0
Wednesday 2 Dec 2020 20:34

بدلاو کی چڑیا

بدلاو کی چڑیا
تحریر: اسماء طارق، گجرات

کہتے ہیں کہ کسی شہر میں ایک پاگل رہتا تھا، جو روزانہ شہر کے دروازے پر کھڑا ہو جاتا اور سارا دن چلاتا رہتا، لوگو اٹھ جاو اب۔۔۔ اپنے حق کےلیے لڑو۔۔۔۔۔ کب تک یونہی غلامی کرتے رہو گے۔۔۔۔۔ لوگ اس کی باتوں پر ہنستے، اس کا مذاق اڑاتے کہ غلامی ختم ہوگی، کیسے ہوگی، کون کرے گا۔۔۔ کس کو موت آئی ہے عذاب اپنے سر لینے کی۔۔۔ پاگل ناقابل برداشت ہو جاتا تو وہ اسے پتھر مارتے، مگر وہ پاگل بھی ڈھیٹ تھا، مار کھاتا رہتا مگر پھر شروع کر دیتا وہی رام لیلا۔۔۔۔ آخر لوگوں نے فیصلہ کر لیا کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔۔۔۔ بس وہ پاگل روز صبح شروع ہو جاتا۔۔۔ ایک دن ایک بچہ باپ کے ساتھ کسی کام کی غرض سے دوسرے شہر جا رہا تھا۔۔۔ راستے میں اس کا پالا پاگل سے پڑا، وہ وہیں بیٹھے وہی سب چلا رہا تھا۔۔۔۔ کہ اٹھ جاو۔۔۔ کب تک غلامی کرو گے۔۔۔۔

اس بچے کے ذہن میں یہ بات پھنس گئی۔۔۔ ایک تحریک پیدا ہوگئی۔۔۔۔۔ وہ اب اسی کے متعلق صبح شام سوچتا۔۔۔۔ اسے تو اس سے پہلے یہ تک معلوم نہیں تھا کہ غلامی کیا چیز ہے، مگر اب سوال پیدا ہونے لگے، جو اسے الجھا رہے تھے۔۔۔۔۔ اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل ہر سوال کو کھوجنا شروع کر دیا۔۔۔ ان کے جواب کی تلاش شروع کر دی۔۔۔ وہ فرق جان گیا اور غلامی سے نفرت کرنے لگا۔۔۔۔ اب آزادی کی خواہش اسے ستانے لگی۔۔۔۔۔ غلامی سے نجات ہی اس کا مقصد بن گیا۔۔۔۔ اس کا اٹھنا بیٹھنا، سوچنا سمجھنا سب کچھ بدل گیا۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ تیس سال بعد وہ بچہ اس شہر کو آزاد کرا کر اس کا حکمران بن جاتا ہے۔۔۔۔

پاگل کا تبدیلی کا وہ لاپ کام کر گیا۔۔۔۔ لوگ کہتے رہے کہ کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔ کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔۔ ہم غلام پیدا ہوئے تھے۔۔۔۔ اور غلام ہی مریں گے۔۔۔۔ کہاں سے آزادی آئے گی، کون لائے گا۔۔۔۔۔ وہ سب آزادی چاہتے تو تھے مگر ان میں سے کوئی بھی اس کے لیے کوشش کرنے کو تیار نہ تھا۔۔۔۔ خود اپنی سوچ کو بدلنے کے لیے تیار نہ تھے، سو ان کے لیے بدلاو نہیں آیا۔ وہ غلام ہی مر گئے مگر جس نے اس کی قیمت ادا کی۔۔۔۔ اس کی خاطر کوشش کی، اس نے آزادی حاصل کر لی۔۔۔۔۔ایسے ہی ہم لوگ ہیں، جو چاہتے ہیں کہ حالات بدلیں۔۔۔۔ تبدلی آئے۔۔۔۔ لوگ خوشحال زندگی گزاریں۔۔۔ دنیا اچھی ہو جائے۔۔۔۔ معاشرہ خوبصورت ہو جائے۔۔۔۔ کوئی دھوکہ نہ دے۔۔۔ کوئی جھوٹ نہ بولے۔۔۔۔ سب کردار کے اعلیٰ ہو جائیں۔۔۔۔ اور ہم ترقی کر جائیں۔۔۔

مگر اس سب کے لیے مجھے کچھ نہ کرنا پڑے، میں رات کو سو جاوں اور جب میں صبح اٹھوں تو سب بدل چکا ہو۔۔۔۔ دنیا امن کا گہوارہ بن چکی ہو۔۔۔۔ تبدلی آچکی ہو۔۔۔ بالکل ایک نئی دنیا میری منتظر ہو۔۔۔۔ جیسے لوگوں نے عمران خان کو ووٹ ڈالتے ہوئے نئے پاکستان اور تبدیلی کے متعلق سوچا تھا کہ بس عمران خان وزیراعظم کا خلف لیں اور اللہ تعالیٰ نیا پاکستان ہمیں گفٹ کر دیں گے۔۔۔۔ مگر کیا ہوا، ابھی تک ہم انتظار کی سولی پر لٹکے ہوئے ہیں، مگر تبدیلی ہے کہ منہ ہی موڑے بیٹھی ہے۔۔۔ مان ہی نہیں رہی۔۔۔ اب تو لوگ خواہش کرنے لگے ہیں کہ نیا نہیں پرانا پاکستان ہی واپس کر دو۔ مسئلہ پتہ ہے، دراصل کیا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں سب مل جائے اور ہمیں کچھ کرنا بھی نہ پڑے۔۔۔۔ سب اچھا ہو جائے، ہم بے شک ویسے ہی رہیں، کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔

جناب جب بیس کی بیس کروڑ عوام یہی سوچے گی تو فرق تو ٹھیک ٹھاک پڑنا ہے۔۔۔۔ جناب اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہوگا۔۔۔ میں کسی شخص کو نہیں بدل سکتا، جب تک اس تبدیلی کو میں خود نہ مانوں۔۔۔۔ میں بدل گیا تو سب بدل جائے گا، مگر افسوس یہ کہ سب بدل جاتا ہے، بس اک میں ہی نہیں بدلتا۔۔۔۔ اب ایسے میں تو کچھ نہیں بدل سکتا۔۔۔ اور پھر ہم کو سب کچھ فوری (instant) چاہیئے۔۔۔ اب ایسے تھوڑی ہوتا ہے۔ ہر کام کو کرنے کا طریقہ ہوتا ہے اور اس کے ہونے میں وقت لگتا ہے۔۔۔ ہمارا کام تو ہے بھئی لگے رہو اور لگے رہو۔۔۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ مالی دا کم پانی لانا۔۔۔۔ مالک دا کم پھل پھول لانا۔۔۔ اور جب تک ہم خود کوشش نہیں کریں گے، کچھ ٹھیک ہونا بھی نہیں۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 901276
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش