QR CodeQR Code

امریکی الیکشن، سعودی عرب و اسرائیل کا گٹھ جوڑ اور ایرانی ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادہ کی شھادت

2 Dec 2020 17:37

اسلام ٹائمز: اس کارروائی کو ذہن میں رکھ کر کچھ چیزوں کو دیکھا جا سکتا ہے: نمبر1 اسرائیل، سعودی عرب اور امریکہ نے اس لئے یہ حملہ اس موقع پر کیا کہ اگر ایران جواب میں کوئی بڑا قدم اٹھاتا ہے تو جنگی صورتحال پیدا ہو جائے گی اور اس صورتحال سے امریکہ میں اقتدار کی منتقلی وقتی طور پر رک جائے گی، کیونکہ امریکہ کا قانون ہے کہ دوران جنگ اقتدار کی منتقلی کا عمل روک دیا جاتا ہے۔ نمبر2 جوبائیڈن کے آنے سے پہلے ہی ایسے سخت اور کشیدہ حالات پیدا کیے جائیں کہ ایران کے ساتھ خارجہ پالیسی میں کوئی مثبت تبدیلی کی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔


تحریر: عاشور حسین بلوچ

3 نومبر 2020ء بروز منگل کو امریکہ میں چھیالیسویں صدر کے چناؤ کیلئے انتخابات کا عمل شروع ہوا، ریپبلکن پارٹی کے سابق صدر و امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اپنی جیت کیلئے حد سے زیادہ پرامید تھے اور انہی کی طرح اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہو اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بھی اسی امید میں تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جوبائیڈن کو شکست دیں گے۔ صورتحال اس وقت خراب ہونا شروع ہوئی جب 4 نومبر کی رات کو غیر سرکاری نتائج میں ڈیموکریٹک پارٹی کے جوبائیڈن سبقت لیتے ہوئے دکھائی دیئے۔ سب سے پہلے تو ٹرمپ نے ووٹوں کی گنتی رکوانے، پھر اپنے سپورٹروں کے ذریعے احتجاج کروانے اور پرتشدد کارروائیوں کی دھمکیاں دلوائیں اور انہی 2 دنوں میں مختلف ریاستوں میں ایسے پرتشدد واقعات بھی ہوئے جن میں کچھ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کافی سارے زخمی ہوئے، بہرحال غیر سرکاری فائنل نتائج آنے کے بعد بھی ٹرمپ اس صورتحال کو ماننے سے انکاری تھے اور مسلسل دھاندلی کے الزامات لگاتے رہے۔

آخرکار سب نے ٹرمپ کو سمجھانا شروع کر دیا کہ وہ ان الزامات سے پیچھے ہٹ کر نتائج کو قبول کریں اور ساتھ کچھ سابق صدور نے دھمکیاں بھی دیں کہ ان کو وائٹ ہاؤس سے زبردستی نکالا جائے گا اور اس کا مکمل منصوبہ تیار ہوچکا ہے۔ آخر پر پھر ٹرمپ نے اپنی انگلی سپریم کورٹ پر ہی اٹھا دی اور اس پر الزام دھر دیا۔ اس کی دوسری طرف سعودی عرب کو بھی دھچکا لگا جو اربوں ڈالر ٹرمپ کی خارجہ پالیسیوں پر اور ان کے کہنے پر ہی دفاع پر لگا چکے تھے۔ یمن کے ساتھ حالت جنگ میں بھی تھے۔ اسرائیل کو بھی یہی خوف تھا کہ ٹرمپ نے 8 مئی 2018ء کو یک طرفہ اور غیر قانونی طور پر جامع ایٹمی معاہدے سے الگ ہونے کا جو اعلان کیا تھا اور ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی پر گامزن تھا، جوبائیڈن آ کر اس سے پیچھے نہ ہٹ جائیں یا اس میں کوئی لچک نہ دکھائیں۔ کیونکہ الیکشن سے قبل جوبائیڈن ایران سے دوستی اور خارجہ پالیسی میں لچک کا اظہار کر چکے تھے۔

دوسرا انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کی مئی 2018ء میں جامع ایٹمی معاہدے سے علیحدگی کی بھی مذمت کی تھی، تیسرا انہوں نے وزیر خارجہ کیلئے انٹونی بلنکن کے نام کا انتخاب کیا، جو ٹرمپ کی خارجہ پالیسیوں کا سخت مخالف تھا۔ اس پر صدر روحانی نے بھی نومبر کے وسط میں یہ بیان دیا کہ امریکہ سے تعلقات میں کچھ بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے اور زیادہ بہتر نہ سہی کم سے کم جنوری 2017ء والا تعلق واپس دونوں ممالک کے درمیان برقرار کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب چیزیں اسرائیل اور سعودی عرب کیلئے قابل قبول نہیں تھیں اور نہ ہی ٹرمپ کیلئے۔ اس لیے 22 نومبر بروز اتوار کو ایک یہودی کاروباری شخصیت اودی اینگل کے طیارے میں سوار وزیراعظم نتن یاہو اور موساد کے سربراہ یوسی کوھن بھی صوبہ تبوک کے شہر نئوم میں شام 8 بجے پہنچ گئے اور ان کے علاوہ مائیک پومپیو امریکی وزیر خارجہ بھی وہاں 5 گھنٹے رکے رہے اور سعودی ولیعہد محمد بن سلمان سے تفصیلی ملاقات کی۔

اس سے اگلے دن ہی سعودی حکومت کے نمائندے عبد اللہ المعلمی نے امریکہ کو ایران مخالف مشورہ دیا اور کہا کہ پرانا جامع ایٹمی معاہدہ اب مردہ ہوچکا ہے، امریکہ کو ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے علاوہ نیا اور سخت ایٹمی معاہدہ کرنا چاہیئے۔ اس خفیہ دورہ میں موساد کے سربراہ یوسی کوھن کا شامل ہونا زیادہ معنی خیز تھا، اس کے 4 دن بعد ہی 27 نومبر بروز جمعہ کو  2:40 پر دن دیہاڑے تہران کے مضافاتی علاقے دماوند میں ایرانی ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادہ کو ایک دہشت گردانہ کارروائی میں شہید کر دیا گیا۔ تحقیقات کے شروع میں ہی جو باتیں سامنے آئیں، ان میں پہلی یہی تھی کہ اس دہشت گردانہ حملے میں اسرائیلی ساخت کا اسلحہ استعمال ہوا، دوسرا اس میں 2 عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ شامل تھے، تیسرا منافقین خلق کے لوگ بھی شامل تھے، جو ایران میں ماضی میں بھی دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث رہے ہیں ان کی سربراہ مریم رجوی ہے۔ اس دہشت گرد گروہ پر 1981ء میں پابندی لگا دی گئی تھی۔ یہ اسرائیل، امریکہ اور سعودی سپورٹ سے ابھی تک باقی ہے۔

یاد رہے کہ 2018ء میں اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے خاص طور پر محسن فخری زادہ کا نام لیا تھا اور کہا تھا یہ نام یاد رکھا جائے، اسرائیلی فوجی امور کے ماہر آموس ہرہیل نے بھی اپنے بیان میں تسلیم کیا کہ یہ سائنسدان اسرائیلی ہٹ لسٹ میں شامل تھا اور اس کا قتل اسرائیل کی اسٹریٹیجک کامیابی ہے اور اس سے ایران کو بڑا نقصان پہنچا ہے، چاہے اس سے کشیدگی پیدا ہونے کا بھی خطرہ ہے۔
اس کارروائی کو ذہن میں رکھ کر کچھ چیزوں کو دیکھا جا سکتا ہے جیسے:
1۔ اسرائیل، سعودی عرب اور امریکہ نے اس لئے یہ حملہ اس موقع پر کیا کہ اگر ایران جواب میں کوئی بڑا قدم اٹھاتا ہے تو جنگی صورتحال پیدا ہو جائے گی اور اس صورتحال سے امریکہ میں اقتدار کی منتقلی وقتی طور پر رک جائے گی، کیونکہ امریکہ کا قانون ہے کہ دوران جنگ اقتدار کی منتقلی کا عمل روک دیا جاتا ہے۔
2۔ جوبائیڈن کے آنے سے پہلے ہی ایسے سخت اور کشیدہ حالات پیدا کیے جائیں کہ ایران کے ساتھ خارجہ پالیسی میں کوئی مثبت تبدیلی کی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔

اس کے بعد جوبائیڈن حکومت کو مجبوراً اسی طرح ایران کے ساتھ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی اور کشیدہ تعلقات کے ساتھ چلنا پڑے گا۔ ساتھ ہی ایران کو ایک بڑا نقصان بھی پہنچا دیا جائے، مگر کل پارلیمنٹ ایران میں جو بل پاس ہوا، اس کے بعد صورتحال نے نیا رخ اختیار کر لیا ہے کہ ایران پھر وہی تحمل اور صبر کے ساتھ سخت انتقام کے منصوبہ پر عمل کر رہا ہے۔ یورینیم کی افزدوگی میں 500 کلو گرام تک ماہانہ اضافہ، آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون ختم، ان کے تعینات کئے گئے نمائندوں کو واپس بھیجنا، جامع ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اور یک طرفہ فیصلوں کو ختم کرنا شامل ہے۔ اب صورت حال زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہوگئی ہے۔

سعودی حکومت کے نمائندے عبد اللہ المعلمی نے آج ہی نیا بیان دے دیا کہ محسن فخری زادہ کی موت اسلامی دنیا کا بہت بڑا نقصان ہے۔ 5 دن بعد یہ بیان دینا اور افسوس و دکھ کا اظہار کرنا ایسا لگ رہا ہے کہ سعودی عرب اب خود کو اس سے الگ کرنا چاہ رہا ہے یا کسی نئے منصوبے کے آغاز کے چکر میں ہے۔ اسرائیل نے بھی پوری دنیا میں اپنے سفارتخانوں اور مراکز میں سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی ہے۔ کیونکہ آنے والے دنوں میں ایرانی حکومت کی طرف سے جنگ کی کوئی منصوبہ بندی یا جلدی نہیں لگ رہی تھی نہ کسی بڑے حملے کی، مگر کل کے پارلیمنٹ میں بل پاس ہونے والے معاملے نے ایک بار پھر اسرائیل، امریکہ اور سعودی عرب کو مشکل میں ڈال دیا ہے، جو اپنی طرف سے جوبائیڈن کو ایران دوستی سے تو دور کرنا چاہ رہے تھے مگر یہ نہیں چاہتے تھے کہ ایران اتنے سخت اور انتہائی قدم اٹھائے، جیسے یورینیم کی افزودگی میں اضافہ اور ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اور وہ بھی اس وقت تک جب تک امریکہ سمیت تمام یورپین ممالک ایران پر تمام تر تجارتی و سفارتی پابندیاں ختم کریں اور واپس ایسے نئے ایٹمی معاہدے میں آئیں، جس میں ایرانی عوام کے تمام حقوق کا تحفظ ہو۔


خبر کا کوڈ: 901278

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/901278/امریکی-الیکشن-سعودی-عرب-اسرائیل-کا-گٹھ-جوڑ-اور-ایرانی-ایٹمی-سائنسدان-محسن-فخری-زادہ-کی-شھادت

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org