0
Sunday 13 Dec 2020 09:23

ایران امریکہ کشیدگی کی تاریخ، ایک جائزہ

ایران امریکہ کشیدگی کی تاریخ، ایک جائزہ
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

ڈونالڈ ٹرمپ کی امریکی انتخابات میں ناکامی اور جوبائیڈن کے برسراقتدار آنے کی خبروں نے ایک بار پھر اس موضوع کو زندہ کر دیا ہے کہ وائٹ ہائوس کا نیا مکین ایران کے بارے میں ماضی کی پالیسیوں کو تبدیل کر دے گا۔ اس موہوم امکان کو نظرانداز کرنا چاہیئے یا اس سے امیدیں وابستہ کرنا چاہیئں، اس کا فیصلہ ایران امریکہ تعلقات کی تاریخ پڑھ کر کرنا ہوگا۔ اس سلسلہ وار مضمون میں ایران امریکہ دشمنی کی تاریخ کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے خلاف امریکہ کی دشمنی کا اگر مرحلہ وار جائزہ لیا جائے تو اس کا آغاز فرروی 1979ء میں نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ امریکہ کی بدنام تنظیم سی آئی اے نے انقلاب کے فوراً بعد ایران کے بعض سرحدی علاقوں میں جہاں قومی اور لسانی تحریکیں چل رہی تھیں، ان میں اثر و نفوذ پیدا کرکے ان تحریکوں کو انقلاب اسلامی کے خلاف استعمال کرنے کی سازشیں تیز کر دیں۔ ان سازشوں کو کامیاب بنانے کے لیے تہران میں موجود امریکی سفارتخانہ جاسوسی کے مرکز کا کردار ادا کر رہا تھا۔

اس نام نہاد سفارت خانے میں انقلاب مخالف قومی و لسانی جماعتوں کو منظم کرنے اور انقلابی شخصیات و اداروں کو کمزور کرنے کی سازشیں کی جا رہی تھیں۔ امریکی سفارتخانے کے ان غیر سفارتی بلکہ جاسوسی کی کارروائیوں پر مبنی اقدامات اس بات کا باعث بنے کہ یونیورسٹی کے انقلابی نوجوانوں نے جنہیں "پیرو خط امام" کا نام دیا گیا، تنگ آ کر امریکی سفارتخانے پر قبضہ کرکے جاسوسی میں مصروف امریکی کارندوں کو رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا۔ امریکی سفارتخانے سے برآمد ہونے والے لاتعداد ڈاکومینٹس اور خفیہ کاغذات نے سب پر ثابت کر دیا کہ امریکی سفارتخانہ سفارتی پردے میں انقلاب اسلامی اور ایران کی نئی حکومت کے خلاف سازشوں کے جال بن رہا ہے۔ امریکہ اپنے سفارتخانے کے ذریعے انقلابی نوجوانوں کو کمزور اور انقلاب دشمن نمائندوں کو مضبوط کرنے کے ایجنڈے پر گامزن تھا، لیکن سفارتخانے پر قبضے نے تمام سازشوں کو طشت از بام کر دیا اور انقلاب دشمنی کا تہران میں کھلا ایک باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔

امریکہ نے اپنی جاسوسی کی کارروائیوں کو چھپانے کے لیے ایران پر سفارتکاروں کو اغوا کرنے کا الزام عائد کیا اور انہیں رہا کروانے کے لیے فوجی آپریشن کی منصوبہ بندی کی۔ امریکہ نے ایران کے بعض ہمسایہ ممالک کو اعتماد میں لیتے ہوئے ایک مسلح کارروائی کا منصوبہ بنایا جسے "پنجہ عقاب" کا نام دیا گیا۔ یہ فوجی آپریشن چند جنگی ہیلی کاپٹروں اور جنگی طیاروں کے ذریعے 25 اپریل 1980ء میں ایران کے ایک صحرا طبس میں انجام پایا، جہاں ایک پرانے رن وے کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ فوجی آپریشن خداوند عالم کی نصرت سے ریت کے طوفان کے ذریعے ناکام ہوگیا اور امریکہ کو دنیا بھر میں خفت اٹھانا پڑی۔ صحرائے طبس میں ہیلی کاپٹروں کے ٹکرانے اور امریکی کمانڈوز پر خوف طاری ہونے کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے اس آپریشن کو ناکام قرار دیتے ہوئے اسے فوری ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔

طبس میں شرمناک شکست کے بعد بھی امریکہ چین سے نہ بیٹھا۔ اس نے ایران میں بغاوت کے ایک نئے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی۔ امریکہ طبس کی شکست کے بعد اپنے زخم چاٹ رہا تھا اور زخمی سانپ کی طرح ایران کے اسلامی انقلاب کو نقصان پہنچانے کے لیے بے چین و بے تاب تھا۔ امریکہ نے اس مقصد کے حصول کے لئے "نوژہ ائیربیس" میں فضائیہ کے بعض افسران کی مدد سے ملک میں بغاوت کا آپریشن شروع کیا، جسے "نقاب" کا نام دیا گیا۔ نقاب نامی اس فوجی بغاوت میں عراقی ڈکٹیٹر صدام سمیت خطے کے بعض عرب ممالک براہ راست شریک تھے۔ امریکی سی آئی اے نے انقلاب مخالف ایرانی فوجی افسران کو اس بغاوت کے لیے تیار کیا، لیکن یہ خطرناک فوجی بغاوت عملی ہونے سے پہلے ہی انقلابی قوتوں کے علم میں آگئی اور پوری کی پوری سازش ناکام ہوگئی۔امریکہ کی طرف سے بغاوت کی یہ کوشش بھی بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی۔

اس کے بعد دشمن کا اگلا مرحلہ عراقی صدر صدام کے ذریعے ایران پر جنگ کا مسلط کرنا تھا، عراقی ڈکٹیٹر صدام نے ایران کے تازہ کامیاب ہونے والے انقلاب کو کمزور سمجھتے ہوئے بین الاقوامی سرحدوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران پر زمینی حملہ کرکے کئی سرحدی دیہانوں اور شہروں پر قبضہ کر لیا۔ امریکہ کی ایما پر مسلط کی گئی یہ جنگ آٹھ سال تک جاری رہی اور مشرق و مغرب کی تمام طاقتوں سمیت علاقے کے بعض عرب ممالک نے کھل کر صدام کا ساتھ دیا اور اس کی مالی، اسلحہ جاتی، سیاسی اور سفارتی مدد کی، لیکن صدام اور اس کے اتحادی اپنے ہدف میں کامیاب نہ ہوسکے۔ بارک اوبامہ کا ایک یادگار انٹرویو ہے، جس میں اس نے کھلم کھلا کہا تھا کہ اگر ایران کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو امریکہ ایران کی ڈیموکریٹک حکومت کے خاتمے کے لیے اقدامات انجام دیتا رہا ہے۔ ہم نے ماضی میں صدام کی حمایت کی، وہ بھی اس حالت میں جب ہمیں یقین تھا کہ اس نے ایران کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے اور بعد میں ہمارے لیے بھی سلامتی کے مسائل پیدا کئے۔

معروف امریکی دانشور نوام چامسکی نے دی نیشن کے رپورٹر سے انٹرویو میں کہا تھا کہ امریکی حکام اور میڈیا عرصے سے ایران کو ایک خطرناک مملکت قرار دینے میں مشغول تھا بلکہ وہ ایران کو کرہ ارض کی خطرناک ترین ریاست قرار دینا چاہتے تھے اور یہ سلسلہ صرف ڈونالڈ ٹرمپ ہی نہیں بلکہ اس سے بھی پہلے کا ہے۔ نوام چامسکی نے ایران کے خلاف امریکی دشمنی پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران کا قصور یہ تھا کہ اس نے ایک ڈکٹیٹر کو سرنگوں کیا تھا۔ ایسا ڈکٹیٹر جس کو امریکہ 1953ء میں اقتدار میں لایا تھا۔ یہ وہ استبدادی حکومت تھی، جس نے ایران میں پارلیمانی نظام کے خلاف بغاوت کرکے اپنے قدرتی وسائل سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں میں دے دیئے تھے۔ دنیا کے مسائل اس سے کہیں پیچیدہ ہیں کہ ہم اس کو سادگی سے بیان کر رہے ہیں، لیکن میری نظر میں ایران سے امریکہ کی دشمنی کی اصلی وجہ یہی ہے کہ اسلامی انقلاب نے امریکہ کے پٹھو ڈکٹیٹر حکمران کو اقتدار سے الگ کر دیا تھا۔

نوام چامسکی اس بات کا قائل ہے کہ عالمی تعلقات کا جو نظریہ کتابوں میں ملتا ہے، وہ اور ہے اور امریکہ کا نظریہ اور ہے۔ یہ ایک مافیائی نظریہ ہے، آج دنیا کے تعلقات مافیائی انداز سے چلائے جا رہے ہیں۔ امریکہ آج کی عالمی سیاست میں کسی طرح کی نافرمانی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، وہ عالمی سیاست کا ناخدا بن چکا ہے۔ 1953ء میں ایران میں آنے والی بغاوت امریکی سازشوں کا شاخسانہ تھی۔ امریکہ نے بظاہر امن و سلامتی کے نام پر ایران میں نفوذ پیدا کرکے ایران میں حکومت کو سرنگوں کیا تھا۔ روز ویلٹ اس بارے میں کہتا ہے 1953ء کی بغاوت کسی ملک کے خلاف سی آئی اے کی پہلی خفیہ سازش تھی، جو کہ ٹرومین کے دور صدارت میں ترتیب دی گئی تھی۔ امریکہ اس بغاوت سے اپنے مخصوص اہداف حاصل کرنا چاہتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی حکام میں سے اکثریت کی یہ خواہش تھی کہ ایران سے نکلنے والے تیل میں امریکی کمپنیوں کی شرکت بڑھے اور امریکہ ایران سے پٹرولیم کی پیداوار میں باقاعدہ حصہ دار ہو۔

البتہ بعض تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سازش اور بغاوت کا اصلی مقصد ایران میں کمیونزم کے نفوذ کو روکنا تھا، کیونکہ بعض ذرائع نے یہ خبریں بھی اڑائیں تھیں کہ ایران میں ایک کیمونسٹ نواز حکومت کے اقتدار کے قریب ہے۔ امریکہ نے ایران کے حوالے سے دو زاویوں پر مشتمل اسٹریٹجی اپنائی تھی، ایک طرف تیل اور قدرتی وسائل پر بلاشرکت غیرے قبضہ اور دوسرا ایران کو کیمونسٹ بلاک میں جانے سے روکنا۔ یہ سلسلہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت کے امریکی صدر ایزن ہاور نے اگست 1953ء میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکہ ایشیائی ممالک بالخصوص ایران میں کمیونزم کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے ضروری اقدام کرے گا اور اس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کر لی گئی ہے، ہم جلد ایشیاء میں کمیونزم کے داخلے کے راستے کو بند کرنے میں مصمم ہیں۔ اسی منصوبے کے تحت جون 1951ء میں برطانوی رہنماوں چرچل اور آنتھونی ایدن نے برطانوی وزارت خارجہ کو تجویز دی تھی کہ امریکہ اور برطانیہ مل کر شاہ پر مصدق کی حکومت کے خاتمے کے لیے دبائو ڈالیں اور یہ ایک طرح سے بغاوت کا اجراء تھا۔

معروف امریکی مورخ ڈیویڈ پیٹر ایران میں امریکی مداخلت کے بارے میں کہتے ہیں کہ ایران میں امریکی مداخلت ہمارے لیے بڑی سنگین ثابت ہوئی۔ امریکہ کی تیل کمپنیاں اس سیاسی مداخلت کا باعث بنیں، حالانکہ یہ عالمی ضابطوں کی خلاف وزری تھی اور کسی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت کے زمرے میں آتی ہے۔ امریکی انتخابات میں ڈیموکریٹ کے نمائندے برنی سینڈرز نے اپنی الیکشن کمپیئن میں مخالف امیدوار سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن سے مذاکرے میں ایران میں امریکی مداخلت کا پھانڈا پھوڑا تھا۔ برنی سینڈرز کا کہنا تھا کہ ایران میں امریکی مداخلت کا سابقہ پچاس ساٹھ سال قدیمی ہے۔ امریکی حکومت وہاں حکومتوں کو گرانے میں ملوث رہی ہے۔ ان میں سے ایک 1953ء میں ایران میں مصدق حکومت کے خلاف امریکہ کی حمایت سے انجام پانے والی بغاوت ہے۔ امریکی حکام کے مطابق امریکی انتظامیہ مصدق کو پسند نہیں کرتی تھی اور انھوں ںے ایک منتخب حکومت کو اقتدار سے علیحدہ کیا تھا۔

یہ بغاوت امریکہ اور برطانیہ کے مفادات کے لیے انجام دی گئی تھی۔ اس کے نتیجے میں شاہ ایران ایک ڈکٹیٹر کے طور پر سامنے آیا۔ برنی سینڈرز نے سی این این ٹی وی چینل سے گفتگو میں کہا تھا کہ ایران میں ایک جمہوری حکومت یعنی ڈاکٹر مصدق کی حکومت کو سرنگوں کرنا ایک سانحہ تھا۔ میں اپنی اس گفتگو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ امریکہ کو دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے۔ میرے خیال میں امریکہ کو اس کا نہ قانونی، نہ اخلاقی کسی بھی طرح کا حق نہیں ہے کہ دوسرے ممالک میں بغاوتیں کروائے، اس کے نتائج برعکس برآمد ہوتے ہیں۔ اس کے علاقے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایران کے خلاف امریکہ کی دشمنی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ایران امریکہ سے ڈکٹیشن لینے اور اس کو فرشی سلام کرنے پر تیار نہیں۔ آج امریکہ نے اسی بات کے ردعمل میں ایران کے خلاف مختلف طرح کی اور پیچیدہ جنگ شروع کر رکھی ہے۔
خبر کا کوڈ : 903428
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش