوری توجہ مرکوز کر رکھی ہے اور اسے نشانہ بنا کر میزائل داغے جا رہے ہیں۔

یمن کی عوام بھوک اور پیاس سے مر رہی ہے جبکہ آل سعود اپنے صیہونی دوستوں سے مل کر انسانیت کو لہولہان کر رہے ہیں۔ 2016ء سے لے کر 2018ء تک کی عالمی رپورٹ کے مطابق تقریباً 20 لاکھ یمنی بچے، بوڑھے، مرد و زن جان کی بازی ہار چکے ہیں، جن میں بھوک سے مرنے والوں کی تعداد 5 لاکھ 26 ہزار ہے۔ ہم صرف یمن میں عورتوں اور بچوں کی تصاویر پر نظر کریں تو یہ تصویریں ہمارا سینہ چیرتی ہیں۔ اس کے باوجود اقوام متحدہ کا ردعمل صرف مذمت کی حد تک ہے۔ وہ بھی آل سعود کی مذمت ہونے کے بعد ان سے معذرت خواہی کر لی جاتی ہے۔ درحقیقت یمن اور سعودی عرب کا معاملہ مذہبی و عقیدتی معاملہ نہیں، لیکن ہمارا میڈیا اسی تناظر میں ہمیں دکھانے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ امریکہ و اسرائیل ناصرف یمن بلکہ فلسطین پر بھی تسلط حاصل کرنے کیلئے آل سعود کو استعمال کرتے رہے ہیں اور ابھی موجودہ صورتحال بھی یہی ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ آل سعود کی مدد کیلئے ہمہ وقت تیار نظر آتا ہے۔

یقیناً آل سعود امریکہ و اسرائیل کی دودھ دینے والی وہ گائے ہے، جس سے وہ دودھ دوہتے ہیں۔ پھر ہمارا میڈیا چیخ چیخ کر کہتا ہے مسلمانوں کا خانہ کعبہ خطرے میں ہے، مسلمانوں پر جہاد واجب ہے، یمن کے حوثی باغی حرمین شریفین پر حملہ کریں گے، میڈیا کی اس بے لگام آواز پر سادہ لوح انسان یقین کر لیتا ہے، لیکن ہر باشعور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر خانہ کعبہ کو یمنی نہتوں سے کیا خطرہ ہے۔؟ کیا یمن میں رہنے والے مسلمان نہیں؟ کیا یمنی مسلمانوں کو خانہ کعبہ عزیز نہیں؟ جبکہ مسلم دنیا کے ہر فرقے کو خانہ کعبہ عزیز ہے اور اسی طرف رو بہ قبلہ ہیں۔ اسی مناسبت سے باشعور افراد سوچنے پر مجبور ہیں کہ آل سعود کے نزدیک خانہ کعبہ کو یہودیت (امریکہ و اسرائیل) سے کوئی خطرہ نہیں، لیکن یہی خطرہ یمن سے کیوں ہے جبکہ آل سعود کے حکمران امریکی ایماء پر کفار کے نجس قدم رکھوانے کے ساتھ لاکھوں انسانوں کے قاتل بھی ہیں۔

ان سب دلائل کے بعد باشعور انسان کا خیال اسی طرف مبذول ہوتا ہے کہ یہ جنگ اقتدار، تسلط اور استعماریت کی جنگ ہے۔ حرمین شریفین کو سب سے بڑا خطرہ آل سعود سے ہے، کیونکہ آل سعود ہی اپنے محلات بنوانے کیلئے مقدس مقامات کو پامال کرتے ہیں اور اہلبیت (ع) و اصحاب اجمعین و ازواج مطہرات کی قبور کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے یمن میں امن و استحکام کی بجائے بے گناہ افراد کا خون بہا کر یہودیت کو خوش کیا جا رہا ہے۔ آج پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ یمن کے مسلمان امریکی و سعودی اتحاد کے مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں اور دلسوز مسلمان ان کی ہر طرح سے مدد کر رہے ہیں جبکہ پاکستان کے وزراء اور فضلہ خور میڈیا نہ صرف اس مظلومیت پر خاموش بلکہ ظالمین کی حمایت کرتے نظر آرہے ہیں۔؟

حلب اور شام پر واویلا کرنے والا نام نہاد میڈیا آل سعود کے مظالم پر خاموش کیوں ہے؟ کیا انہیں یمن میں جلتی انسانیت نظر نہیں آتی؟ کیا ان کے دل میں یمنی بچوں اور عورتوں کیلئے نرم گوشہ نہیں؟ کیا یہ اسلامی تعلیمات کے ساتھ کھلا مذاق نہیں؟
پانچ سالوں سے یمن کے مظلوم مسلمان حالت جنگ میں ہیں اور اب یہ جنگ صرف اسلحہ کی جنگ نہیں رہی بلکہ بھوک، پیاس، ادویات بلکہ اب یہ جنگ بیالوجیکل جنگ بھی بن چکی ہے کہ آئے روز سعودی و امریکی اتحاد یمن پر وبائی امراض پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ایمانی طاقت کے بل بوتے پر یمن کی مظلوم عوام مایوسی کا شکار ہوئے بغیر استعمار کے خلاف استقامت دکھا رہی ہے، آل سعود اور امریکہ کے وحشی درندوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اور ہمارا میڈیا اس ظلم کو فرقہ واریت کا نام دے کر مظلومیت کی آواز کو دبا رہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یمن کے حوالے سے مسلمانان جہاں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے؟ یا مسلمانوں کو مسئلہ یمن پر خاموش تماشائی بنے رہنا چاہیئے؟

جواب بالکل واضح ہے کہ مظلوم کی مدد و حمایت کرنا عقلی و شرعی طور پر واجب ہے، کیونکہ اسلام کی نظر میں حقیقی مسلمان وہ ہے، جو فقط اپنے بارے میں نہیں سوچتا بلکہ مسلمانان جہاں کے بارے فکرمند رہتا ہے۔ اسلام نے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے غافل رہنے کی اجازت نہیں دی۔ اس لئے مسلمانوں کو جسم واحد قرار دیا، جیسے جسم میں کسی ایک جگہ درد ہو تو پورے جسم میں درد ہوتا ہے۔ ویسے ہی مسلمان دنیا کے جس کونے میں رہتا ہو، اس کی چیخ و پکار سے باشعور افراد چیخ و پکار اٹھتے ہیں۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری ہے کہ مظلومیت کی آواز کو دنیا کے گوش و کنار تک پہنچائیں۔ دشمن کے ان ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس آگ کو ٹھنڈا کرے اور ظالمین کے خلاف آواز بلند کرے۔ عالم اسلام کو اپنے مسائل مل بیٹھ کر باہمی گفت و شنید سے حل کرنے چاہیں۔ عالم اسلام کو چاہیئے کہ وہ عالم کفر کو ایسا موقع ہی نہ دے، جس سے وہ مسلمانوں کے درمیان جنگ و جدل کی آگ لگا سکے اور اس آگ سے پھر اپنے مقاصد حاصل کرسکے۔
خبر کا کوڈ : 901018
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش