0
Sunday 13 Dec 2020 09:26

سیاسی افراتفری اور وبائی مرض کی دوسری لہر

سیاسی افراتفری اور وبائی مرض کی دوسری لہر
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

دسمبر 2019ء میں پوری دنیا میں پھیلنے والا کورونا وائرس بظاہر انسانی نظام تنفس کو متاثر کرتا ہے، لیکن وقت کیساتھ ساتھ اس وباء نے انسانی زندگی کو محدود کر دیا ہے، جس طرح وائرس میں مبتلا ہونیوالے فرد کا سانس رک جاتا ہے، اسی طرح اجتماعی، سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کا دم گھٹ رہا ہے۔ بعض اوقات تو شبہ ہوتا ہے کہ حکمران طبقہ ممکنہ طور پر سیاسی مخالفین کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کیلئے کورونا کی وجہ سے پیدا ہونیوالی فضاء کا سہارا لیکر احتجاج کو کمزور کرنے اور اپنی کمزوریوں کو چھپانے کیلئے بلاجواز پابندیاں عائد کر رہی ہے۔ ان شبہات اور خدشات کو بھلا کر یہ حقیقت سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ وبائی امراض اسی طرح مجموعی طور پر نہ صرف نظام صحت کو متاثر کرتی ہیں بلکہ تمام نظام ہائے زندگی کو محدود کر دیتی ہیں۔ لیکن جہاں تک حکومتوں کا تعلق ہے، عالمی میثاق برائے معاشی، معاشرتی و ثقافتی حقوق جسے زیادہ تر ممالک نے منظور کر رکھا ہے، کے تحت ہر فرد کو ''ممکنہ حد تک اعلیٰ ترین معیار کی جسمانی و ذہنی صحت'' کا حق حاصل ہے۔

اس لیے حکومتیں وبائی، متعدی، پیشہ ورانہ اور دیگر بیماریوں کی روک تھام، علاج اور کنٹرول کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی پابند ہیں۔ اس سلسلے میں موجودہ حکومت کے اقدامات بالخصوص اسمارٹ لاک ڈاون کی حکمت عملی کی پوری دنیا میں تعریف کی گئی۔ یہ وبائی مرض چونکہ ایک انسان سے دوسرے انسان کو لگ سکتا ہے، اس لیے سماجی فاصلہ اس کی ضروری احتیاط ہے، ورنہ تدارک ممکن نہیں رہتا۔ حکومت جب ضرورت کے مطابق اس پر عمل درآمد کی بات کرتی ہے تو سخت ردعمل ظاہر کیا جاتا ہے۔ لیکن انسانی حقوق کا عالمی قانون یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ صحت عامہ کو سنگین خطرات اور قوم کی زندگی کے لیے پُرخطر قومی ہنگامی حالات میں بعض حقوق پر پابندیاں جائز ہوسکتی ہیں، بس شرط یہ ہے کہ اُن پابندیوں کا قانونی جواز ہو، انتہائی ضروری ہوں، محدود مدت کے لیے ہوں، انسانی وقار کا احترام کریں، نظرثانی کے تابع ہوں اور مقصد کے حصول کے لیے موزوں ہوں۔

کووڈ-19 نامی وائرس کی وباء کی سطح اور شدت واضح طور پر صحت عامہ کے لیے ایک ایسا خطرہ بن گئی ہے کہ بعض حقوق پر پابندیاں ضروری سمجھی جا رہی ہیں، مثال کے طور پر نقل و حرکت کی محدودیت برقرار رکھنے کیلئے قرنطینہ۔ لیکن اس کے شواہد موجود ہیں کہ اس اصول اور قانون کے اطلاق میں مختلف طبقات کو امتیازی سلوک کا سامنا رہا ہے۔ اس لیے عدم شفافیت کیوجہ سے ہمہ پہلو بحران موجود ہے۔ ایسی صورتحال کو حکومت مخالف اپوزیشن جماعتیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی گردانتے ہوئے انتشار اور افراتفری کا ماحول پیدا کرکے اسے سیاسی ردؚعمل کا نام دے رہی ہیں اور پہلے سے معاشی بدحالی، کاروبار کی بندش، بے روزگاری اور مہنگائی کے شکار عوام کو مزید نقصانات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ حالانکہ پاکستان نے کورونا کی پہلی لہر کا مقابلہ بہتر انداز میں کیا، یہاں وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد پوری دنیا کے مقابلے میں کافی کم تھی۔ لیکن یہ واضح نہیں کہ اس وجہ ہماری قومی  پالیسی تھی یا ناقص غذاوں کے استعمال کیوجہ سے قدرتی قوت مدافعت تھی، ایک ایک الگ موضوع ہے۔

لیکن اب صورتحال ایسی ہے کہ ہمیں نہایت ہی تیزی سے پھیلتی ہوئی کورونا کی دوسری لہر کا سامنا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عالم انسانیت کو تاریخ کے مختلف ادوار میں ایسی آفات اور وباؤں کا پہلے بھی سامنے رہا ہے۔ اس وقت بھی اگر پچھلی صدی میں یونی 1918ء میں پہلی جنگ عظیم کے دوران پھیلے ہوئے اسپینش فلو  کی تاریخ پڑھی جائے تو کورونا وائرس کی دوسری لہر کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ہوا اس طرح کہ مارچ کے مہینے میں پھوٹنے والا یہ جان لیوا فلو اپریل، مئی، جون تک جنگل کی آگ کی طرح انگلینڈ، فرانس، اسپین اور اٹلی سمیت پورے یورپ میں پھیل گیا۔ حقائق یہ سامنے آئے کہ اس وباء کا پھیلاؤ جنگ میں شریک فوجیوں کی بڑے پیمانے پر نکل و حرکت کی وجہ سے ہی ہوا۔ بالکل ایسی ہی جیسے کورونا وائرس کی طرح اسپینش فلو بھی موسم گرما میں اپنی اونچائیوں کو چھونے کے بعد زور توڑنے لگا۔ اس وقت بھی عمومی طور پر لوگوں کا خیال تھا کہ اب اس سے چھٹکارا حاصل ہوگیا ہے، لیکن یہ صرف طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی۔

اس دوران اکتوبر میں جب اس کی دوسری لہر آئی، تو وہ پہلے سے کئی زیادہ خطرناک اور جان لیوا ثابت ہوئی۔ امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن (سی ڈی سی) کے اعداد و شمار کے مطابق اس وباء سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد پہلی جنگ عظیم میں مارے گئے، تمام لوگوں سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔ تقریباً دنیا کا ایک تہائی حصہ یعنی 50 کروڑ افراد اس وباء سے متاثر ہوئے اور ہلاکتیں 5 کروڑ کے لگ بھگ ریکارڈ کی گئیں، جس میں سے سب سے زیادہ اموات 1918ء کے ستمبر، اکتوبر اور نومبر میں ہوئیں۔ یہ وباء کے عروج کے مہینے تھے۔ صرف امریکا میں اُس وبا سے پونے 7 لاکھ افراد متاثر ہوئے، جبکہ صرف دوسری لہر کے دوران صرف اکتوبر کے مہینے میں ہی ہلاک ہونے والوں کی تعداد تقریباً دو لاکھ تھی۔ یہ ایک صدی پہلے کی بات ہے، لیکن اب صحت کی سہولتیں اور سائنسی ترقی کیوجہ سے کنٹرول ممکن ہے، البتہ احتیاطی تدابیر ضروری ہیں۔ پاکستان میں وباء اثرات کا جائزہ لیں تو پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس فروری 2020ء میں آیا اور شروع میں اسپینش فلو کی طرح اس دفعہ بھی لوگوں نے اسے معمولی سا فلُو سمجھا۔

لیکن بروقت حکومتی اقدامات اور لوگوں میں میڈیا میں آنیوالی دنیا بھر میں تباہی کی خبروں کی وجہ سے نئی وباء کے پیدا ہونیوالے خوف کیوجہ سے پابندیوں کو لاگو کرنے میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں ہوا۔ لیکن کچھ ہی مدت میں وباء نے اپنے اثرات دکھانا شروع کر دیئے۔ اسپینش فلو کی طرح کورونا بھی گرمیوں تک اپنی اونچائیوں کو چھو کر زور توڑنے لگا اور ہم بھی بے فکر ہو کر آہستہ آہستہ معمولات زندگی کی طرف بڑھنے لگے، یہ نظر انداز کرتے ہوئے کہ تاریخ ہمیں ایسے وائرس کے بارے میں کیا سکھاتی ہے۔ اب ہم بھی دوسری لہر کا شکار ہیں، لیکن عوام تو دور کی بات ہمارے لیڈران جن کو عوام نے ووٹ دے کر اپنا رہنما منتخب کیا تھا، وہ اس کی شدت کو نظرانداز کرتے ہوئے سیاسی محاز آرائیوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان میں اس وقت تقریباً روزانہ 3 ہزار کیسز ریکارڈ کیے جا رہے ہیں اور مثبت کیسز کی شرح تقریباً 10 فیصد ہے، لیکن سیاست دانوں کی ترجیحات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بے احتیاطی کو لے کر الزام تراشیوں کا کھیل کھیل رہے ہیں۔

اس صورتحال میں حقیقت یہ ہے کہ اگر حکومت نے اپنی سرگرمیوں کو کنٹرول کرکے ایک مثال قائم کی ہوتی تو آج صورت حال کافی مختلف ہوتی اور اپوزیشن کو جلسوں سے روکنا بھی آسان ہوتا۔ جس طرح پہلی جنگ عظیم کے دوران ہزاروں سپاہیوں کی نقل و حرکت کی وجہ سے اسپینش فلو پھیلتا گیا، کہیں ایسا نہ ہو کہ کورونا کی دوسری لہر کو پھیلانے کا ذمہ اپوزیشن کے جلسوں کے سر ہو۔ لیکن پہلے سے عدم استحکام کا شکار حکومت اپنی بقاء کی فکر میں ہے اور وباء کی روک تھام کیلئے ضروری پابندیاں عائد کرنے کے لیے درکار فیصلہ کن اقدامات کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے، دوسری طرف کرپشن میں ڈوبے اپوزیشن رہنماء عام آدمی کی صحت کی پروا کیے بغیر کورونا کی وجہ سے لاک ڈاون اور اس کے اثرات سے معاشی عدم استحکام کا شکار حکومت کو گرتی دیورا سمجھ کر اسے ایک دھکا کر گرانے کی فکر میں ہیں، حالانکہ حکومت اور اپوزیشن کو سیاسی اختلاف کو پس پشت ڈال کر انسانی المیہ ملحوظ رکھتے ہوئے، کورونا کے طوفان سے پیدا ہونیوالی صورتحال کو طاقت کے حصول کیلئے رسہ کشی کی نذر نہیں ہونے دینا چاہیئے۔
 
خبر کا کوڈ : 903170
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش