0
Friday 4 Dec 2020 18:54

جی بی میں نیشنل پارکس کی تعمیر کے نام پر زمینوں پر قبضے کا نئی گریٹ گیم اور اصل حل طلب مسائل

جی بی میں نیشنل پارکس کی تعمیر کے نام پر زمینوں پر قبضے کا نئی گریٹ گیم اور اصل حل طلب مسائل
تحریر: شیر علی انجم

گذشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے گلگت بلتستان کی نو منتخب کابینہ کی تقریب حلف برداری میں خصوصی طور پر شرکت کی۔ اُن کے مختصر دورہ گلگت کے حوالے سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ الیکشن کے دوران عوام سے کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے روڈ میپ دیں گے، لیکن اُن کی تقریر میں پنجاب کی سیاست اور مخالفین پر تنقید کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔ اُنہوں نے  وعدے کے مطابق عبوری آئینی صوبے کا باقاعدہ اعلان کرنا تھا، لیکن ایسا نہیں کیا، بلکہ جس نعرے کی بنیاد پر الیکشن لڑا تھا، اُسے ماضی کی طرح کمیٹی کے کھاتے میں ڈال دیا۔ گلگت بلتستان میں وہ تمام لوگ جو اس امید سے بیٹھے تھے کہ بس الیکشن جیتنے کے دوسرے ہی روز وزیراعظم صوبہ بنانے کا اعلان کر دینگے، ان کی امیدین دم توڑ گئیں۔

ہم یہاں یہ بحث نہیں کریں گے کہ گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی قسم کا صوبہ آئین میں ترمیم کرکے بن سکتا ہے یا نہیں، بلکہ وزیراعظم کو یاد دلائیں گے کہ اگر واقعی آپ گلگت بلتستان کے حوالے سے مخلص ہیں تو سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات یقیناً وزارت امور کشمیر کے کسی ٹیبل پر پڑی ہوں گی، انہیں نکال کر ان پر عمل درآمد کرائیں۔ لیکن یقیناً وہ ایسا نہیں کریں گے، کیونکہ اسلام آباد کے ارباب اختیار کو اس بات کا علم ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ میٹھے قسم کے وعدوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں، جنہیں طول دیتے رہنا ہے۔ اپنے مختصر دورے میں وزیراعظم نے ہمالیہ نیشنل پارک اور نانگاپربت نیشنل پارک بنانے کا اعلان کیا اور بتایا کہ تین ہزار چھے سو مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے نیشنل پارکس میں 5 فیصد گلگت کی اراضی شامل ہوگی ہے۔

یعنی وزیراعظم گلگت بلتستان میں تقریباً آزاد کشمیر کے برابر رقبے پر پارک بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ابھی تک ان پارکوں کے خدوخال اور حدود اربعہ سامنے نہیں آیا ہے، لیکن کچھ غیر مصدقہ حلقوں کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا ہے، جس کے مطابق اس پارک کے ذریعے خیبرپختونخوا کوہستان اور گلگت بلتستان کے درمیان بین الاقوامی سرحدوں کا بھی خاتمہ عین ممکن ہے۔ اگر واقعاً اس قسم کا کوئی ارادہ ہے تو یہ اقدام گلگت بلتستان کے حوالے خطرناک اور خطے کی جعرافیائی حیثیت کو ختم کرنے کی سازش ہوگا۔ یقیناً اس قسم کی باتیں گماں ہوسکتا ہے، کیونکہ مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کیلئے وزیراعظم کا موقف واضح ہے۔ ایسا کرنا ایک طرح سے کراچی ملٹری اگریمنٹ 1949ء کی سنگین خلاف ورزی ہوگا، جس کے تحت ریاست جموں کشمیر کی سرحدوں کا تعین پاکستان اور ہندوستان کے ملٹری آبرورز اور اقوام متحدہ کے مندوبین کی موجودگی میں طے ہے۔ صرف یہ نہیں یہ عمل معاہدہ کراچی اور سلامتی کونسل کے قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی ہوگا۔

وزیراعظم کے اعلان کے بعد گلگت بلتستان کے نومنتخب وزیراعلیٰ خالد خورشید نے میڈیا کو بتایا کہ ان پارکوں کی تعمیر سے گلگت بلتستان کے پانچ ہزار جوانوں کو روزگار ملے گا۔ سوال یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں جو پارکس پہلے سے موجود ہیں، اُن سے عام آدمی کو کیا فائدہ مل رہا ہے۔؟ دیوسائی نیشل پارک کی تعمیر سے پہلے وہاں بلتستان اور استور کے لوگ گرمیوں کے موسم میں گھاس چرائی کرتے تھے، مال مویشی کئی ماہ تک اُن علاقوں میں رکھتے تھے، لیکن دیوسائی نیشنل پارک بننے کے بعد وہ تمام علاقے عام آدمی کیلئے نو گو ایریاز بن چُکے ہیں۔ دوسری بات اس وقت سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گلگت بلتستان کی آبادی پندرہ لاکھ کے لگ بھگ ہے، جو کہ حقیقت میں پچیس لاکھ سے زائد ہونا خارج ازامکان نہیں۔ خطے میں تعلیم، صحت، زراعت کیلئے سہولیات کا فقدان اور بجلی جیسی اہم بنیادی ضرورت یہاں کے عوام کا اہم اور سنگین مسلہ ہے پارکس نہیں، کیونکہ گلگت بلتستان کا قریہ قریہ قدرتی طور پر پارک کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن حکومت آج تک مواصلاتی نظام کو ٹھیک کرنے میں ناکام رہی ہے، جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

پارکوں کی تعمیر کیلئے یقیناً جو زمین درکار ہوگی، وہ کسی گاوں یا علاقے کی چراگاہ اور گھاس چرائی کے طور پر مشترکہ عوامی ملکیت ہوگی اور گلگت بلتستان میں یہ مسئلہ گذشتہ دور حکومت میں بھی سنگین رہا ہے۔ اب 3600 کلومیٹر پارک کیلئے جو زمین استعمال ہوگی، یقیناً اس پر عوامی ردعمل بھی آئے گا، لیکن حکومت نے صرف اعلان کیا ہے، اس حوالے سے کوئی نقشہ سامنے نہیں آیا۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے گرما گرم بحث جاری ہے اور عوام اس فیصلے کو نیشنل پارک بنانے کے نام پر عوامی ملیکتی اراضیوں پر قبضے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ یقیناً گلگت بلتستان کے عوام پر ایک ظلم کا ایک نیا سلسلہ تصویر کیا جائے گا۔ لہذا حکومت کو معلوم ہونا چاہیئے کہ پارک گلگت بلتستان کے عوام کا مسئلہ ہے نہ ضرورت۔ لہذا اگر وزیراعظم عمران خان خطے میں واقعی خوشحالی لانا چاہتے ہیں تو پن بجلی گھر پر توجہ دیں، جس سے نہ صرف گلگت بلتستان میں روزگار کے مواقع پیدا ہونگے بلکہ پاکستان میں بھی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

بجلی سے نظام زندگی چلتا ہے، لیکن آج تک گلگت بلتستان میں بجلی گھر فقط کرپشن کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں، جس پر انکوائری ضروری ہے۔ اسی طرح سیاحت  گلگت بلتستان کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن اس ضمن میں سہولیات کا فقدان ایک سنگین مسئلہ ہے۔ حکومت روڈ نیٹ ورک پر توجہ دے، انٹرنیٹ کی فراہمی ہر علاقے میں یقینی بنائے، ہر ضلع میں نجی سطح پر ہوٹلوں اور سیاحتی مقامات کی تعمیر کیلئے قرضے فراہم کرے۔ ایسا کرنے سے گلگت بلتستان کی معیشت کے ساتھ دنیا میں پاکستان کا نام روشن ہوسکتا ہے۔ اسی طرح زراعت اور جنگلات کے شعبے پر اس سے پہلے کسی حکومت نے توجہ نہیں دی، لہذا زرعی ترقی اور جنگلات پر توجہ دے، جس سے عام آدمی کو فائدہ ہوسکتا ہے۔

صحت اس خطے کا سنگین مسئلہ ہے، مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں صرف گلگت شہر میں ہسپتالوں کی تعمیر پر سابق وزیراعلیٰ نے توجہ دی، دیگر اضلاع میں آج بھی بنیادی صحت کی سہولیات کا شدید فقدان ہے، اس پر توجہ دے۔ گلگت بلتستان کے دو اہم علمی مراکز قراقرم یونیورسٹی اور بلتستان یونیورسٹی کی صورتحال ابتر ہوچُکی ہے۔ بلتستان یونیورسٹی کا وائس چانسلر ایک سرکاری ملازم کے بجائے معاشرے میں ایک اسٹیک ہولڈر کے طور پر تمام قسم کی سیاسی، غیر سیاسی اور مذہبی تقاریب میں شرکت کرنے کو بھی ڈیوٹی کا حصہ سمجھ بیٹھا ہے، جو کہ یونیورسٹی کے کوڈ آف کنڈٹ کی سنگین خلاف ورزی ہے، اس پر توجہ دیں۔ یقیناً اس قسم کے ایشو پر توجہ دینا وفاقی حکومت کی اہم ذمہ داری ہے۔ پارکس کی تعمیر گلگت بلتستان کے غریب عوام کی ضرورت نہیں، کیونکہ خطے میں غربت رقص کر رہی ہے، غربت کا خاتمہ پارکس کی تعمیر سے ممکن نہیں بلکہ معاشی مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 901639
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش