0
Friday 11 Dec 2020 08:55

سادگی اور آسانی سے کامیاب ہوتی حکومت مخالف تحریک

سادگی اور آسانی سے کامیاب ہوتی حکومت مخالف تحریک
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

موجودہ حکومت کا نصف عرصہ پورا ہونے کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے پی ڈی ایم کے نام سے اتحاد بنا کر حکومت کے خاتمے کیلئے احتجاجی تحریک کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں عوامی جلسے کرنیکے بعد 13 دسمبر کو لاہور کے مینار پاکستان پر بڑا جلسہ منعقد ہوگا۔ اصل میں پاکستان مسلم لیگ نون نے اپنی احتجاجی تحریک کا آغاز اس وقت کیا، جب میان نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹایا گیا۔ اس دوران کسی دوسری جماعت نے پی ایم ایل این کا ساتھ نہیں دیا۔ لیکن جب 2018ء کے الیکشن میں عمران خان کو حکومت بنانے کا موقع دیا گیا تو مولانا فضل الرحمان نے باقاعدہ اس احتجاجی تحریک میں شمولیت اختیار کی۔ جی ٹی روڈ پر اسلام آباد سے لاہور مارچ کے دوران نواز شریف کی جانب سے ووٹ کو عزت دو کے نعرے کی حمایت میں تمام اپوزیشن جماعتیں شامل ہوچکی ہیں۔

کورونا وائرس کے خطرے کے باوجود گلگت بلتستان میں اپوزیشن جماعتوں اور حکومت دونوں نے بڑے بڑے جلسے کیے۔ لیکن حکومت جب کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی بات کرتی ہے تو صرف اپوزیشن کے جلسوں کا حوالہ دیتی ہے، جس سے حقیقت میں کورونا وائرس کیخلاف حکومتی حکمت عملی کا پول کھل جاتا ہے۔ اسی طرح احتساب کا نعرہ اب چینی اور آٹا اسکینڈلز کیوجہ سے حکمران جماعت کے رہنماوں کی زبانوں پر نہیں جچتا۔ خیر بات تو 2018ء میں الیکشن کے بعد اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس سے شروع ہوئی تھی، جہاں اپوزیشن دو حصوں میں بٹ گئی تھی کہ اسمبلیوں میں جایا جائے یا ایوان کے اندر سے احتجاج کا آپشن ختم کرکے سڑکوں پر آیا جائے۔ اس دوران یہ فیصلہ کیا گیا کہ حکومت کو سیاسی شہید بنانے کی بجائے انتظار کیا جائے اور عمران خان کی حکومت اپنے بوجھ تلے دب کر خود ہی گر جائیگی۔ اب تک حکومت گری تو نہیں لیکن اپنا بوجھ اٹھانے سے قاصر ضرور نہیں آتی۔

اسوقت سے اب تک اپوزیشن سڑکوں پر بھی ہے اور ایوان میں بھی شور مچا رہی ہے۔ عمران خان متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ مجھے ایوان میں بات کوئی نہیں کرنے دیتا۔ اب اپوزیشن کیساتھ ہر طرح کی گفتگو کے دروازے بند رکھنے والے وزیراعظم یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ قومی ایشوز پر اپوزیشن سے بات چیت کی جا سکتی ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت کی کمزوری اور مجبوری اس وقت ہی سامنے آگئی تھی، جب نواز شریف کو ضمانت دی گئی اور انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی۔ اسوقت نواز شریف نے نہ صرف حکومت بلکہ اسٹیبلشمنٹ کیخلاف بھی سخت موقف اپنایا ہوا ہے، کرپشن کے الزامات اور مقدمات کے باوجود مریم نواز نے لاہور کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مریم نواز اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے 13 دسمبر مینار پاکستان پر ہونیوالے جلسے کی تیاری کے سلسلے میں لاہور میں ہونیوالی ریلیوں سے پتہ چلتا ہے کہ آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ کا نام لیکر بات کرنے کے باوجود نون لیگ کو کہیں سے اشارہ ضرور ملا ہے۔

اگر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کوئی اشارہ نہیں ملا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست اور حکومت کے عمائدین کیخلاف نواز شریف کی سخت حکمت عملی شہباز شریف کی مفاہمت آمیز پالیسی کی نسبت زیادہ جاندار اور کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ شہباز شریف کیخلاف مقدمات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی سیاست مزید کمزور ہوئی ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور شہباز شریف مل کر چلنے کیلئے جو راستہ طے کر رہے تھے، اس پہ سفر آسان نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ عالمی طاقتوں بالخصوص عرب ممالک کی جانب سے نواز شریف کو ملنے والی اسپورٹ نے کام کر دکھایا ہے۔ رہی سہی کسر مہنگائی، لوڈشیڈنگ، حکومتی کرپشن اور نااہلی نے پوری کر دی ہے۔ پاکستان کی داخلی سیاست نئے موڑ پر ہے۔ اب مریم نواز اور لیگی قیادت کا کہنا ہے کہ حکومت سے نہیں، حکومت لانے والوں سے بات ہوگی۔

دوسری جانب مولانا فضل الرحمان، جو شروع سے ہی پارلیمنٹ میں نہ جانے کے قائل تھے، اب نواز شریف نے اپنے اراکین اسمبلی کو انہیں کے پاس اپنے استعفے جمع کروانے کا کہہ دیا ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اشاروں اور وعدوں کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی کامیابی حاصل نہیں کرسکی اور گلگت بلتستان کے سابق لیگی وزیراعلیٰ حفیظ الرحمان نے بلاول بھٹو کو خلائی مخلوق کیساتھ ساز باز کا طعنہ بھی دیا، جس کی تردید کسی لیگی رہنماء نے نہیں کی، اب پیپلز پارٹی بھی پی ڈی ایم کی دوسری جماعتوں کیساتھ کھل کر وزیراعظم سے استعفیٰ مانگ رہی ہے، سندھ حکومت سے تعلق رکھنے والے وزراء بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ سندھ حکومت بھی قربان کی جاسکتی ہے، اس کا مطلب ہے کہ عمران خان کو ہٹانے کیلئے پی ڈی ایم اب ایک پیج پر ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ دہائیوں تک وفاق اور صوبوں میں حکومت کرنیوالی مسلم لیگ نون نے اچانک اقتدار سے باہر رہ کر ہمیشہ عمران حکومت کیخلاف مولانا فضل الرحمان کی پارلیمنٹ سے باہر رہنے کی پالیسی کی تائید کی ہے، لیکن سندھ میں حکومت اور سینیٹ میں ڈپٹی چیئرمین شپ کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ محتاط رویہ اپنایا ہے۔ لیکن وقت کیساتھ ساتھ یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ مذکورہ اپوزیشن جماعتوں کی جڑیں پنجاب اور سندھ میں بالخصوص اور ریاستی اداروں اور ملکی نظام میں بالعموم بہت گہری ہیں۔ حکومتی اتحادی جماعتیں بھی اپوزیشن کی خاموش تائید کر رہی ہیں، کیونکہ عمران خان نے اقتدار کی باگ ڈور جن کے ہاتھ میں دے رکھی تھی، ان کے اپنے ہاتھ کرپشن میں رنگے ہوئے ہیں۔ شفافیت کا نام لیکر اتحادی جماعتوں کو لولی پاپ دینے کی حکمت عملی الٹا اثر دکھا رہی ہے۔

اگر لاہور میں 13 دسمبر کے جلسے سے پہلے پنجاب حکومت گر جاتی ہے یا عمران خان اپوزیشن کیساتھ بالواسطہ بات چیت کرتے ہیں تو بھی اور اگر لاہور جلسے کے بعد پی ڈی ایم اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کر دیتی ہے تو بھی، پی ٹی آئی کی پوزیشن کو سخت دھچکا لگے گا۔ سیاست کے رموز جاننے والوں کا کہنا ہے کہ جو اپوزیشن جماعتیں اس وقت استعفے دینے کی حکمت عملی کا اعلان کر رہی ہیں، انہون نے پہلے دن بھی یہی کہا تھا کہ ہم پارلیمنٹ میں نہیں جائیں گے، لیکن انہوں نے وقت کا انتظار کیا اور چوں چوں کا مربہ حکومت کو اپنے ہی بوجھ کیوجہ سے گرنے کا انتظار کیا۔ اس لیے حکومت کی طرف سے جب یہ کہا جاتا ہے کہ اپوزیشن تو عمران خان کا استعفیٰ لینے نکلی تھی، لیکن اب خود اپنے استعفے جمع کر رہے ہیں، یہ اپوزیشن کی ناکامی نہیں کہا جا سکتا۔

اسی طرح نواز شریف کو غدار قرار دیئے جانے اور شہاز شریف کی مفاہمت پہ مبنی پالیسی کو نون لیگ کو سخت موقف سے باز رکھتے ہوئے مریم کو سیاست سے آوٹ کرنیکی سیاست بھی ناکام نظر آتی ہے۔ ایک طرف مولانا فضل الرحمان سے لیکر بلاول بھٹو زرداری تک پی ڈی ایم کی ساری قیادت کو وقت اب ایک نکتے پہ لے آیا ہے، مریم نواز کے مقابلے میں شہباز شریف کی پوزیشن کمزور ہوچکی ہے، لاہور سے اسلام آباد مارچ کا عندیہ دیا جا چکا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اب حکومت اگر بات نہیں کریگی تو اس مارچ کو امن و امان کا مسئلہ قرار دیکر ریاستی ادارے ایک ہی وقت میں حکومت اور اپوزیشن دونوں سے بات کرینگے۔ پاکستانی سیاست ایک دفعہ پھر اسی موڑ پر پہنچ گئی ہے، جہاں سے لیگی حکومت کیخلاف دھرنوں سے اس کا آغاز ہوا تھا۔ اس دوران مخصوص ٹولے کا جو ہدف تھا، وہ پورا کر لیا گیا ہے، صرف ججز کو اس پر بات کرنے سے باز رکھا جائیگا، کوئی اور اب نہیں بولے گا۔
خبر کا کوڈ : 902971
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش