0
Monday 7 Dec 2020 02:25

دسمبر کی راتیں اور جبری گمشدگان کا دکھ

دسمبر کی راتیں اور جبری گمشدگان کا دکھ
تحریر: ارشاد حسین ناصر

دسمبر کی طویل اور لمبی راتیں ہیں، سردی اپنے ہونے کا اظہار کر رہی ہے اور رات کی تاریکی، گھٹا ٹوپ اندھیرے میں رتجگے کے عادی ہوئے لوگوں کیلئے گہری سوچوں اور ان گنت، ان دیکھے دکھوں کی درد کی ٹیسیں برداشت کرتے سمے میں ہوا کی سنسناہٹ اور کسی طلسماتی شئے کی آمد کی ہولی سی آواز بھی سنائی دے رہی ہے، یہ دسمبر ہے، جو دن پر اتنا جلد غالب آجاتا ہے اور سورج کو اپنی تاریکی میں گھیر کے چٹختے ہوئے خوابوں کی دنیا میں جانے والوں کو نرم و گرم بستر پر لے آتا ہے مگر بے چین اور منتظر نگاہیں بھلا اس طویل اور تاریک راتوں وقت کو کیسے گزارتے ہیں یہ تو انہیں ہی علم ہے جن کی جاگتی آنکھوں میں بکھر جانے والے خواب رات کی تاریکی اور ہلاکت خیز خاموشی سے ہوتے ہوئے گہری نیند میں آن ٹپکتے ہیں۔ یہ خواب اپنوں کے بارے ہوتے ہیں، کسی دل کے جانی کیلئے، کسی ماں کی مامتا کی نشانی، کسی بہن کی آنکھوں میں ساون برستے بھائی کی چپکے سے آمد کے بارے، یہ خواب کسی سہاگن کے سہاگ کے بچ جانے کی نوید لئے، کسی کم سن بچے جس نے اپنے باپ کا وجود بھی نہیں دیکھا۔

اس کی ترستی اور الگ سے احساس کے لمس کی چاشنی اور کسی باپ کے بڑھاپے اور کمزوری کی امید، آسرے اور راحت جاں کے باعث کی اچانک سے سامنے آن کھڑے ہوئے بارے ہوتے ہیں، مگر دسمبر کی اس طویل رات اور گہری خامشی و اندھیرے میں کوئی نہیں آتا تو ایک نیا سورج ایک نئی نوید اور تازہ امید کیساتھ درختوں کے زرد پتوں سے اپنی تمازت سے آنکھوں میں امید کی کرن جگاتا ہے، نا جانے کس نے کتنی راتیں اور کتنے دسمبر ایسے گذارے ہیں، کون کون اس درد سے آشنا ہے، کون کون اس درد کو بتاتا ہے، امید کے چراغ جلاتا ہے، مرجھائے چہروں، گہری سوچوں کے عادی ان کنبوں کو سنبھالتا ہے، شائد کوئی نہیں، کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ ان کی داد رسی کیلئے خود کو مشکل میں ڈالے، کس کے پاس وقت ہے کہ ان دن بہ دن سوکھتے، مرجھاتے پودوں کو اپنے جسم و جان کا نذرانہ پیش کرے، تاکہ چمن آباد رہے، کاروبار گلشن چلتا رہے اور زندگی رواں دواں ہو۔

اب ان بند کواڑوں میں کوئی نہیں آتا، ان رستوں میں اب کسی کے آنے سے سنائی دینے والی قدموں کی چاپ اب سنائی ہی نہیں دیتی، بس ایسا لگتا ہے کہ قیامت کا سماں ہے اور قیامت کا سماں ٹھہر سا گیا ہے، کوئی سانحہ ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ قیامت کا سماں تھا، مگر یہ ایسے حادثے ہیں کہ قیامت آئی اور ٹھہر گئی، وقت وہیں رک گیا، جس تکلیف اور شدت کا احساس اس قیامت کے آنے پہ ہوا، وہ کافور نہیں ہو پایا، اس میں شدت آتی گئی، اسی شدت میں دسمبر کی یہ کئی طویل راتیں گذر گئیں، پچھلے برس بھی دسمبر آیا تھا تو ایسے ہی تھا، اب کی بار بھی شدت درد ویسے ہی ہے، اب تو کوئی درد شناس بھی نہیں آتا، کیا کریں، ہم اپنے گمشدہ اور آنکھوں سے اوجھل کئے جانے والوں کو بھلا تو نہیں سکتے، کوئی چین کی بانسری بجاتا رہے، ہمیں تو اس دن چین آئے گا، جب ہمارے بچوں کے چہروں پہ مسکراہٹ اور خوشی کا سماں ہوگا، جب ہماری بہنوں کی چادریں سنبھالنے والے بھائی گھر میں ہونگے، جب ہمارے باپ کی بزرگی کا آسرا انہیں سرد راتوں میں ماتھے پہ بوسہ لے کے سلانے والا آئے گا۔

برادران و خواہران، قائدین و زعمائے ملت، درد مندان و عشاق کربلا، فلاح و رفاح کے دعویداران و سیاست کے میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے کے دعویدارو، خدا کا نام ہے کچھ سوچو، کچھ کرو، ان کیلئے باہر نکلو، میدان میں آئو، حکمرانوں اور ذمہ دار حلقوں کے در پہ دستک دو، یہ کوئی عادی مجرم نہیں تھے کہ ان سے خود کو منسلک کرنے سے آپ داغدار ہو جائو گے، یہ اس ملک کے آئین اور قانون کو توڑنے والے نہیں کہ ان کی پیروی سے ہاتھ کھینچ لیا جائے، یہ کسی ذاتی مسئلہ کی وجہ سے اپنے پیاروں اور سماج سے غائب نہیں کئے گئے کہ ان سے دوری اختیار کر لی جائے، یہ تو ہمارے اپنے ہیں، یہ تو اس قوم کے فرزند ہیں، جس نے اس ملک کو بنایا ہے، یہ تو اس قوم کے جانثار ہیں، جس نے اس ملک کے اداروں کو اپنا خون دے کر سینچا ہے، یہ تو اس قوم کے فرزند ہیں، جس نے دفاع وطن کی ہر تحریک اور جنگ و امن میں بنیادی کردار ادا کیا ہے پھر کیوں انہیں انتہائی ناقابل قبول الزامات کے تحت غائب کیا گیا ہے؟

موت، جیل، پھانسی، قید، تشدد سب کچھ برداشت کیا جا سکتا ہے، اگر اس کا کوئی جواز ہو، کوئی جرم سر زد ہو، مگر بلا جرم، بغیر الزام کے کسی کو اس کے پیاروں کی آنکھوں سے اوجھل کئے رکھنا سراسر ناانصافی اور انسانی و اخلاقی اقدار اور قانون دنیا کے خلاف ہے۔ یہ بذات خود ایک مجرمانہ حرکت ہے، جس پر ہماری کمزور اور سکینڈلائز عدلیہ کوئی بولڈ اقدام اٹھانے سے قاصر نظر آتی ہے۔ اگر عدلیہ مضبوط ہوتی تو ایسا ممکن ہی نہیں ہوتا، عدلیہ کا ڈر اور خوف نہیں، یہاں سزا و جزا کے فیصلے لکھے لکھائے آتے ہیں، جس معاشرے میں انصاف اور عدل کھو جائے، وہاں کا نطام چل نہیں سکتا، وہ ممالک اور ریاستیں تباہ ہو جاتی ہیں، جہاں انصاف ناپید ہو جائے، بدقسمتی سے ہم ایک ایسے ہی ملک میں بستے ہیں، جہاں عدل و انصاف فقط نعروں میں اچھا لگتا ہے۔

ہم اگرچہ اپنی ملت کے نوجوانوں کیلئے تڑپتے ہیں، اس لئے کہ ہم انہیں جانتے ہیں کہ وہ بے قصور تھے، مگر ایسے بھی ہزاروں لوگ ہیں، جو اس ظلم کا شکار ہیں، ان میں بلوچستان کے لوگ بھی شامل ہیں، سندھ سے تعلق رکھنے والے بھی اور خیبر پختونخواہ سے بھی، پنجاب سے بھی ہیں۔ الغرض پورے ملک کے جوان ہیں، جنہیں غائب کیا گیا ہے، ان کے والدین، ان کے رشتہ داروں اور تعلق داروں نے احتجاج بھی کیا ہے، حتیٰ کوئٹہ سے اسلام آباد تک مارچ بھی کیا گیا ہے، کراچی میں دھرنے بھی ہوئے ہیں۔ لاہور، اسلام آباد میں مظاہرے ہوئے ہیں، اس کے باوجود قانون کی حکمرانی کا خواب چکنا چور ہے، عدلیہ پر اعتماد نہیں کیا جاتا اور جبری گم کردہ افراد پر پرچے کاٹ کر ان کو عدالت کے روبرو پیش نہیں کیا جاتا، جو ایک آئینی و قانونی راستہ ہے۔

جب اہل اقتدار اور مقتدر حلقے خود قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو ان غائب کئے گئے افراد پر کیسے الزام لگاتے ہیں کہ انہوں ملکی آئین و قانون کو پائمال کیا؟ دسمبر کی سرد اور طویل راتوں میں اپنے نرم و گرم بستروں پہ لیٹے ہوئے ذرا ان جوانوں، بھائیوں اور ملت کے چمکتے ستاروں کی زندگی اور کیفیت کیساتھ ان کے اہل خانہ کے درد کی شدت اور امیدوں کی ڈوبتی نائو بارے سوچیئے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، کیا ہمارا یہی کردار بنتا تھا، جو ادا کر رہے ہیں یا اس سے بڑھ کے کچھ کیا جا سکتا تھا اور نہیں کر رہے؟ یقیناً ضمیر کی عدالت اور بارگاہ خداوندی میں تنہائی کے ان لمحات میں مثبت سوچ سامنے آئیگی۔ لہذا اسی مثبت سوچ کو لے کر آگے بڑھیں، مبادا دیر ہو جائے، کسی ایک کیلئے دیر ہو جائے یا ہمارے کسی اقدام سے کوئی ایک خاندان ہم سے راضی ہو جائے اور خداوند کریم و مہربان کا لطف ہمارے شامل حال ہو جائے۔
خبر کا کوڈ : 902131
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش